’’لبّیک، اللّٰھم لبّیک،لبّیک لاشریک لک لبّیک۔ انّ الحمدَ والنّعمۃَ لکَ والمُلک لا شریکَ لک‘‘۔ (ترجمہ)’’میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ سب خوبیاں اور سب نعمتیں تیری ہی ہیں اور سلطنت تیری ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘حجاج کرام کی زبانوں پر یہ تلبیہ اور حج کا مقدس ترانہ حاجی کا اعتراف ِ بندگی بھی ہے ،اپنے رب کی عظمت کا اظہار بھی اور اللہ کی وحدانیت کا اعتراف بھی۔
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے حج کرے اور اس میں بری باتیں اور برے کام نہ کرے تو وہ حج کرکے اسی طرح لوٹتا ہے ،گویا کہ آج اس کی ماں نے اسے جنا۔‘‘ (متفق علیہ)
حج کی فرضیت قرآن کریم، حدیث شریف اور اجماع امت سے ایسے ہی ثابت ہے، جیسا کہ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہے، اس لیے جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا ، زکوٰۃدینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔(صحیح بخاری)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون سے اعمال اچھے ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لانا،عرض کیاگیا پھر ؟ آپ ﷺ فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ عرض کیاگیا،پھر کون سا عمل ؟آپ ﷺ نےارشاد فرمایا حج مبرور۔(بخاری شریف،:۹۱۵۱)
حج مبرور سے مراد وہ حج ہے،جس کے دوران کوئی گناہ کا ارتکاب نہ ہوا ہو۔ وہ حج جو اللہ کے یہاں مقبول ہو۔ وہ حج جس میں کوئی ریا اور شہرت مقصود نہ ہو اور جس میں کوئی فسق و فجور نہ ہو۔وہ حج جس سے لوٹنے کے بعدگناہ کی تکرار نہ ہو اور نیکی کا رجحان بڑھ جائے۔ وہ حج جس کے بعد آدمی دنیا سے بے رغبت ہوجائے اور آخرت کے سلسلے میں دلچسپی دکھائے ۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان(گناہوں)کا کفارہ ہے،جو ان دونوں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم)
ابن شِماسہؓ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمرو بن عاص ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب کہ وہ قریب المرگ تھے۔ وہ کافی دیر تک روئے، پھر انہوں نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف کرلیا۔ اس پر ان کے صاحبزادے نے چند سوالات کیے۔ پھر انہوں نے (اپنے اسلام قبول کرنے کی کہانی سناتے ہوئے) فرمایا: جب اللہ نے میرے قلب کو نور ایمان سے منور کرنا چاہا تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ ﷺ اپنا داہنا دست مبارک پھیلائیں، تاکہ میں بیعت کروں۔ آپﷺ نے پھیلایا۔ پھر میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔ آپﷺ نے فرمایا : اے عمرو!تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا: میری ایک شرط ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: تمہاری کیا شرط ہے؟ میں نے کہا: میری مغفرت کردی جائے۔ آپ ﷺنے فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسلام (قبول کرنا) پہلے (کے تمام گناہوں)کو مٹا دیتا ہے؟ہجرت گزشتہ گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حج پہلے(کے کیے ہوئے گناہوں)کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح مسلم)
ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اور اس نے (اس دوران) فحش کلامی اورکوئی گناہ نہیں کیا ، تو وہ (حج کے بعد گناہوں سے پاک ہوکر اپنے گھراس طرح) لوٹا، جیسا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو۔(بخاری شریف، :۱۵۲۱)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: بڑی عمر والے، کمزور شخص اور عورت کا جہاد:حج اور عمرہ ہے۔(السنن الکبریٰ ، مسند احمد، للبیہقی)ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں نےعرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہم آپﷺ کے ساتھ جہاد اور غزوے میں شریک نہ ہوں؟ آپﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر اور اچھا جہادحج مبرور ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے رسول اللہﷺ سے یہ سنا ہے، تو اس کے بعد سے میں حج نہیں چھوڑا ۔(بخاری شریف، حدیث:۱۸۶۱)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:حج اور عمرہ پر دوام برتو، کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو ختم کرتے ہیں ، جیسا کہ دھونکنی لوہے سے زنگ کو دور کردیتی ہے۔ (المعجم الاوسط، حدیث:۳۸۱۴)ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا کرو،کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو مٹاتے ہیں جیسا کہ بھٹی لوہے ، سونے اور چاندی سے زنگ ختم کردیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔(ترمذی شریف، : ۸۱۰)