وہ اپنی مائوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے،وہ اپنے والد کے بڑھاپے کا سہارا تھے، وہ اپنے بھائیوں کے بازو اور بہنوں کا مان تھے۔ انہیں ماں باپ نےبڑے لاڈوں سے پالا پوسا ،جوان کیا اُن کے نا ز نخرے اٹھاے، خود بھوکے پیاسے رہ کر اُن کی ضرورتیں اور خواہشیں پوری کیں۔ بڑے ہو کر انہوں نے ماں باپ کا سہارا بننے کی ٹھانی اپنے وطن میں مناسب روزگار نہ ملنے پر ماں باپ نے قرض اٹھا کر اپنے گھر کا سامان بیچ کر اُن کو حصول روزگار کیلئے بیرونِ ملک بھیجا کہ وہ محنت مزدوری کر کے اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ ماں باپ نے انہیںدعائیں دے کر ،پیار کر کے اپنے سینے سے لگا کر رخصت کیا۔ بیرونِ ملک جا کر ان بے چاروں نے ایجنٹس کے رحم و کرم پر دن رات گزارے بھوک پیاس برداشت کی ،سفر در سفر کی صعوبتیں جھیلیں،در بدر ٹھوکریں کھائیں ،منزل کی تلاش میں بے سروسامانی کے عالم میں غیر معین و غیر متعین منزل کی جانب کشتی کے ذریعے سفر شروع کیا۔ اُن کو منزل تک پہنچانے کی ذمہ داری اٹھانے والوں نے کم و بیش ایک ہزار افراد ،جن میں عورتیںاورکمسن بچے بھی بڑی تعداد میں شامل تھے ، کو قیدیوں کی طرح ایسی کشتی میں سوار کیا کہ جو اپنی منزل تک پہنچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی تھی مختلف ممالک کے ان بد نصیب افراد میں پانچ سو کے لگ بھگ پاکستانی بھی شامل تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ بے چارے افراد بھوکے پیاسے تھے گہرے سمندرمیں جا کر یہ تابوت نما کشتی خراب ہو کر کئی گھنٹے بے یارومددگار کھلے آسمان تلے کھڑی رہی مگر افسوس صد افسوس، کوئی ان کی مدد کو نہ آیا کسی کو ان بیگناہوں پر ترس نہ آیا۔ کتے بلی اور جانوروں کو بچانے کیلئے الٹے پائوں بھاگنے والی اقوام میں سے کسی کو یہ بے چارے لوگ اس لائق بھی نظر نہ آئے کہ ان کی جان بچانے کی کوشش کی جاتی۔ اُن کے نزدیک ان افراد کی حیثیت پالتو جانوروں سے بھی کم تھی۔ گھنٹوں تک انسانیت مدد کو پکارتی رہی مگر انسانیت انسانیت کو بچانےنہ آئی۔ غریب الوطن زندگی کی بھیک مانگتے رہے مگر انسانی حقوق کی وکالت کرنے والے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ موت و حیات کی کشمکش میں سسکیاںاور آہیں کسی کے کان اور دل پر اثر نہ کر پائیں ۔ ننھے ننھے معصوم بچوں اور عورتوں کی آہ و بکا سنگدلوں کے سامنے نقارخانے میں طوطی کی صدا ہی ثابت ہوئی ۔ چشم فلک نے پھر کیا دیکھاکہ آہستہ آہستہ یہ بے آسرا اور بے سہارا بھوکے پیاسے لوگ موت کی وادی میں اترناشروع ہو گئے سمند ر کی بے رحم لہروں اور تھپیڑوں نے ان لوگوں کی زندگی کی ڈور کاٹ کر رکھ دی ۔روزگار کے یہ متلاشی بے گوروکفن اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔ وہ جو بچا سکتے تھے وہ مکمل طور پربے حس بن کر لاتعلق رہے اور کشتی کو اپنی آنکھوں کے سامنے غرق ہونے دیا خیر کسی سے کوئی شکوہ نہیں۔ روزِ محشر ہوگا سائل بھی ہوں گے اور مسئول علیہ بھی اور رب کریم پورا پورا انصاف فرمائے گا۔ سلام ہے عالمی میڈیا کو کہ جس نے بڑی حد تک حقائق دنیا تک پہنچائے اور سلام ہے یونانی قوم کو کہ جس نے سفا کی کی دردناک داستان کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے کلمئہ حق ادا کیا اور وہ جو بچانے کی پوزیشن میں تھے ان کی بے حسی پر سر عام احتجاج ریکارڈ کراکے انسانیت دوستی کی بہترین مثال قائم کر دی ۔بھلے کشتی کے مسافر غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے مگر اس جرم کی سزا موت تو ہر گز نہیں تھی۔ یہ دل سوز واقعہ کوئی پہلا نہیں، آئے روز ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ غریب لوگ روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک جانے کی کوشش میں ایسے حادثات میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ کم و بیش ہرمہینے بیرونِ ملک سے اس طرح تابوت بند لاشے آتے ہیں اور لواحقین پر قیامت ٹوٹتی رہتی ہے۔ ہم پچیس کروڑ آبادی کا ملک ہیں زراعت ہمارے پاس تھی، صنعت ہمارے پاس تھی، کارخانے ہمارے پاس تھے پھر نہ جانے اس ملک کو کس کی نظر لگ گئی کہ روزگار کے دروازے عام آدمی پر بند ہونا شروع ہو گئے لوگوں کو بیرونی ممالک کی جانب دیکھنے کی ضرورت پیش آنا شروع ہو گئی۔ اس صورتحال میں بعض ایجنٹ حضرات نے لوگوں کو سہانے خواب دکھا کر بیرونِ ممالک کےلئے قائل اور مائل کرنا شروع کردیا۔ اور سادہ لوگ اپنی زندگی کی جمع پونجی انہیں تھما کر اپنے پیاروں کو روزگار کے لئے بیرونِ ملک بھیجنا شروع ہو گئے۔ ایسے حادثات ہماری معیشت اور معاشی پالیسیوں کی قلعی کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ یہ لاشے نہیں بلکہ سوالیہ نشان ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے وطن عزیز میں اس ملک کے باسیوں کو مناسب اور با عزت روزگار دستیاب ہو۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عام آدمی کا بچہ بھی بغیر کسی سفارش کے میرٹ پر نوکری حاصل کر پائےیا کوئی باعزت کاروبار کر سکے۔ جن کے پیارے دنیا سے چلے گئے وہ تو واپس نہیں آئیں گے سوال یہ ہے کہ ایسے حادثات کا سلسلہ آخر کب تھمے گا ، لوگوں کے گھر برباد ہونے کا سلسلہ کب بند ہوگا یہ سوال خالصتاََ حکمرانوں کے لئےہے۔ خدا کرے کہ یہ حادثہ آخری ہو اور اب مزید کوئی گھر نہ اُجڑے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)