تحریر: ڈاکٹر حضورا شیخ
ہماری ٹیچر، معروف گائنا کالوجسٹ اور ساری زندگی خواتین کی صحت اور ترقی کے لیے کام کرنے والی ایک شاندار خاتون میڈم بلقیس ملک انتقال کر گئیں، ان کی تدفین یکم جولائی کو لاڑکانہ کے شہباز قبرستان میں صرف 15 ڈاکٹروں کی موجودگی میں کی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والی میڈم بلقیس ملک سے کراچی میں ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ لاڑکانہ آکر خدمات انجام دیں۔
وہ بھٹو صاحب کے کہنے پر آئیں اور انہوں نے لاڑکانہ کی سرزمین میں دفن ہونے تک اپنی خدمات سر انجام دیں۔ رشتے کے اعتبار سے وہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ آصف احمد علی کی خالہ تھیں اور لاڑکانہ میں پریکٹس کرتی تھیں۔
ہماری استاد اور باکمال شخصیت جس نے بالائی سندھ میں ہزاروں طلباء کو پڑھایا، ہزاروں ڈاکٹرز پیدا کیے، سینکڑوں خاندانوں کے راز اپنی موت کے ساتھ لے گئی، انہوں نے حقیقی معنوں میں اپنی زندگی صحت اور تعلیم کے لیے وقف کر دی اور شادی نہیں کی، ایک بیٹا اور ایک بیٹی کو گود لے کر ان کی پرورش کی۔
جنرل ضیاء کی آمریت کے دور میں جب بھٹو کو پھانسی دی گئی اور صرف 12 افراد کی موجودگی میں دفن کیا گیا تو اس وقت جنرل ضیاء کے مظالم کا بہانہ بنایا جاتا تھا لیکن آج ہمارے معاشرے میں ظلم کا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا۔ ہمارے عوام اور تعلیم یافتہ لوگ سیاسی اور سماجی طور پر بے حس ہوتے جا رہے ہیں، اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔جس کی ایک مثال میڈم کی 15 ڈاکٹروں کی موجودگی میں تدفین ہے۔
ہم نے میڈم بلقیس ملک سے تعلیم حاصل کی، ڈاکٹری پاس کرنے کے بعد میں نے ان کے ساتھ ہاؤس جاب بھی کی، میری 2 بیٹیوں ہیر اور پریت کی پیدائش پر وہ ڈاکٹر تھیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کی خدمات کے عیوض 4 ایکڑ زمین دے کر ٹرسٹ بنانے میں ان کی مدد کی لیکن لاڑکانہ کے لینڈ مافیا کو شاید ان سے ’بہتر‘ کام کرنے تھے۔
میڈم بلقیس ملک کی کل عمر 92 سال تھی، انہوں نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ڈاکٹریٹ اور رائل کالج آف لندن سے پوسٹ گریجویشن مکمل کی اور لاڑکانہ کے شیخ زید اسپتال میں ملازمت شروع کی اور جہاں سے وہ 1994 میں ریٹائر ہوئیں، صحت، تعلیم اور خواتین کے امراض کے شعبے میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، پروفیسر بلقیس ملک نے بھرپور پیشہ ورانہ زندگی گزاری اور ریٹائرمنٹ کے بعد لاڑکانہ شہر میں رہائش اختیار کی اور وہیں آج یکم جولائی 2023 کو انتقال کر گئیں۔
ہم ان کے شاگرد تھے، ان کے ہاؤس آفیسر بھی تھے، اسپتال، کالج اور وارڈ میں ان کا نظم و ضبط اور خوف دور دور تک مشہور تھا، وہ کسی غلط کام کو معاف نہیں کرنے والی تھی لیکن وہ کسی بھی کسان اور نوجوان لڑکیوں سے ہونے والی جنسی زیادتیوں پر سیخ پا ہوجاتی تھیں اور متاثرہ لڑکیوں سے بات کرنے سے ڈرتی تھی، جس طرح میڈم ملک نے ان لڑکیوں کی مدد کی، ان کے گھر بچائے اور انہیں تعلیم کے اصول سکھائے اس طرح کی زندگی کی آگہی بھی ہمارے لیے بھی اہم تھی۔
ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا، ’پاکستان میں ڈاکٹرز حاملہ خواتین کی سرجری کرنے کا رواج بڑھا رہے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ جلدی امیر ہونا چاہتے ہیں، لیکن اگلے 40 سال بعد سرجری کروانے والی ان خواتین کی زندگیاں تباہ ہو جائیں گی۔‘
ایک اور موقع پر انہوں نے ڈاکٹروں کی اخلاقیات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جو ڈاکٹر اپنی پڑھائی پر زیادہ محنت نہیں کرتا، وہ روایتی ڈاکٹر ہوگا۔‘
ایک اور موقع پر انہوں نے فیشن اور میک اپ زدہ ڈاکٹروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے مجھے ہدایت کی کہ ’پرسنل تقریبات کے سوا کوئی ڈاکٹر ڈیوٹی پر لپ اسٹک اور فیشن کا استعمال نہ کریں، ہماری آبادی غریب ہے، وہ ہمارے ہر عمل اور فیشن سے متاثر ہوتے ہیں۔‘
ڈاکٹر بلقیس ملک نے اپنے پرائیویٹ کلینک میں زچگی کے مریضوں سے کوئی فیس نہیں لی، غریبوں کو کھانا بھی کھلایا، جب تک وہ اسپتال میں رہیں مریضوں کو ہر چیز دستیاب تھی۔
سینٹرل اے سی اسپتال میں بجلی بند ہونے پر خواتین مریض لاڑکانہ کی دوزخ برابر گرمی میں رو پڑتیں اور میڈم ہم سے کہتیں کہ انہیں ہاتھ سے پنکھا کر کے آرام پہنچائیں۔
انہیں لاڑکانہ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرف سے دی گئی 4 ایکڑ زمین پر عدالت جانا پڑا، ایک وکیل کی شہرت کی وجہ سے شہر کے اکثر وکلاء اس کی مدد نہیں کر سکے، انہوں نے شاندار طریقے سے کام کیا، وکلاء کا ایک پینل بنایا اور مقدمہ لڑا اور جیت لیا، لیکن پھر بھی لینڈ مافیا کارروائیاں کرتا رہا۔
آج ہمارے استاد اور بہترین گائناکالوجسٹ اور لاڑکانہ کے 3 سینئر ڈاکٹرز ڈاکٹر نجمہ میمن، ڈاکٹر رشیدہ پیرانی اور ڈاکٹر ذکیہ کے سروں سے شفقت کا ہاتھ اٹھ گیا ہے، جن کو انہوں نے خصوصی تربیت دی۔
آج صرف اتنا کیا جا سکتا ہے کہ سندھ اور پاکستان کے تمام ماہرخواتین کے علاج پر اس طرح توجہ دیں کہ کم سے کم آپریشن ہو سکیں، سینئر ڈاکٹر جن کے پاس وقت نہیں ہے، وہ وقت کی کمی کا بہانہ بنا کر لوگوں کے جسموں سے کھیل رہے ہیں۔
میڈم بلقیس ملک خواتین کے جسموں کو امانت سمجھتی تھیں اور ان کی چیر پھاڑ سے گریز کرتی تھیں، ہمیں ایک بار پھر اس کے بارے میں سوچنا ہوگا۔