تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ علم سیکھنے اور سکھانے کا عمل انسان کے دنیا میں آنے سے بھی پہلے کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف فرشتوں کو علم عطا کیا اور جب آدمؑ کو پیدا کیا تو سب چیزوں کے نام سکھائے۔ بعد میں جب آدم ؑ اور حوّا کو بہشت بریں سے دنیا میں بھیجا گیا تو آدمؑ نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے۔ اللہ نے آدم ؑ کو کہا کہ جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو اس کی پیروی کرنا۔ ایک لاکھ 24ہزار پیغمبر دنیا میں بھیجے گئے تاکہ وہ لوگوں کو صراط مستقیم کی تعلیم دیں۔ پیغمبروں کے بعد تعلیم دینے کا سلسلہ صحابہ کرام ؓ، تابعین اور تبع تابعین نے جاری رکھا۔
حصول تعلیم کے فرض کئے جانے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ قرآنِ مجید میں لگ بھگ پانچ سو مقامات پر بالواسطہ یا بلاواسطہ حصولِ تعلیم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی۔ علم کی فرضیت کا براہ راست بیان بے شمار احادیث میں بھی آیا ہے۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کی بھی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے تاکہ نہ صرف قرآن میں بیان کردہ نشانیوں کا کھوج لگایا جائے بلکہ مزید کام کرکے نئے در کھولے جائیں۔
ہمیں تایخ میں کئی مسلمان سائنسدانوں کے نام نظر آتے ہیں، جن میں محمد بن موسیٰ الخوارزمی، ابن سینا، عمر خیام، البیرونی، ابن خلدون اور ابن الہیثم قابلِ ذکر ہیں۔ صرف سائنس کے حوالے سے ہی تعلیم کی اہمیت نہیں ہے بلکہ یہ نظام زندگی کا احاطہ کرتی ہے، ساتھ ہی معاشرے میں شعور اُجاگر کرنے اور بچوں کی اچھی تربیت میں بھی معاون ہوتی ہے۔ بچے کو ابتدا میں گھر سے ہی تعلیم ملتی ہے، جو اس کی بنیاد بناتی ہے اور اس کے بعد اسے اسکول میں داخل کروادیا جاتا ہے۔
معیارِ تعلیم
کسی ملک کی ترقی کا اندازہ اس کی شرح خواندگی سے لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں مدرسوں میں رائج نظامِ تعلیم کے علاوہ جو دوسرا نظامِ تعلیم ہے، اس کے بھی دو معیار ہیں۔ ایک وہ جو سرکاری اسکولوں میں نظر آتا ہے اور دوسرا پرائیویٹ اسکولوں میں۔ بیشتر سرکاری اسکولوں میں معیارِ تعلیم کا حال اتنا فرسودہ ہے کہ نہ وہاں قابل اساتذہ ہیں اور نہ ہی اعلیٰ تعلیمی نصاب، سالہا سال پرانا نصاب آج بھی بچوں کو پڑھایا جارہا ہے جبکہ دیگر بنیادی سہولتوں کابھی فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ صاحب حیثیت نہیں، وہ بھی اپنے بچوں کو پرائیو یٹ اسکولوں میں تعلیم دلوانے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں، چاہے اس کیلئے انھیں اپنا پیٹ ہی کیوں نہ کاٹنا پڑے۔
دوسری جانب پرائیویٹ اسکولوں میں بھی دو طرح کے نصاب پڑھائے جاتے ہیں، ایک تو صوبائی نظامِ تعلیم کے تحت ہوتا ہے اور دوسرا کیمبرج سسٹم کے تحت۔ صوبائی نظامِ تعلیم میں ایسی کتابیں پڑھائی جارہی ہیں جو آج سے کچھ دہائی قبل بھی پڑھائی جارہی تھیں۔ ایسے میں والدین اپنے بچوں کو کیمبرج سسٹم کے تحت تعلیم دلوانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ ان کا بچہ کچھ سیکھ سکے۔ تاہم، اکثر والدین کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان کے بچے پہلے اسکول میں آٹھ گھنٹے گزارتے ہیں اور پھر گھر آکر بھی رات گئے تک ہوم ورک کرتے رہتے ہیں اور اس کے لیے انھیں ٹیوشن بھی لینی پڑتی ہے۔
پرائمری تعلیم
یہ لازمی بنیادی تعلیم ہے، جسے ایلیمنٹری تعلیم بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا آغاز کنڈر گارٹن یا نرسری سے ہوتا ہے اور پانچویں جماعت تک جاتا ہے۔ پرائمری تعلیم کسی بھی بچے کی شخصیت اور شعور کےلئے بہت اہم ہوتی ہے۔ اس عمر میں بچے بہت متجسس ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کے تجسس کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنی چاہئے۔ دنیا بھر میں پرائمری تعلیم کو بہت اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ یہی بچے کی بیس(Base) بناتی ہے اور ایک بار اگر بنیاد مضبوط پڑگئی تو اس پر عمارت کھڑی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
تعلیم کے طریقہ کار، سہولتوں اور اساتذہ کے انتخاب تک ہر مرحلے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، تاکہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھارا جاسکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پرائمری تعلیم دینے والے اساتذہ کی بہتر تربیت کرکے انھیں اس قابل بنایا جاسکتا ہے کہ وہ بچوں میں پائی جانے والی قدرتی صلاحیتوں کو پہچان کر انھیں مزید اُبھار سکیں۔ پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت پاکستان نے اقوامِ متحدہ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ 2030ء تک اپنے ہر بچے کو لازمی بنیادوں پر معیاری پرائمری تعلیم فراہم کرے گا۔
ثانوی تعلیم
مستقبل کے لیے کسی بھی طالب علم کی سمت متعین کرنے میں ثانوی تعلیم کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں میں STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ میٹکس) سیکھنے کی صلاحیتیں پیدا کریں۔ اس طرح وہ انھیں تعلیمی اور عملی زندگی میں STEM ایجوکیشن میں مہارت دِلوا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں اُبھریں۔
تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ جن بچوں میں ماحول کو سمجھنے کی بہتر صلاحیتیں ہوتی ہیں، وہ STEMلرننگ میں دیگر بچوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔STEM وہ مہارتیں ہیں جو بچوں کو مستقبل میں نت نئی ایجادات اور آئیڈیاز پیش کرنے میں مدد کریں گی اور ملک کو نئے موجد، انٹرپرینیورز، لیڈرز اور کارآمد شہری ملیں گے، جو ملک وقوم کی بہتری کیلئے کام کریں گے۔
اعلیٰ تعلیم
عالمگیریت اور مسابقت کے اس دور میں ہرکوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی جستجو میں لگا ہوا ہے۔ آج سائنس و ٹیکنالوجی میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس، بائیومیٹرکس، مشین لرننگ آٹومیشن، فوڈ سائنسز اور دیگر تکنیکی تعلیم پر بڑا کام ہورہا ہے۔ طالب علموں کو چاہیے کہ پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی کے لیے روایتی شعبوں سے ہٹ کر کسی ایسے شعبے میں تعلیم حاصل کریں، جن کی مستقبل میں مانگ ہو اور روزگار کے وسیع مواقع دستیاب ہوں۔
بہت سی مقامی یونیورسٹیاں بھی ایسے بیچلرز اور ماسٹرز پروگرام پیش کررہی ہیںجبکہ اس ضمن میں نامور غیرملکی یونیورسٹیوں کے آن لائن کورسز بھی دستیاب ہیں (کئی کورسز بلامعاوضہ بھی کروائے جاتے ہیں)۔ اس کے علاوہ بہت سی موبائل ایپس اور سوفٹ ویئرز بھی طالب علموں کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا، شرح خواندگی میں بہتری لانے کے لیے پیشہ ورانہ اور تکنیکی تربیت پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کے اعدادوشمار کے مطابق آئندہ سالوں میں مصنوعی ذہانت (AI)، مشین لرننگ اور ڈیٹا میں مہارت رکھنے والے افراد کے لیے نوکریوں کے سب سے زیادہ مواقع پیدا ہونگے۔ ادارے نے 2019ء میں تخمینہ دیا تھا کہ اگلے 4سے5 سالوں کے دوران عالمی جاب مارکیٹ میں 58ملین نئی نوکریوں کے مواقع پیدا ہونگے جبکہ 75ملین موجودہ نوکریاں ختم ہوجائیں گی، تاہم ڈیجیٹل انٹرپرائز 133 ملین نئی نوکریوں کے مواقع پیدا کریں گی۔ جن شعبوں میں سب سے زیادہ نئی نوکریاں پیدا ہونگی، ان میں ڈیٹا انالسٹ اور سائنسدان، مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ اسپیشلسٹ، سوفٹ ویئر اور ایپلی کیشن ڈیویلپر و انالسٹس اوربِگ ڈیٹا اسپیشلسٹ شامل ہونگے۔
حرفِ آخر
آج دنیا بہت تیزی سے آگے جارہی ہے، جو اُس کے ساتھ نہیں چل پاتا، وہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس تیز رفتاری میں سائنس و ٹیکنالوجی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ امیر ہو یا غریب اب ہرگھرمیں کمپیوٹر، موبائل اور انٹرنیٹ دستیاب ہے۔ ایسے میں تعلیمی میدان میں اصلاحات کے عمل کو تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں ناصرف معیارِ تعلیم بہتر ہو بلکہ خواندگی کی شرح میں بھی اضافہ ہو۔ ہونہار اور قابل نوجوانوں کی وجہ سے ملک بھی پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا اور استحکام آئے گا۔