• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ہر سال وفاقی اور صوبائی بجٹوں کی ضخیم دستاویزات میں تعلیم سے متعلق حصوں کی تلاش اور ان کے مطالعے کی مشق ہمیشہ اس احساس کے ساتھ شروع ہوتی ہے کہ ہم ایک پسماندہ ملک کی بیمار معیشت کے تناظر میں تعلیم سے متعلق حقائق کا جائزہ لے رہے ہیں۔

ماضی میں بھی کبھی بجٹ دستاویزات کا مطالعہ اور ان میں تعلیم سے متعلق حصوں پر توجہ کسی بڑی امید اور توقع کے ساتھ نہیں کی جاتی رہی کیونکہ یہ ایک معلوم حقیقت رہی ہے کہ ہماری ریاست نے اپنی جو ترجیحات متعین کررکھی ہیں ان میں تعلیم کو انتہائی کم درجے پر رکھا گیا ہے۔ لیکن اس سال پاکستان کا بجٹ ایک ایسے اقتصادی ماحول میں پیش کیا گیا ہے جو خود ہمارے ماضی کے معیارات کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکلات کا آئینہ دار ثابت ہوا ہے۔

تلخ معاشی کوائف

حقائق یہ ہیں کہ ملک کی داخلی پیداواری صلاحیت زوال پذیر ہے یا اس کو عمداً روبہ کار لانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ آبادی میں اضافہ روز افزوں ہے ۔اگر حالیہ مردم شماری کو بالکل درست مان لیا جائے تو ملک کی آبادی 25کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ آبادی میں شرح نمو تین فی صد ہے۔ بے روزگار اور بے ہنر نوجوان ایک جمِ غفیر کی حیثیت اختیارکرچکے ہیں۔ ملک کی آبادی کا کوئی ساٹھ فیصد حصہ تیس سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے ، ان کا بھی ایک بڑا حصہ یا تو ناخواندہ ہے یا محض ڈگری یافتہ اور کسی ہنر سے محروم ہے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق دس کروڑ کے قریب لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ، ان کا اور بعض دوسرے ماہرینِ معیشت کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان 1971ء کے اقتصادی بحران سے زیادہ بڑے بحران کا سامنا کررہا ہے۔ قومی ترجیحات کے غیر حقیقی اور اقتصادی نقطۂ نظر سے غیر موزوں ہونے کے ساتھ ساتھ داخلی پیداواری صلاحیتوں سے اغماز، نیز اشرافیہ کو ٹیکسوں کے نیٹ ورک میں لانے سے احتراز(اس وقت ایسے سب لوگ جن پر ٹیکس لاگو ہوسکتا ہے، ان کا صرف 7فیصد حصہ ہی ٹیکس ادا کررہا ہے) کے بعد معیشت کے کاروبار کا دارومدار آئی ایم ایف کی امداد اور اس کے قرضوں پر ہوچکا ہے۔ حالیہ بجٹ میں اخراجات کا 50فیصد سے زیادہ قرضوں کی ادائیگی کی مد میں رکھا گیا ہے۔

آئی ایم ایف کی کڑی شرائط، داخلی سیاست کی مجبوریاں 

ادھر آئی ایم ایف کسی رو رعایت کے موڈ میں نہیں ہے۔ ماضی میں جب پاکستان امریکہ کے علاقائی مفادات کے لیے ناگزیر ہوتا تھا تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بھی اپنا ہاتھ ہلکا رکھا کرتے تھے۔ اب امریکہ کی کوئی ایسی بڑی مجبوری ہے نہیں کہ وہ پاکستان کے لیے کسی مروت کا مظاہرہ کرے۔ بڑی حد تک امریکی اشاروں پر فیصلے کرنے والے بین الاقوامی مالیاتی ادارے اب پاکستان کو شیر کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور اس کے منہ میں گِن گِن کر نوالے ڈالتے ہیں۔

پاکستان اقتصادی خودمختاری سے یکسر محروم ایک ایسی محتاج معیشت کا ملک بن چکا ہے جس کا جملہ دارومدار اب اس بات پر ہے کہ آئی ایم ایف کب اس پر رحم کھاتا ہے اورخود آئی ایم ایف کی مدد اب اس بات سے مشروط ہوتی ہے کہ پہلے پاکستان دوسرے ملکوں مثلاً چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مدد لے کر دکھائے تب وہ اس کو قرض یا امداد کی رقم کی اگلی قسط ادا کرے گا۔

آئی ایم ایف اب ہماری معیشت کے ایک ایک گوشے یہاں تک کہ بجٹ کی ایک ایک شق کو اپنی مرضی کے مطابق طے کروانا چاہتا ہے ،ایسے میں موجودہ حکومت کو مستقبل قریب میں انتخابات کروانے اور بجٹ کو اس انتخاب کے نقطۂ نظر سے تیار کرنے کی مجبوری بھی لاحق ہے ، سو وفاق اور صوبوں نے آئندہ برس کے لیے اپنے بجٹ بناتے وقت مقبول عام(Populist) فیصلے کرنے کی بھی ٹھانی ہے جس کو آئی ایم ایف نے سخت ناپسند کیا ہے۔

داخلی اور بیرونی بندشوں میں جکڑی ہوئی اور پاپولسٹ فیصلے کرنے پر مجبور وفاقی اور صوبائی حکومتیں جو بجٹ پیش کرپائی ہیں وہ بعض متنازعہ پاپولر اقدامات کے باوجود مجموعی طور پر کسی بہت زیادہ پُرامیدی کا پیغام نہیں دیتے، ظاہر ہے کہ جب برسوں سے ترقی کے غلط اقتصادی فلسفوں اور غلط حکمت عملیوں کے نتیجے میں سب ہی اقتصادی اشاریے زوال آمادہ ہوں ،مجموعی قومی پیداوارکی شرحِ نمو 0.29فیصدتک گِر چکی ہو (گذشتہ سال یہ شرح6.1فیصد تھی)،افراطِ زر38فیصد تک پہنچ چکا ہو، بیرونی قرضوں کی واپس کے لیے مہلتیں مانگی جارہی ہوں، ایسے میں اگر حکومت چاہے بھی تو تعلیم کے شعبے میں اس کے لیے بہت کچھ ہمت افزا اقدامات کرنے کی گنجائش کم ہی نظر آتی ہے۔

وفاق کا مخدوش تعلیمی منظر نامہ اور بجٹ کے اقدامات

اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں گوکہ تعلیم صوبوں کی طرف منتقل کی جاچکی ہے مگر وفاق کی سطح پر بھی تعلیم کے شعبے میں بہت سے اختیارات ابھی بھی مرتکز ہیں۔ ملک میں یونیورسٹیوں سے لے کر اسکولوں تک تعلیمی اداروں کا ایک بڑا ڈھانچہ براہ راست وفاق کے زیر نگرانی قائم ہے۔ یہ سب ادارے نہ صرف پالیسی اور مالیات کے حوالے سے مرکز کے مرہونِ منت ہیں بلکہ ان کی نصاب سازی بھی براہ راست مرکزی وزارتِ تعلیم اور ایچ ای سی کے تحت ہوتی ہے۔ اسلام آباد وفاقی دارالحکومت ہے لہٰذا وہاں کا تعلیمی نظام بھی مرکز کے زیر نگرانی چلتا ہے۔

ان سب سے قطع نظر مرکز میں ہائر ایجوکیشن کمیشن غیر معمولی اختیارات کے ساتھ قائم ہے جو ملک بھر کی جامعات کی مالیات کا انتظام و انصرام کرتا ہے ۔آئندہ مالی سال(2023-24)ء کا بجٹ پیش کرتے وقت وفاقی وزیر خزانہ محمداسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ نئے بجٹ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں 136ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ان میں66.3ارب غیر ترقیاتی اخراجات ہوں گے جن میں تنخواہوں اور پنشن جیسے اخراجات ِجاریہ شامل ہوں گے۔

جبکہ59.7ارب روپے138جاری ترقیاتی منصوبوں اور 28نئے منصوبوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک پاکستان انڈائومنٹ فنڈ قائم کیا جارہا ہے جو تعلیم کے شعبے میں مالیاتی تعاون فراہم کرے گا۔ اس مقصد کے لیے 5ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس رقم سے اسکولوں اور کالجوں کے طالبعلموں کو وظیفے دیے جائیں گے۔ ایک اور اسکیم ایک لاکھ طالبعلموں کولیپ ٹاپ دینے کی بھی بنائی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے 10ارب روپے کی رقم بجٹ میں مختص کی گئی ہے۔ تعلیمی بجٹ میں جن نئی اسکیموں کو جگہ دی گئی ہے ان میں ملک کی پانچ بڑی انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں لیبارٹریز کی تعمیر و ترقی کی مد میں1200ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ500ملین روپے سابقہ قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان میں اعلی تعلیم کی سہولیات کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

اعدادوشمار کی یہ تفصیل وفاقی سطح پر تعلیم کے منظرنامے کے نہ تو مسائل کی نشاندہی کرتی ہے اور نہ ہی یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ یہ منظرنامہ اعلان کردہ رقوم کے بعد کس طرح بہتر بن پائے گا۔ ملک میں خاصے بڑے پیمانے پر یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں اور جس طرح سے موجود یونیورسٹیوں کے دوسرے شہروں میں کیمپس بنائے گئے ہیں اس کے نتیجے میں جس طرح کا انفراسٹرکچر بننا چاہیے تھا ، جس تعداد میں اساتذہ بھرتی کیے جانے چاہیے تھے یا طلبہ کو جس مقدار میں سائنسی آلات اور کیمیکلز فراہم ہونے چاہیے تھے وہ بالعموم نہیں ہوسکے ہیں۔

بجٹ میں تعلیمی اداروں کے انفراسٹرکچر اور ان کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے درکار چیزوں کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں تنخواہیں اور پنشن دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ بعض یونیورسٹیوں میں پنشن قسطوں میں ادا کی جارہی ہے ، کوآپریٹو ٹیچرز مہینوں اپنے بِل حاصل نہیں کرپاتے ۔یونیورسٹیوں کے سلیکشن بورڈ برسوں منعقد نہیں ہوتے کیونکہ ان کے پاس نئے بھرتی ہونے والوں کے لیے مالیاتی وسائل موجود نہیں ہیں۔ یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی ہڑتالیں معمول بنتی جارہی ہیں۔ یہ تما م کوائف یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ وفاق کے زیر انتظام اداروں میں بحیثیت مجموعی ایک بحران کی کیفیت پائی جاتی ہے۔

بجٹ کے موقع پر کی جانے والی وفاقی وزیر خزانہ کی تقریر اور بجٹ دستاویزات اس صورت حال کے علاج ہی کے بارے میں خاموش نہیں ہیں بلکہ اس صورت حال کے ادراک سے بھی محرومی کا تاثر دیتی نظر آتی ہیں۔ بجٹ کی مجموعی مایوس کن صورت حال میں جو ایک پاپولسٹ اقدام سوچا گیا ہے وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کیا جانے والا اضافہ ہے جس سے تعلیمی شعبے سے وابستہ اساتذہ اور ملازمین بھی مستفید ہوں گے۔

بظاہر ایک سے سولہ گریڈ کے ملامین کی تنخواہوں میں35فیصداور گریڈ سترہ سے اوپر کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30فیصداضافہ ان ملازمین کو خوش کرنے کی ایک کاوش نظر آتا ہے، شاید کسی حد تک یہ ایک اچھی خبر کی حیثیت بھی رکھتا ہو لیکن ملک میں افراط زر کی شرح کو دیکھتے ہوئے یہ اضافہ کوئی بہت دیر پا خوشی کا باعث قرار نہیں پائے گا۔

غیر حقیقی اہداف

جس طرح بجٹ میں ہمیشہ کی طرح آیندہ کے لیے غیر حقیقت پسندانہ اہداف رکھے گئے ہیں، اسی طرح تعلیم کے شعبے کے اہداف بھی حقیقت حال سے ارادی یا غیر ارادی طور پر چشم پوشی کے مظہر ہیں۔2022-23ء میں معیشت کی شرح نمو 0.29فیصد رہی ہے جبکہ اگلے مالی سال کے لیے اس کا ہدف 3.5فیصد رکھا گیا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں بھی اہداف متعین کرتے وقت غیر حقیقت پسندانہ طرز ِعمل کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔ مثلاً ماضی میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ 30جون2030ء تک اسلام آباد میں اسکولوں سے باہر رہ جانے والے بچوں کی تعداد صفر پر آجائے گی۔

خیال تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں ایسے بچوں کی تعداد 57,000 ہے۔مگر جون کے وسط تک یہ ہدف حاصل نہیں ہوسکا تھا بلکہ نئے سرویز کے مطابق یہ تعداد 80,000 سے بھی اوپر ہے۔ اب آیندہ بجٹ میں ایسے بچوں کے اسکولوں میں داخلے کو یقینی بنانے کے لیے اور اس غرض سے اُن کو مالی اعانت فراہم کرنے کی خاطر200ملین کا پروجیکٹ بنایا گیا ہے۔ آیندہ مالی سال میں اس مد میں 150ملین روپے خرچ کیے جائیں گے۔ 

آیندہ مالی سال میں اس ضمن میں کتنی کامیابی حاصل ہوتی ہے،اس حوالے سے ملک کی مجموعی صور ت حال میں بہتری کی رفتار کو سامنے رکھیں تو زیادہ پر امیدی کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ واضح رہے کہ برسہا برس کی منصوبہ سازی کے باوجود پاکستان میں اس وقت دو کروڑ تیس لاکھ بچے اسکولوں میں داخل نہیں ہیں۔

سندھ کا تعلیمی بجٹ

اگر وفاقی بجٹ عالمی مالیاتی اداروں اور امداد دینے والے ملکوں کے تعاون، قرضوں کی واپسی (جس پر بجٹ میں درج اخراجات کا نصف سے زیادہ صرف ہوگا)،دفاع کے اخراجات (بجٹ کا تیرہ فیصد) اور ٹیکس جمع کرنے کے ایک محدود دائرے کی بندشوں کا شکار ، اور ایک بیمار معیشت کا آئینہ دار ہے ، تو صوبائی اقتصادی مسائل کے اسباب نسبتاً مختلف ہیں۔ مثلاً سندھ کی مالیاتی صورت حال یہ ہے کہ آئندہ سال اس کے کُل صوبائی اخراجات کا تقریباً 20.90 فیصد صوبائی مالیات سے پورا ہوگا جبکہ بقیہ 79فیصد اخراجات این ایف سی ایوارڈ کے توسط سے اس کے حصے میں آنے والی رقم ، وفاق سے ملنے والی امداد، اور بیرونی اعانت اور قرضوں سے پورا ہوں گے۔2009ء میں طے پانے والا این ایف سی ایوارڈ جو اب تک جاری ہے حالانکہ آئین کی رُو سے یہ ایوارڈ ہر پانچ سال بعد آنا چاہیے، پر اب دوسرے صوبوں کی طرح سندھ کے بھی بعض تحفظات سامنے آچکے ہیں مگر اندریں حالات اس کے وسائل وہیں ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔ یہ وسائل کم ضرور ہیں لیکن اگر سندھ میں جملہ شعبہ ہائے زندگی میں بہتری اور ترقی کی رفتار سست ہے تو اس کا واحد سبب وسائل کی کمی ہی نہیں بلکہ ان کا مناسب استعمال نہ ہونا بھی ہے ۔دوسرے صوبوں کی طرح سندھ میں بھی کرپشن ایک معمول بن چکا ہے جس کے نتیجے میں دستیاب وسائل بھی درست طور پر استعما ل نہیں ہوپاتے۔تعلیم کا شعبہ بھی اس وبا سے محفوظ نہیں ہے۔

2023-24ء کے صوبائی بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے 312.245بلین روپے رکھے گئے ہیں جو گذشتہ مالی سال میں تعلیم کے لیے مختص کردہ رقم یعنی 292.47بلین کے مقابلے میں 7فیصد زیادہ ہے۔ نئے سال میں تعلیمی بجٹ کا استعمال مختلف مدوں میں ہوگا۔بجٹ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ پرائمری اور مڈل اسکولوں کے لیے 58,000اساتذہ میرٹ کی بنیاد پر ، اور آئی بی اے (سکھر) اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے امتحان کے ذریعے بھرتی کیے جائیں گے۔

اس کے علاوہ نئے مالی سال میں اساتذہ کی 2582مزید اسامیاں پیدا کی جائیں گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ پرائمری اسکولوں کا درجہ بڑھا کر ان کو سیکنڈری اسکول بناتی رہی ہیں۔ 150سیکنڈری اسکولوں کو اپ گریڈ کرکے سیکنڈری اسکول بنایا جارہا ہے۔اس مقصد سے 892نئی اسامیاں پیدا کی گئی ہیں جس پر 846.709ملین روپے صرف ہوں گے۔

کالجوں کی گنجائش(capacity) بڑھانے کے لیے 26.78 بلین روپے بجٹ میں رکھے گئے ہیں۔ اس رقم میں کالجوں کے فرنیچر اور متعلقات کے لیے 400ملین اور عمارتوں کی حالت بہتر بنانے اور ان کی مرمت کے لیے 425ملین روپے کی رقم شامل ہے۔ آیندہ سال سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے 1500نئے لیکچرار منتخب کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ 23نئے کالج بھی قائم کیے جائیں گے جن کے لیے 445نئی اسامیاں نکالی جائیں گی۔ اس سلسے میں بجٹ میں 403ملین روپے رکھے گئے ہیں۔

سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے بجٹ کی کُل رقم یعنی 23.076 بلین روپے میں سے 987.8ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ یونیورسٹیوں کو ملنے والی گرانٹ 569ملین سے بڑھا کر 987.8ملین کردی گئی ہے۔وزیراعلیٰ جو سندھ کے وزیر خزانہ بھی ہیں، نے اپنی بجٹ تقریر میں سندھ ایجوکیشن فائونڈیشن کی گذشتہ برسوں کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے اس کے لیے مختص کردہ موجودہ رقم کو 13.299بلین روپے سے بڑھا کر 15.600بلین روپے کردی ہے ۔

بجٹ میں 2.53بلین روپے مفت کتابوں کی تقسیم کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 1.553بلین روپے غیر رسمی تعلیم کے سینٹرز کے لیے رکھے گئے ہیں۔ان سینٹرز کا کام ایسے بچوں کے لیے تعلیم کا بندوبست کرنا ہے جو باضابطہ طور پر کسی اسکول میں داخل نہیں ہیں۔بجٹ میں خواتین کی خواندگی کی شرح بڑھانے کے لیے بھی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

الغرض سندھ کا بجٹ مختلف مدوں میں اخراجات میں اضافوں کی نشاندہی کررہا ہے ،لیکن جیسا کہ کہا گیا کہ سندھ میں اصل آزمائش صرف وسائل کی دستیابی نہیں ہے کہ وسائل تو بہرحال بہم ہیں ، گواتنے نہیں ہیں جتنے کہ ہونے چاہیے تھے،مگر جو وسائل دستیاب ہیں ان کو بھی مثبت ،منصفانہ اور شفاف طریقے سے استعمال کرنا اصل آزمائش ہے۔

ماہرین تعلیم اور اساتذہ سے گزارش

تعلیم کی صورت ِحال آپ کے سامنے ہے ۔پاکستان کے قیام کو 75 سال برس گزر گئے لیکن ہم اب تک ایک قوم بن سکے اور نہ ہی تعلیم پر توجہ دے سکے آج تک ان ہی سوالوں کے گرد اُلجھے ہوئے ہیں کہ ہمارا فلسفہ تعلیم آخر ہے کیا اورہونا کیسا چاہیے۔ تعلیم عام کرنے کے باوجود اعلیٰ تعلیم یافتہ اشخاص کی تعداد کم کیوں ہے ؟

ذیل میں چند سوالات ہیں ،جن کے جوابات ماہرین تعلیم اور اساتذہ سے معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔

* کیا ہمارا موجودہ نظا م تعلیم کسی مخصوص تصور کےتابع ہے ؟اگر نہیں تو یہ تصور کیا ہونا چاہیے ؟

* رائج الوقت نصاب میں کیسی اور کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے ؟

* درس گاہوں میں تعلیمی نظم وضبط کی مجموعی صورت ِحال کن اقدامات کی متقاضی ہے ؟

* کیا کسی تعلیمی نصب العین کا تعین کرسکتے ہیں ؟کسی نظام کا خاکہ ڈھال سکتے ہیں یا کسی یکساں نصاب کی تشکیل کرسکتے ہیں ؟

* خواندگی کی گھٹتی ہوئی شر ح پر کس طر ح قابو پایا جاسکتا ہے، اسے بڑھانے کے لیے فوری طور پر کن اقدامات کی ضرورت ہے ؟

* طلباء میں بڑھتی ہوئی اخلاقی بے راہ روی اور تمدنی تہی دستی پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے ؟

* اُستاد اور شاگرد کے درمیان رشد وہدایت کے رشتے کو کس طرح استوار کیا جاسکتا ہے ؟

ہم چاہتے ہیں ان سوالات کے جوابات آپ ہمیں دیں ان پر بحث ہو اور بہتری کے لیے کچھ تجاویز سامنے آئیں۔ آپ کے پیشہ ورانہ تجربے کی روشنی میں بہت ممکن ہے کہ تعلیم کے میدان میں بہتری آئے۔ اپنے مضامین اسی صفحے پر درج پتے پر ارسال یا واٹس ایپ پر بھیج دیں۔ ہمیں آپ کی تحاریر کا انتظار رہے گا، جو اسی صفحے کی زینت بنیں گی۔ 

معزز قارئین ایک نظر ادھر بھی

پروفیسر اور طلبا کی پُر زور فرمائش پر تعلیم کا صفحہ شروع کیا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ اُنہوں نے ہمیں تجاویز بھی ارسال کیں اور مضامین بھی۔ یہ صفحہ اُن سب کے لیے ہے جو پڑھنا چاہتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں بہتری کے خواہاں ہیں اور اپنے صفحے کے لیے لکھنا بھی چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنی رائے کے ساتھ تعلیمی حوالے سے مضامین بھی ارسال کریں۔ یہ صفحہ پندرہ روزہ ہے۔

ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید

میگزین ایڈیٹر، روزنامہ جنگ، اخبار منزل

آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی

ای میل: razia.fareed@janggroup.com.pk