اسلام آباد(اے پی پی ) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ زیر تفتیش ملزمان کی وڈیوز لیک کرنا عدالتی نظام کی تضحیک اور انصاف کا قتل ہے‘ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ ملزمان کا میڈیا ٹرائل کرے‘ اس معاملے پر کسی بھی قسم کا عدالتی کمیشن بنانے کی ضرورت ہو تو صوبے ہی کر سکتے ہیں‘ وزارت داخلہ یا وفاقی حکومت کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی تاہم اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی طرف سے جو بھی معاونت درکار ہوئی فراہم کی جائے گی۔ پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران سید نوید قمر کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ کٹوتی کی تحاریک پر بحث صرف اس وزارت کے بارے میں ہوتی ہے جس پر بات جاری ہو،مادر پدر آزاد بحث کا کوئی جواز نہیں بنتا، پارلیمانی روایات کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے چند ماہ میں تین ویڈیوز لیک کئے گئے۔ وزارت داخلہ کی ذمہ داری قرار دیا جارہا ہے، کسی بھی صوبے میں قانون اور انتظامی ذمہ داری متعلقہ صوبے کی ہوتی ہے۔ میں نے اس حوالے سے سندھ حکومت کو خط لکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہونے والے واقعہ کی ذمہ داری بلوچستان کی تھی۔ خالد شمیم کے حوالے سے بھی تحفظات ہو رہے ہیں۔ ہم نے پیمرا اور سندھ حکومت سے کہا ہے کہ وفاقی حکومت ہر ممکن مدد کرنے کے لئے تیار ہے۔ یہ صرف سیاسی پوائنٹ ا سکورنگ کے لئے نہیں کیا جارہا ہم ہر ممکن تعاون کے لئے تیار ہیں۔ سید نوید قمر نے کہا کہ کابینہ ڈویژن کے دائرہ کار میں بہت سے ادارے آتے ہیں اس لئے بحث جنرل بحث بن جاتی ہے۔