ہم سب،آپ میں، ہم سے پہلے آنے والی اور ہمارے بعد براجمان ہونے والی نسلیں، ہم سب زندگی میں چھوٹے موٹے گھپلے کرتے ہیں، سیانے نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، سادہ لوح لوگوں کو چکر دیتے ہیں۔ انسان ہونے کے ناطے یہ علتیں ہمارے کھاتے میں لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ سرکاری ملازم ہونے کے ناطے ہم ایسے گڑھے کھودتے ہیں جو پھر کبھی نہیں بھرتے ۔ خزانے خالی ہوجاتے ہیں، آئی ایم ایف اور دنیا بھر کے ممالک سے امداد کی بھیک مانگتے ہیں، مگر گڑھے نہیں بھرتے۔ فنڈز ختم ہوجاتے ہیں، مگر ہمارے کھودے ہوئے گڑھے پھر کبھی نہیں بھرتے۔ کاغذی کارروائی کرتے کرتے فائلوں کے انبار جمع ہوجاتے ہیں، مگر گڑھے نہیں بھرتے۔ہم مرنے سے پہلے وراثت میں پر اسرار گڑھے اپنی آنے والی نسلوں کو دے جاتے ہیں۔ مگر یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنے گھپلے کسی پر عیاں ہونے نہیں دیتے،ہم اپنے گھپلوں کی پردہ داری کرتے ہیں۔کئی مرتبہ آپ نے دیکھا ہوگا بلکہ محسوس کیا ہوگا کہ ہم سانس نہیں لے سکتے ۔ سانس لینے میں ہمیں دشواری ہوتی ہے۔ جب ہم ٹھیک سے سانس نہیں لے سکتے تب دماغ کو پہنچنے اور تروتازہ رکھنے والی آکسیجن کم پڑ جاتی ہے۔ سر چکرانے لگتا ہے۔ دن میں تارے اور رات میں سورج دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر ہمیں آئی سی یو میں داخل کرنے کے بعد نلکیوں کے ذریعے آکسیجن ہمارے دماغ تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس جان لیوا بیماری کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔ مگر فقیر کچھ اور سمجھتے ہیں۔ جس طرح جسمانی بوجھ ہم ایک حد تک اٹھا سکتے ہیں، اس سے بڑھ کر ایک اونس مزید نہیں اٹھا سکتے، عین اسی طرح ہم ذہنی وزن بھی ایک حد تک اٹھا سکتے ہیں۔ ایک رتی برابر اضافی بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ضرورت سے زیادہ ذہنی بوجھ اٹھانے سے دماغ چکرا جاتا ہے۔ تب ہم سانس لینے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔
مگر مجھے سانس لینے میں دشواری نہیں ہوتی۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ میں گھپلے نہیں کرتا۔چکر نہیں دیتا۔گڑھے نہیں بھرتا۔میں ہر وہ کام کرتا ہوں جوآپ کرتے ہیں۔ میں بھی آپ کی طرح گوشت پوست کا انسان ہوں۔فرق صرف اتنا ہے کہ میں اپنے گھپلوں کی پردہ داری نہیں کرتا۔ کسی سے کچھ نہیں چھپاتا۔جو بوتا ہوں وہی کاٹتا ہوں۔ ایسی دانش مندانہ بات مجھے خواب میں ایک سفید پوش بزرگ نے بتائی تھی۔صدیوں سے سفید پوش بزرگ نے میرے خواب میں آنا چھوڑ دیا ہے۔ اب مجھے خواب میں کالی پوشاک میں ملبوس ایک بزرگ دکھائی دیتا ہے جس نے اپنی داڑھی اور سر کے بال جوکر چھاپ خضاب سے سیاہ کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ بھیانک باتیں بتاکر مجھے اپنے تابع کرنا چاہتا ہے۔ اس کی ڈرائونی باتیں سن کر میں خوفزدہ نہیں ہوتا۔مجھے اچھی اچھی باتیں بتانے والے سفید پوش بزرگ نے بتایا تھا کہ قدرت نے ہمیں دوکان اس لئے دئیے ہیں تاکہ ناپسندیدہ باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے باہر نکال دیں۔
سفید پوش بزرگ نے ایک مرتبہ نصیحت آمیز باتیں بتاتے ہوئے کہاتھا کہ بیٹا ہمیشہ یاد رکھنا کہ دماغ کے مقابلے میں دل کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ تمہارے جسم میں سب سے اہم دل نہیں، سب سے اہم دماغ ہے۔ دماغ پر کبھی بھی اتنا بوجھ مت ڈالنا کہ دماغ سہار نہ سکے۔ میں بزرگ کی ڈھکی چھپی بات سمجھ گیاتھا۔مجھے پتہ چلنے میں دیر نہیں لگی کہ اپنے کرتوتوں کو چھپانے اور ان کی پردہ داری کرنے سے دماغ پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ اپنے گھپلوں، ہیراپھیریوں، چوربازاریوں، فنڈ ہضم کرنے، دوسروں کا مال ہڑپ کرنے جیسے شاندار کارناموں کی پردہ داری کرنے سےبیچارے بھیجے پر خواہ مخواہ کا بوجھ پڑتا ہے۔ دماغ مائوف ہو جاتا ہے۔ پریشان ہوجاتا ہے۔ ٹھٹھر جاتا ہے۔ بیوی کو اپنی ساس اور ساس کو اپنی سالی سمجھنے لگتا ہے۔ ایسی صورت حال کے لئے میں قطعی تیار نہیں تھا۔ میرا سالا کرائے کا قاتل تھا۔وہ سیاستدانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے سپاری لیتا تھا۔ میں اپنے خونخوار سالے سے پنگانہیں لے سکتا تھا۔ میں نے اپنے شاندار کارناموں کو نظر بد سے محفوط رکھنے کے لئے کسی قسم کی لیپا پوتی سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں اپنے کارنامے کسی سے نہیں چھپائوں گا تاکہ میرا بھیجا خواہ مخواہ کے اضافی بوجھ تلے دب کر مائوف ہونے سے بچ جائے۔ اب میں سب کے لئے کھلی کتاب ہوں۔ جہاں سے چاہیں آپ مجھے پڑھ سکتے ہیں۔ مجھے کسی سے کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے پکڑے جانے کا بھی ڈر نہیں ہے۔ سفید پوش بزرگ نے کہاتھا کہ بیٹا گھنائونے کام کرتے ہوئے اپنے خلاف گواہی کی کوئی گنجائش مت چھوڑنا۔پاکستان میں مروج قانون گواہی کے بغیر تمہارا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ اپنی کارستانیوں کی بھول کر بھی کوئی نشانی مت چھو ڑ نا ۔ چونکہ میرے بدخواہوں کے پاس میرے خلاف ٹھوس شواہد نہیں ہیں اس لئے حریفوں اور رقیبوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ایک مرتبہ میں نے خود کو جادوگر نجومی ظاہر کیاتھا۔ میرا زبردست کاروبار چل پڑا تھا۔ آئے دن بڑے بڑے سیاست دان اور کرپٹ افسران میرے ہاں دھکے کھاتے پھرتے تھے۔ ایک مرتبہ پاکستان کی سیاست پر چھاپ چھوڑنے والے مشٹنڈے میرے پاس آئے تھے۔ وہ اپنے ساتھ ریس میں پہلے نمبر پر دوڑنے والا گھوڑا لے آئے تھے۔ بڑا ہی قابل دید گھوڑا تھا۔ سیاست پرچھاپ چھوڑنے والوں نے کہا، جادوگر ، کارنامہ کرکے دکھا۔ ریس میں دوڑنے والے گھوڑے کو تانگے میں جوتنے والا گھوڑا بنا دے۔ بس اس سے آگے میں آپ کو کچھ نہیں بتائوں گا۔ آپ خود اندازہ لگالیجئے کہ ریس میں پہلے نمبر پر دوڑنے والے گھوڑے کو میں نے کیا بنادیا ہوگا!