• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسان دکھوں، غموں اور مشکلات کو بھول کر ہر سال31دسمبر کی رات نئے سال کی خوشیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ چند ایک انسان ان خوشیوں میں شامل نہیں ہوتے، ہو سکتا ہے ان کے مصائب ان خوشیوں سے زیادہ ہوں جو نئے سال کے آغاز کے ساتھ استقبالیہ رقص سے ہوتی ہیں۔ پوری دنیا کے انسان 31دسمبر کی رات بارہ بجتے ہی جھوم اٹھتے ہیں اور یہ سلسلہ قریباً چوبیس گھنٹے جاری وساری رہتا ہے کیونکہ جب ہمارے ملک میں بارہ بجتے ہیں تو دنیا کے کئی ملکوں میں بارہ کئی گھنٹے پہلے بج چکے ہوتے ہیں اور اسی طرح کئی ملکوں میں ہمارے ہاں سے گھنٹوں بعد بارہ بجتے ہیں۔ ویسے تو بارہ بجنے کا لطیفہ سرداروں کے حوالے سے مشہور ہے لیکن اگر31دسمبر کی رات کے بارہ بجے کو دیکھا جائے تو پھر سب کے ’’بارہ بجے ‘‘ ہوتے ہیں۔ سکھوں کو خواہ مخواہ بدنام کیا گیا ہے۔ بارہ سب کے ہی بجتے ہیں، بدنام کوئی ایک ہو جاتا ہے۔
31دسمبر کی رات کے جشن میں انسان ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے جہاں بھر کی خوشیاں ان کیلئے لکھ دی گئی ہوں حالانکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا، ہر نیا آنے والا سال انسانوں کیلئے پہلے سے زیادہ مشکلات لیکر آتا ہے۔ میں جب بھی اپنے ملک کے حالات کو دیکھتا ہوں تو پچھلے پچیس تیس برس کا قصہ ایسے ہی ہے۔ وطن عزیز میں تو ہر نئے سال کے دامن میں خوشیاں کم ہی ہوتی ہیں۔ آج سے بیس سال پہلے گھر کا ایک فرد کماتا تھا اور پورا خاندان کھاتا تھا مگر سالوں کے سفر نے انسانوں کو اتنا مجبور کر دیا ہے کہ اب تمام افراد کماتے ہیں اور گھر میں ایک فرد کو کھلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ٹھیک ہے جشن منانا چاہئے مگر اپنے سالوں کی رفتار کو بھی درست رکھنا چاہئے۔ اگر ہم دنیا کی دوسری قوموں کے برابر رفتار نہ رکھ سکے تو یہ جشن ہمیں ایک رات کی خوشی دے کر سو جایا کریں گے اور ہماری قوم کے اکثر افراد سال بھر بھوک سے لڑتے رہا کریں گے کیونکہ جشن کے دامن خوشیوں سے خالی ہوتے ہیں جبکہ ترقی کے دامن میں خوشیاں ہوتی ہیں اور ایسی خوشیوں میں پھر سال بھر جشن ہوتے ہیں پھر یہ نہیں ہوتا کہ چند گھنٹوں کا جشن اور پھر اندھیری رات، ہمیں تنزلی کے سفر کا رخ ترقی کی طرف کرنا ہو گا مگر کیا کیا جائے ٹھیکیدار قسم کے لوگوں کو، اس کی فکر ہی نہیں۔ معیشت برباد ہو رہی ہے، بدامنی شہروں کی گلیوں میں پہنچ گئی ہے۔ کبھی شہروں سے دور آوارہ پھرتی تھی اب بدامنی کا بسیرا ہے بس یوں سمجھ لیجئے کہ
جنگل میں سانپ شہر میں بستے ہیں آدمی
سانپوں سے بچ کے آئیں تو ڈستے ہیں آدمی
جب یہ صورتحال ہو تو خیال کرنا چاہئے، سنا ہے آج کل لوگوں کو ’’گیس‘‘ کا پرابلم ہے۔ ’’گیس‘‘ کا مسئلہ معدوں پر اثر انداز ضرور ہو گا۔
نئے سال سے چند روز قبل آصف علی زرداری نے ایک عوامی اجتماع میں’’بِلّے‘‘ کا تذکرہ بہت کیا، ان کا اشارہ پرویز مشرف کی طرف تھا، اس نے بھی جواب آں غزل کے طور پر دودھ پینے کا تذکرہ کر دیا، اب سیاسی بحثوں کا مرکز ’’بِلّا‘‘ بنا ہوا ہے۔کئی یادگار قسم کے وکیل اور نوکیلے صحافی طرح طرح کے تبصرے فرما رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے انٹرویوز بھی ہو رہے ہیں ،وہ صحافیوں کی ٹیموں سے باتیں بھی کر رہے ہیں۔2013ء کی آخری شام پرویز مشرف نے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں سابق فوجی افسران سے خطاب کیا۔ اس گفتگو میں انہوں نے اپنی بھرپور صفائی پیش کی۔ اس صفائی کو انہوں نے ملکی ترقی کے ساتھ نتھی کیا۔ اگرچہ تمام سیاسی جماعتیں ن لیگ کی پشت پر کھڑی ہو گئی ہیں مگر اس سب کے باوجود’’ بِلّے‘‘ کو کچھ نہیں ہو گا کیونکہ اس کے وارث تگڑے ہیں۔ ورثا کا یہ سلسلہ اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی ہے اور آج کل بیرونی فرشتے زیاہ سرگرم ہیں۔ ’’بِلّے‘‘ کے مقدمات میں جتنی جلدی ہو گی اتنی جلدی دودھ ختم ہو جائے گا، پتہ نہیں اس وقت کسی کی ضرورت ہے کہ وہ دودھ پھونکیں مار کر پئے۔
مجھے کبھی کبھی پرویز مشرف کا خیال اس حوالے سے آتا ہے کہ دنیا کس قدر مطلب پرست ہے، آج میں وہ بہت سے چہرے دیکھتا ہوں جو کبھی پرویز مشرف کے ساتھ ہوتے تھے اب نواز شریف کے آگے پیچھے ہیں۔ اس قدر بے وفائی نہیں ہونی چاہئے کہ آپ ڈائریکٹ ہی اس کے دشمن کی فوج میں چلے جائیں۔ یقیناً پرویز مشرف بھی سوچتے ہوں گے کہ یہ کیسے لوگ تھے جو میری تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے اب کس منہ سے نواز شریف کی تعریفیں کرتے ہیں۔ وہ تمام مرد و زن جو پرویز مشرف کی آنکھ کا تارا تھے اب صف دشمنان میں ہیں۔ سیاست دان سچ ہی سیاست کے بارے میں کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اگر دل ہوتا تو یہ لوگ پرویز مشرف کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ جنرل پرویز مشرف تو پھر بھی صاحب دل نکلا ہے کہ پیش کشوں کے باوجود وطن کی مٹی چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوا بلکہ اس نے میڈیا پر ببانگ دہل کہا تھا کہ وہ ڈرتا ورتا نہیں۔
شہروں کے لوگ اس بات سے واقف نہیں ہیں لیکن دیہات کے تمام لوگ جانتے ہیں کہ ایک ’’بِلّا‘‘ گائوں میں داخل ہوتا ہے اور ڈربوں میں بند مرغیوں کا خون پی کر چلا جاتا ہے اور کسی کے ہاتھ بھی نہیں آتا۔ یہ حقیقت ہے مگر ’’شہروں‘‘ کے لوگ اس سے واقف نہیں ہیں ان کیلئے ریحانہ قمر کی شعری زبان بہتر رہے گی کہ
پھر پھول کھلیں شاید
اس بار تو لگتا ہے
تازہ ترین