نوجوانوں کے تیور دیکھ کرمیں گھبرا گیا۔ ان کے بحث مباحثوں میں جارحیت دیکھ کر میں خوفزدہ ہوگیا۔ مجھے لگا ، وقت کی دھارائیں مجھے میرے المناک ماضی کی طرف دھکیلنے لگی تھیں۔ میں اپنے ہولناک اور دہشت ناک ماضی میں جھانکنا نہیں چاہتا تھا۔ میں انسانیت کو دوبارہ پامال ہوتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ ماضی میں لگے ہوئے گھائو بھرجانے کے باوجود گاہے گاہے ہمیں بھیانک ماضی کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔
نوجوان غصے سے تلملا رہے تھے۔ انہوں نے آستینیں چڑھا رکھی تھیں۔ وہ سب مرنے اور مارنے کی دہلیز پرکھڑے تھے۔ وہ سب ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں تھے ۔ ایک ہی تعلیمی ادارے میں پڑھتے تھے۔ ایک دوسرے کو جانتے تھے، پہچانتے تھے۔ مگر کیا کیاجائے کہ زبان کی کاٹ تمام رشتوں کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ خیالات میں اختلاف بڑی بڑی جنگوں کو جنم دیتا ہے۔ ایک ضد کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ درست ہے۔ تم جو کہہ رہے ہو وہ سراسر غلط ہے۔ یہیں سے عداوتیں پنپنے لگتی ہیں۔ نفرتیں بڑھنے لگتی ہیں۔ یہیں سے عدم تحمل اور تعصب کی جڑیں مضبوط ہونے لگتی ہیں۔ ایک دوسرے کا وجود ہم سے برداشت نہیں ہوتا ۔ایسی بے بنیاد نفرتیں ذات پات سے نکل کر عقیدوں تک پھیل جاتی ہیں۔ عقیدوں کے نام پر لڑی گئی جنگیں صرف فتوحات اور اقتدار کیلئے اور اقتصادی بالادستی کیلئے نہیں لڑ ی جاتیں۔ ایسی جنگوں میں ایک دوسرے سے نفرت کا عنصر عیاں ہوتا ہے۔زندگی بھر میرا بالواسطہ اور بلا و ا سطہ تعلق پڑھنے پڑھانے سے رہا ہے۔میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو ایک چھوٹی سی مگر سب سے اہم بات کیوں پڑھاتے ، کیوں سمجھاتے نہیں کہ دنیا میں کبھی بھی ایک نسل ، ایک ذات پات ، ایک رنگ روپ کے لوگ نہیں رہتے تھے۔ دنیا میں کبھی بھی ایک زبان اور ایک عقیدے کے لوگ نہیں رہتے تھے۔جس طرح جڑواں بھائی اپنے رویوں، شخصیت ، سوچ اور سمجھ میں مختلف ہوتے ہیں۔ عین اسی طرح ہم سب ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ تہذیبوں کا تصادم تب ہوتا ہے جب تحمل اور برداشت کا فقدان ہوتا ہے اور ایک تہذیب وتمدن کے لوگ دوسری تہذیب وتمدن کے لوگوں پرحاوی ہونے کی کوشش کرتے ہیں، ’’ میں اعلیٰ، تم ادنیٰ‘‘ نے لوگوں کو بانٹ دیا ہے۔ یہ باتیں فزکس اور کیمسٹری کے دائرے میں نہیں آتیں۔ یہ عام فہم باتیں ہیں۔ معاشرے میں امن اور استحکام کیلئے ایک دوسرے کو سننا اور سمجھنا لازمی ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کا احترام لازمی ہوتا ہے۔ ایسے ممالک ترقی میں آسمان کو چھونے لگتے ہیں جن ممالک میں برداشت ، تحمل اور رواداری مقدس فریضے کی طرح مانے جاتے ہیں۔ اور جن ممالک ، خاص طور پر کچھ ایشیائی اور افریقی ممالک میں عدم تحمل ، تعصب، تنگ نظری کی وجہ سے آئے دن دہشت گردی، فساد، افراتفری اور ہنگامے ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے ممالک کی اقتصادی حیثیت پامال، تعلیم وتربیت زوال پذیر ہوتی ہے۔ دنیا بھر کے دوست دشمن ممالک کے مقروض ہوتے ہیں۔ ایک خوش وخرم ملک اور معاشرے میں کوئی کسی کی دل آزاری نہیں کرتا۔میرے قریب دومیزیں ملا کر آٹھ دس نوجوان بیٹھے ہوئے تھے۔ خوش گپیاں کرتے ہوئے اچانک ان کے رویے اور لہجے بدل گئے ۔وہ ایک دوسرے پر چلانے لگے۔ ایک دوسرے کو شٹ اپ shut upکہتے رہے۔ ایک دوسرے کو جاہل ، گنوار اور احمق کہنے لگے۔ بات چل نکلی تھی سمندری طوفان کے آنے اور آتے آتے نہ آنے کی وجہ سے ۔ اکثریت کا خیال تھا کہ عبداللہ شاہ غازی کراچی کے نگہبان ہیں۔ عبداللہ شاہ غازی کی کرامت ہے کہ آج تک کراچی سونامی سے محفوظ رہا ہے۔ایک نوجوان نے دھیمی آواز میں کہا ۔’’ یہ کرشمہ بھگوان شو کا ہے کہ آج تک سمندر نے کراچی کو پامال نہیں کیا ہے‘‘۔بھگوان شو کا مندر سمندر کے کنارے غار میں موجود ہے۔ جہاں سے جہانگیر کوٹھاری کی وسیع سیڑھیاں شروع ہوتی ہیں، عین اس کے بغل میں بھگوان شو کا مندر ہے۔ ایک روایت کے مطابق شو کا مندر پچھلے دو ڈھائی ہزار سال سے غار میں موجود ہے۔ جبکہ عبداللہ شاہ غازی کا مزار سمندر کے کنارے چھ سات سو برس سے موجود ہے۔ یہ کوئی ایسا نکتہ اختلاف نہیں تھا کہ دوست آپے سے باہر ہو جاتے اور ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر اتر آتے۔ مگر جب معاشرے سے تحمل رواداری اور برداشت کوچ کرجاتے ہیں تب صدیوں کے رشتے ناطے محبتیں اور چاہتیں آنکھ جھپکتے ختم ہوجاتی ہیں۔ ان کی جگہ لے لیتی ہے کدورت، نفرت اورعداوت ایسا ہی بھیانک انسانی تماشہ میں نے انیس سو سینتالیس میں دیکھا تھا ۔ دس مرتبہ دوبارہ جنم لیکر لوٹ آنے کے باوجود میں انسانیت کے، بےرحمی اور سنگدلی سےتعصب کی صلیب پر بے یارومدگار لٹکنے کاسانحہ کبھی نہیں بھول سکتا۔ تب بھی دیکھتے ہی دیکھتے صدیوں کی محبتیں پل بھرمیں عداوتوں اور دشمنیوں میں بدل گئی تھیں۔
چھوٹے پیمانے پر،مگر ایسا ہی کچھ میرے قریب بیٹھے ہوئے دوستوں میں ہونے والا تھا ۔ ایک سوال میدان جنگ بنتا جارہا تھا، آنے والے سمندری طوفان کو کس نے روکا تھا؟ عبداللہ شاہ غازی نےیا بھگوان شونے؟تب دوربیٹھا ہو ایک بوڑھا اپنی جگہ سے اٹھا۔ نوجوانوں کے قریب آکر اس نے کہا ’’ پہلے سمندر سے جاکر پوچھو کہ سمندر ہندو ہے یا مسلمان؟ اگر سمندر ہندو ہے تو پھر بھگوان شو کے کہنے پر اس نے اپنا رخ تبدیل کیا ہوگا۔ اگر سمندر مسلمان ہے تو پھر سمندر عبداللہ شاہ غازی کے کہنے پر ٹل گیا ہوگا ۔نوجوانوں نے بحث چھوڑ دی اور تعجب سے بوڑھے کو دیکھا۔