چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کا کہنا ہے کہ اگر کوئی سویلین کسی فوجی کو بغاوت پر اکساتا ہے تو اس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو سکتا ہے، یہ کہنا کہ سویلین کا کبھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا درست نہیں ہے، دیکھنا ہو گا کہ سویلینز کو فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں لانے کا کیا طریقہ کار اپنایا گیا، یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج نے کس بنیاد پر مقدمات فوجی عدالت منتقل کیے۔
یہ بات فوجی عدالت میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ کامن سینس کی بات ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج کو ہی کرنا ہے، فوج انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دائر کر سکتی ہے، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں کوئی ٹھوس بنیاد بنا کر سویلینز کی حوالگی کی درخواست نہیں کی گئی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
7 رکنی بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔
اس موقع پر سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے روسٹرم پر آ کر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تحریری معروضات بھی جمع کرا دی ہیں، میری درخواست دیگر درخواستوں سے الگ ہے، میں نے درخواست میں آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا، میرا یہ مؤقف نہیں کہ سویلینز کا آرمی ٹرائل نہیں ہو سکتا، سویلینز کے آرمی عدالت میں ٹرائل ہوتے رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ آپ نے آرمی ایکٹ کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میرا مؤقف ہے کہ من پسند لوگوں کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے، آرمی ایکٹ کے تحت مخصوص سویلینز کا ٹرائل خلافِ آئین ہے، میرا یہ مؤقف نہیں ہے کہ آرمی ایکٹ کی کوئی شق غیر قانونی ہے، سپریم کورٹ کے 5 فیصلے موجود ہیں جو آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں، 1998ء میں ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلہ آیا، ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلے میں آرمی ایکٹ زیرِ بحث نہیں لایا گیا۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ سول کورٹس کو بائی پاس کیا گیا ہو۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کن وجوہات کی بنا پر سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟
’’انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے زیادہ سخت سزا کہاں ہو گی؟‘‘
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ کوئی نہیں کہتا کہ ملزمان کا سخت سے سخت ٹرائل نہ کریں، انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے زیادہ سخت سزا کہاں ہو گی؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تو ٹرائل تب ہوتا ہے جب بات قومی سلامتی کی ہو، سویلینز نے آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کب کی؟ جب آپ آرمی ایکٹ چیلنج نہیں کر رہے تو قانون کی بات کریں۔
جسٹس مظاہر نے کہا کہ آپ جو کرائم رپورٹ دکھا رہے ہیں اس میں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں، 9 مئی کے بعد مقدمات میں آفیشل سیکرٹ یا آرمی ایکٹ کی دفعات کب شامل کی گئیں؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کے دلائل کی بنیاد یہ ہے کہ کس کے پاس صوابدیدی اختیار ہے؟ آپ کے دلائل یہ ہیں کہ سویلین کے فوجی عدالت میں ٹرائل کا صوابدیدی اختیار کس کے پاس ہے؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ بہتر ہو گا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو بتانے دیں کہ اصل صورتِ حال کیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ بہت سے تسلیم شدہ حقائق ہیں جو سامنے رکھ رہا ہوں، بہتر ہو گا پہلے تمام وکلاء اپنے دلائل مکمل کر لیں پھر اٹارنی جنرل کو سن لیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جسٹس یحییٰ درست کہہ رہے ہیں، ہمیں پہلے حقیقت کو جاننے کی ضرورت ہے، یہ بتائیں کہ کس طریقہ کار کے تحت یہ تمام گرفتاریاں کی گئی ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آج 3 بجے تک سماعت کر سکتے ہیں، فیصل صدیقی دلائل جاری رکھیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جس مقدمے کا فیصل صدیقی حوالہ دے رہے ہیں اس میں 50 افراد گرفتار ہیں، ہمیں نہیں پتہ کہ یہ افراد کن دفعات کے تحت گرفتار ہوئے؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ وہ بنیاد دکھاؤں گا جس کے تحت انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے کیسز فوجی عدالت بھیجے۔
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ کیا یہ معلومات ہیں کہ کون سے افراد کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا؟ کس بنیاد پر کسی شخص پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات لگائی جا سکتی ہیں؟
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کمانڈنگ افسر نے انتظامی جج کو سویلینز کی فوجی حکام کو حوالگی کی درخواست لکھی، فوجی حکام کی اس درخواست کے ذرائع نہیں بتائے گئے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے مطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ والا جرم ضروری نہیں کہ آرمی ایکٹ کے تحت ہوا ہو۔
جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل سے سوال کیا کہ کن جرائم پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگتا ہے؟
وکیل نے جواب دیا کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں ملزمان کی فوجی عدالتوں کو حوالگی کی درخواست نہیں دی جا سکتی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ یہ نہیں بتا سکے کہ کن درج مقدمات میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات شامل کی گئیں، یہ بھی بتائیں کہ کمانڈنگ افسر کیسے سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ یہ بتائیں کیسے فوج کی جانب سے یہ الزام لگایا گیا کہ ان افراد نے جرم کیا ہے؟ بار بار آپ سے سوال کر رہے ہیں اور آپ جواب نہیں دے رہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیسے طے ہوتا ہے کہ آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ ہو سکتا ہے؟
جسٹس منصور نے سوال کیا کہ سول ٹرائل چل رہا ہے تو فوج کیسے فیصلہ کر لیتی ہے کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کر دو؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے وکیل سے سوال کیا کہ ضابطہ فوجداری میں دفعات آرمی ایکٹ میں کہاں ہیں؟
جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل سے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ کب عمل میں آتا ہے یہ بتا دیں؟
جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا آرمی اتھارٹیز یہ فیصلہ بھی کر سکتی ہیں کہ سویلین کو ہمارے حوالے کر دو؟ اگر کسی کا سول کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے تو کیا فوج اس کی حوالگی کا کہہ سکتی ہے؟
جسٹس منصور نے سوال کیا کہ فوج کا اندرونی طریقہ کار کیا ہے جس میں طے ہوتا ہو کہ سویلین کو ہمارے حوالے کر دو؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ یہی تو میری دلیل ہے کہ فوج سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔
’’کمانڈنگ افسر انتظامی جج سے کس بنیاد پر سویلین کی حوالگی کا مطالبہ کرے گا؟‘‘
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ فوج چارج کر سکتی ہے لیکن ٹرائل تو سول عدالت میں چلے گا، کمانڈنگ افسر انتظامی جج سے کس بنیاد پر سویلین کی حوالگی کا مطالبہ کرے گا؟
جسٹس منصور نے کہا کہ کوئی دستاویز تو دکھا دیں جس کی بنیاد پر سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ ہوتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ قانوناً اگر فوج سویلین کی حوالگی کا کہتی ہے تو ریفرنس وفاقی حکومت کو بھیجا جاتا ہے، وفاقی حکومت کی منظوری پر حوالگی کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
’’وفاقی حکومت نے کب سویلینز کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی منظوری دی؟‘‘
جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ وفاقی حکومت نے کب سویلینز کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی منظوری دی؟
جسٹس یحییٰ نے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ ہمیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن 13 نہ پڑھائیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مسئلہ فورم طے کرنے کا ہے کہ کہاں ٹرائل ہو گا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ٹرائل کا فورم کیسے طے ہوتا ہے یہی سوال ہے؟
جسٹس منصور نے کہا کہ کسی کی گرفتاری کے لیے آنے سے پہلے فوج اپنے گھر پر کیا تیاری کرتی ہے یہ بتا دیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ کامن سینس ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج نے ہی کرنا ہے، فوج انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دے سکتی ہے، فوج کی سویلینز کی حوالگی کی درخواست میں صرف ٹھوس بنیاد نہیں دی گئی، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ ٹھوس بنیاد بنا کر سویلینز کی حوالگی کی درخواست کیوں نہیں دی گئی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ نے کہا کہ آرمی ایکٹ کو رہنے دیں طریقہ کار کو دیکھیں، پھر تو ہمیں انفرادی طور پر ایک ایک شخص کی گرفتاری کو دیکھنا پڑے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ آپ ایسا کریں کہ بریک لے لیں۔
جسٹس منصور نے کہا کہ کافی وغیرہ پئیں، سوالات کے جوابات نہ دینے پر آپ کو جرمانہ دینا پڑے گا۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سویلینز پر آرمی ایکٹ کے اطلاق کا پوچھا گیا، آرمی ایکٹ 1954ء میں رولز کی بنیاد پر سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، آرمی ایکٹ کا اطلاق براہِ راست آرمی کے افسران اور ملازمین پر ہوتا ہے، حقائق میں جانے کی ضرورت نہیں ہے، 9 اور 10 مئی کو واقعات ہوئے اور 25 مئی کو آرمی ایکٹ کے اطلاق کا معاملہ آیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کوئی جرم ہوا ہی نہیں ہے؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل کم ہی ہوتا ہے، سویلین ملٹری کورٹ نہیں جا سکتا، سویلینز کا ٹرائل سول عدالتوں میں ہوتا ہے یا پھر انتہائی غیر معمولی حالات میں فوجی عدالت فعال ہو سکتی ہے۔
جسٹس منصور نے کہا کہ چارج فریم ہونے سے پہلے حوالگی کا سوال اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے بتا دیا کہ سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں غیر معمولی حالات میں ہو سکتا ہے، سپریم کورٹ کے جن فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں ان کی بنیاد بھی بتا دیں۔
فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ چارج کرنے سے پہلے سخت انکوائری ہونی چاہیے، 9 مئی کے ملزمان سے متعلق سخت انکوائری پہلے ہونی چاہیے، تاریخ میں 1998ء کے علاوہ سویلین حکومت نے سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا، 9 مئی کے ملزمان سے متعلق دوسری عدالتوں میں ٹرائل کا قانونی آپشن موجود ہے، اگر کیس کسی آرمی آفیشل پر ہوتا تو بات اور تھی کہ اب کورٹ مارشل کے سوا آپشن نہیں، آئینی ترمیم میں بھی سویلین کے علاوہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر شرط رکھی گئی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ نے شروع میں کہا کہ آپ آرمی ایکٹ کی مخالفت نہیں کر رہے، آپ نے کہا کہ صرف غیر معمولی حالات میں ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے، یہ بتا دیں کون سے غیر معمولی حالات میں سویلین کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے؟ کیا ملٹری کورٹس آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت محدود دائرے میں سویلین کا ٹرائل کر سکتی ہیں؟ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کیا سویلینز کا جرم آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہے یا نہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اے ٹی اے میں جرائم آفیشل سیکرٹ ایکٹ سے بالکل مختلف ہیں۔
جسٹس منیب نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت یہ کہہ سکتی تھی کہ سویلینز ملٹری کورٹ کو نہیں دے رہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مجسٹریٹ کسی کے مطالبے پر سویلین کی حوالگی نہیں دے سکتا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سول اور ملٹری عدالتوں کے خلاف تنازع کو وفاقی حکومت حل کر سکتی ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے سوال اٹھایا کہ نہیں سمجھ آتا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیسے لگا دیا گیا؟ تنصیبات پر حملہ کرنے پر اے ٹی اے ایکٹ لاگو ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہو گئے۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل دیتے ہوئے واضح کیا کہ یہ درخواست کسی سیاسی جماعت یا کسی تنصیب پر حملے کی حمایت نہیں کرتی، موجودہ درخواست بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہے، آرمی ایکٹ کا مقصد افواج میں ڈسپلن برقرار رکھنا ہے، سویلینز کا کورٹ مارشل کر کے بنیادی حقوق کو مجروح کیا جا رہا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ہم 7 ججز ہیں اور ذہن میں رکھیں کہ ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی کیس میں 7 ججز کا فیصلہ ہے۔
خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ڈسٹرکٹ بار کیس میں فل کورٹ بینچ تھا لیکن اکثریتی فیصلہ 8 ججز کا تھا۔
جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمدحسین نے اس موقع پر لارجر بینچ بنانے کی استدعا کر دی اور کہا کہ اگر عدالت سمجھتی ہے کہ میرے کیس میں ٹھوس وجوہات ہیں تو لارجر بینچ بنا دیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہم آپ کو سنیں گے، ابھی نماز بریک کریں گے اور ڈیڑھ بجے واپس آئیں گے۔
وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ یہ بہت اہم کیس ہے، اس سے ایک مثال سیٹ ہو گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی بات میں وزن ہو گا تو دیکھیں گے، آپ بات کریں تو سہی۔
وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ درخواست ہے کہ سویلینز کا کورٹ مارشل غیر آئینی ہے، جب سول عدالتیں فعال ہیں تو سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئین کے کون سے بنیادی حقوق ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے متاثر ہوں گے؟
وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ آرٹیکل 9، 10 اور 25 میں دیے گئے حقوق متاثر ہوں گے، 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ 7 رکنی بینچ کو آرمی ایکٹ سیکشن 2 ڈی ون کالعدم کرنے سے نہیں روکتا، اگر عدالت سمجھتی ہے کہ 21 ویں ترمیم فیصلے کے بعد ہاتھ بندھے ہیں تو لارجر بینچ ہی بنا لیں۔
جسٹس منصور نے کہا کہ میں کمفرٹ ایبل ہوں گا اگر اتنا رکنی بینچ بیٹھے جتنے بینچ نے 21 ویں ترمیم کا فیصلہ دیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کیس میں عدالت نے کہا کہ فوجی عدالتیں مخصوص حالات کے لیے ہیں، اس فیصلے میں جنگی حالات جیسے الفاظ استعمال کیے گئے۔
وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ موجودہ حکومت کا مؤقف ہو کہ آج کل جنگی حالات ہیں۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں ڈیڑھ بجے تک وقفہ کر دیا۔
نماز کے وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ کورٹ مارشل سے بنیادی حقوق ختم ہو جاتے ہیں، آرٹیکل 10 کے مطابق شفاف ٹرائل کا حق ہر شخص کے پاس ہے، آرٹیکل 25 ہر شہری کی عزتِ نفس کی ضمانت دیتا ہے، کورٹ مارشل سے عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کورٹ مارشل کوئی ٹیم کرتی ہے؟
وکیل خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ کورٹ مارشل کے لیے ایک آفیسر کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دی جاتی ہے، سویلین کے کورٹ مارشل میں جرم ثابت ہو تو اپیل آرمی چیف سے کی جاتی ہے، آرمی چیف اپیل مسترد کر دیں تو ہائی کورٹ میں محدود نکات پر نظرِ ثانی ہو سکتی ہے، بھارتی جاسوس کلبھوشن کا بھی کورٹ مارشل کیا گیا، بھارتی جاسوس کی سزا کے خلاف بھارت نے عالمی عدالت سے رجوع کیا، کلبھوشن کو ملٹری کورٹ سے سزا کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواست ہائی کورٹ میں دائر ہوئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کسی اور ملک میں بھی فوجی عدالتیں ہیں؟ کیا کسی اور ملک میں بھی سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے؟
وکیل خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ امریکا اور برطانیہ میں بہت کم اور غیر معمولی حالات میں سویلین کے ملٹری ٹرائلز ہوتے ہیں، ہر شخص کو فیئر ٹرائل اور انصاف تک رسائی کا حق حاصل ہے، کوئی اپنے ہی معاملات کے لیے خود جج نہیں بن سکتا، سویلین کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا، 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم فوجی عدالتوں کا دورانیہ مختصر تھا، کلبھوشن کے لیے غیر ملکی شہریوں کو اپیل کے حق کا نیا قانون بھی بنایا گیا، بھارتی جاسوس کی سزا کے خلاف بھارت نے عالمی عدالت سے رجوع کیا، کلبھوشن کو ملٹری کورٹ سے سزا کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواست ہائی کورٹ میں دائر ہوئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ آرمی سے متعلق کسی قانون میں مداخلت نہیں کی جا سکتی، ہم کسی قانون کو چھیڑے بغیر اس کو کیسے دیکھ سکتے ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ اس کیس میں کون سے سویلینز کی بات ہو رہی ہے؟ سویلینز تو ریٹائرڈ فوجی افسران بھی ہیں، قانون میں یہ کیوں درج ہے کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟
جسٹس منصور نے کہا کہ لگتا ہے کہ عدالت کے سامنے بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ زبردستی لایا جا رہا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں بنیادی حقوق کو فوجی اہلکاروں کے لیے معطل کیا گیا ہے، سویلین کو بنیادی انسانی حقوق کے تحت تحفظ ہر صورت حاصل ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ کا مؤقف ہے کہ آرمی افسران کے تحفظ کے قوانین میں رد و بدل کی آئین میں ممانعت ہے۔
وکیل نے کہا کہ آرمی افسران کے بنیادی حقوق کا معاملہ عدالت نہیں دیکھ سکتی، سویلینز کا دیکھ سکتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر آپ کی استدعا منظور کر لی جائے تو آرمی ایکٹ ختم ہو جائے گا، مخصوص حالات میں آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے، جب ایمرجنسی کا نفاذ ہوتا ہے تو لوگوں کی نقل و حرکت بھی روک دی جاتی ہے، آئین تو نقل وحرکت اور آزادی کا حق دیتا ہے، پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ افواج پر لاگو ہوتا ہے، لیکن آپ کہتے ہیں کہ یہ سویلینز پر بھی لاگو ہو گا، آئین کے مطابق چلنے کا قائل ہوں، آئین کے اندر راستے تلاش نہیں کرتا، آئین آرمی ایکٹ کے جائزے کی اجازت ہی نہیں دیتا تو کیسے ٹھیک یا غلط کا فیصلہ کریں؟ سپریم کورٹ کو یہ حق کہاں سے حاصل ہوا کہ آرمی ایکٹ کا جائزہ لے سکے؟ آرمی ایکٹ میں کچھ بھی ہے ہمیں تو اس کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پاکستان آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلین پر ہوتا تو ہے، جسٹس منصور نے کہا کہ قومی سلامتی جیسے معاملات میں فوج براہِ راست متاثر ہوتی ہے، حاضر سروس فوجی کو قومی سلامتی کے خلاف سازش کے لیے اکسانا سنگین جرم ہے، آرمی ایکٹ کی شقوں کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو مزید 5 منٹ دے رہے ہیں دلائل مکمل کر لیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ سویلین کا کبھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، سویلین فوجی کو بغاوت پر اکساتا ہے تو اس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو سکتا ہے، دیکھنا ہو گا سویلینز کو فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں لانے کا کیا طریقہ اپنایا گیا، یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جج انسدادِ دہشت گردی عدالت نے کس بنیاد پر مقدمات فوجی عدالت بھیجے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان منصورعثمان اعوان کو روسٹرم پر بلا لیا۔
اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے کہا کہ گزشتہ روز کے حکم نامے میں 3 سوالات مجھ سے پوچھے گئے، اسلام آباد میں کوئی بھی فرد پولیس کی تحویل میں نہیں ہے، 4 افراد کے پی میں زیرِ حراست ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ یہ آپ سویلین کسٹڈی کی بات کر رہے ہیں؟
اٹارنی جنرل پاکستان منصورعثمان اعوان نے جواب دیا کہ جی! یہ سول کسٹڈی کا ڈیٹا ہے، پنجاب میں ایم پی او کے تحت 41 ، اے ٹی اے کے تحت 141 افراد تحویل میں ہیں، پنجاب میں 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا تھا، 42 کو بری کر دیا گیا، سندھ میں کوئی بھی پولیس کی حراست میں نہیں ہے، سندھ میں 172 افراد جوڈیشل کسٹڈی میں ہیں، سندھ میں 70 افراد کو ضمانت دی گئی ہے، سندھ میں 117 افراد 3 ایم پی او کے تحت حراست میں ہیں، ملٹری کسٹڈی میں 102 افراد ہیں، کوئی بھی خاتون، صحافی یا وکیل ملٹری کسٹڈی میں نہیں، 9، 10 مئی کے واقعات میں کوئی خاتون ملٹری کسٹڈی میں نہیں، اس لیے خواتین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا صحافیوں اور وکلاء کے لیے کوئی پالیسی بنائی گئی ہے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ وفاقی حکومت کا مؤقف واضح ہے، 9 اور 10 مئی کے واقعات پر کسی صحافی یا وکیل کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ دیکھیے وکلاء کو ہراساں کرنا ٹھیک نہیں ہے، صحافیوں سے متعلق حکومت کی پالیسی کیا ہے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت کی پالیسی واضح ہے، شناخت پریڈ کی جا رہی ہے، جو کوئی ملوث نہ ہوا تو گرفتاری نہیں ہو گی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کتنے بچے ہیں جن کو حراست میں لیا گیا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کوئی بھی بچہ ملٹری کسٹڈی میں نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نگراں حکومتوں سے رابطہ کر کے ان کا وکلاء اور صحافیوں سے متعلق مؤقف لیں، بینچ کے کچھ ممبران کا مؤقف ہے، وکلاء اور صحافی معاشرے کی خود اعتمادی کے لیے ضروری ہیں، عدالت نہیں چل سکتی اگر وکلاء آزاد نہیں ہوں گے، صحافی بھی اہم ہیں کیونکہ وہ ہم تک سچ پہنچاتے ہیں۔
وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ مجھے میرے مؤکل سے ہدایات لینے کے لیے جاتے وقت اٹھا لیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں ذمے داری لیتا ہوں کہ عزیر بھنڈاری کو کچھ نہیں ہو گا، عزیر بھنڈاری میرے پڑوسی بھی ہیں میں ان کی ذمے داری لیتا ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک بچہ کے پی سے ملٹری کسٹڈی میں ہے، اس کی عمر کی نشاندہی کر رہے ہیں، اگر بچے کی عمر 18 سال سے کم ہوئی تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ از خود نوٹس لیں گے نہ جوڈیشل آرڈر کریں گے، لیکن تمام چیزیں نوٹ کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت پیر 26 جون کی صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت کی کہ پیر کو سلمان اکرم راجہ کے دلائل سے سماعت کا آغاز کیا جائے گا، کوشش ہو گی کہ اس کیس کا نتیجہ منگل تک نکل آئے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز فوجی عدالتوں میں سويلينز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا 9 رکنی بینچ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کے الگ ہو جانے کے بعد ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد ان درخواستوں کی سماعت کے لیے 7 رکنی نیا بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ ہونے تک بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا، جس سے جسٹس طارق نے بھی اتفاق کیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ بینچ سے الگ نہیں ہو رہا، از خود نوٹس پر میرے بینچ کا رولز بنانے کا فیصلہ رجسٹرار نے ختم کر دیا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ 9 ججز نے فیصلہ دے دیا تو اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے اس کیس میں 7 رکنی نیا بینچ بنا کر 9 مئی کے واقعے میں گرفتار افراد کا ڈیٹا طلب کر لیا تھا اور حکمِ امتناع دینے سے انکار کر دیا تھا۔
عدالت کی جانب سے وفاقی حکومت، شہباز شریف، نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، مریم نواز، آصف زرداری، خالد مقبول صدیقی، محسن نقوی، اعظم خان، رانا ثناء اللّٰہ، خواجہ آصف، چیئرمین پی ٹی آئی، چاروں چیف سیکریٹریز، اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کے پولیس سربراہان کو نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔