(گزشتہ سے پیوستہ)
عزیز قارئین! آپ کو اگر گورنمنٹ جونیئر ماڈل اسکول، گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول لوئر مال اور سنٹرل ٹریننگ کالج کی عمارات کو دیکھنے کا اتفاق ہو تو آپ حیران رہ جائیں کہ تینوں قدیم تعلیمی اداروں کا طرز تعمیر بالکل ایک جیسا ہے۔ ایک ہی طرح کی اینٹیں، رنگ اور دیگر سامان استعمال ہوا ہے۔ سنٹرل ٹریننگ کالج کے اندر ہال میں آج بھی BOMBAY PCCکمپنی کے تقریباً ڈیڑھ سو برس قدیم لوہے کے مضبوط ستون کھڑے ہیں جس کے اوپر پورے ہال کی چھت اور وہ بھی لکڑی کے شہتیروں والی ،آج بھی اصل حالت میں موجود ہے۔ گورے کیا عمارات بنا گئے تھے۔ ہمارے ہاں تو نئی عمارات صرف بیس/ پچیس برس ہی میں خراب ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ لوہے کے بڑے بڑے گارڈر جو آج بھی بغیر زنگ کے چھتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ دو دو فٹ چوڑی محرابوں والی دیواریں ، آج بھی فن تعمیر کا خوبصورت نمونہ ہیں۔ تینوں قدیم عمارات میں رنگ برنگے شیشے جو دروازوں کے اوپر لگے ہوئے ہیں آج بھی ماضی کی خوبصورت داستان سنا رہے ہیں۔ ہمیں اس بات کا بڑا افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ طالب علمی میں یہاں پر گوروں کے دور کے ڈی سی کرنٹ پر چلنے والے پنکھے ہوا کرتے تھے اب یہ پنکھے کہیں نظر نہیں آتے۔ وہ کالے بجلی کے سوئچ، وہ پنکھے کو چلانے کے لئے سفید اور کالے رنگ کے ریگولیٹر بھی کہیں نظر نہیں آتے۔ ہم جب کبھی ایف سی کالج میں جرنلزم پڑھایا کرتے تھے تو ہمارے کمرہ نمبر 5 ڈی میں ڈیڑھ سو برس قدیم پنکھا لگا ہوا تھا جو بہترین ہوا دیا کرتا تھا۔ کیا زمانہ تھا۔ایف سی کالج میں تقریباً دو سو برس قدیم Shanksولایت کی کمپنی کے ڈبلیو سی، ٹوٹیاںاور ٹینکیاںڈیڑھ سو برس سے بھی زائدعرصہ کام کرتی رہیں۔
سنٹرل ٹریننگ کالج کی عمارت دراصل سنٹرل ماڈل اسکول کے گرائونڈ میں تعمیر کی گئی تھی اس زمانے میں اس عمارت کی تعمیر پر 45ہزار روپے خرچ ہوئے۔ اگر آپ اس عمارت کو جا کر دیکھیں آپ کو یقین ہی نہیں آئے گا کہ اتنی بڑی عمارت صرف 45 ہزار روپے میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس عمارت کی تعمیر میں مزید 15ہزار روپے لالہ میلہ رام نے بھی ڈالے تھے۔ آج تو ایک چھوٹاسا کمرہ بھی 45 ہزار روپے میں نہیں بن سکتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ڈیڑھ سو سال قدیم عمارت میں کہیںبھی نمی نہیں۔ تمام عمارت آج بھی خشک اور ایسے لگتا ہے کہ ابھی چند برس پہلے تعمیر ہوئی ہو۔ہم نے سر کاری عمارات میں گوروں کے طرز تعمیر کو چھوڑ کر شیشے اور لوہے والی عمارات بنانی شروع کردی ہیں جہاں پر بغیر اے سی کے آپ ایک لمحہ کیلئے نہیں بیٹھ سکتے۔ دوسری طرف لاہور میں انگریزوں کے تعمیر کردہ تمام اسکولوں، کالجوں و دیگر قدیم عمارات میں آپ بغیر اے سی کے بیٹھ سکتے اور کام کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں پہلے ہی بجلی کا بحران ہے ایسی صورت میں ہمیں قدیم طرز تعمیر کو اپنا نا ہوگا۔آپ یہ دیکھیں کہ سنٹرل ماڈل اسکول کے پاس کتنی بڑے گرائونڈ تھے جس پر سنٹرل ٹریننگ کالج کی عمارت تعمیر ہوئی، اصولاً جب سنٹرل ٹریننگ کالج کو ختم کرکے ایجوکیشن یونیورسٹی کا حصہ اور اس سے پہلے جب اس کا قدیم نام تبدیل کرکے گورنمنٹ کالج ایجوکیشن فار بوائز کیا گیا تھا اس وقت یہ عمارت اسکول کو واپس کردینا چاہیے تھی۔ گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول کو 18نومبر 1892ء کو لاہور ڈسٹرکٹ سنٹرل اسکول کا درجہ دیا گیا۔ اس زمانے میںیہ اسکول پورے صوبے بلکہ شمالی ہندوستان کا بہترین اسکول قرار دیا گیا اور آج حالات کیا ہیں۔ اگرچہ موجودہ پرنسپل سیدہ نصرت شبیر نے اسکول کو پچھلے دس سال کے مقابلے میں بہت بہتر کیا ہے مگر ابھی اس میں مزید بہتری کی گنجائش ہے۔ پنجاب کی انگریزوں کی تیار کردہ سرکاری تعلیمی رپورٹوں میں اس اسکول کے نتائج اور معیار کا ذکر ملتا ہے۔ 1897ء سے 1934ء تک سنٹرل ماڈل اسکول کی کلاسیں سنٹرل ٹریننگ کالج کی عمارت میں ہوتی رہیں ۔ جب تک اس اسکول اور کالج کا چولی دامن کا ساتھ رہایہ تینوں تعلیمی ادارے پورے صوبے کے بہترین تعلیمی ادارے رہے۔ ان لاہوریوں کو کیا پتہ کہ کبھی راجہ لعل سنگھ کا توشہ خانہ موتی بازار میں لاہور ماڈل اسکول تھا اس کا تعلق بھی سنٹرل ماڈل اسکول سے تھااور سنٹرل ماڈل اسکول ایک طرف سنٹرل ٹریننگ کالج اور دوسری طرف لاہور ماڈل اسکول کی لیبارٹری اور مشقی اسکول کے طور پر کام کرتا رہا۔ ہمیں یاد ہے کہ کئی مرکزی وزراء (ایوب خان کے دور میں) کے بچے یہاں پر نہ صرف زیر تعلیم تھے بلکہ بورڈنگ ہائوس میں رہتے تھے یہ لاہور کا پہلا اسکول تھا جہاں پر 1895ء میں علیحدہ بورڈنگ ہائوس تعمیر کیا گیا۔ (اگرچہ چیف کالج لاہور میں بھی بورڈنگ ہائوس تھا مگر وہ صرف اشرافیہ کا تعلیمی ادارہ تھا) جبکہ سنٹرل ماڈل اسکول لاہور اور لاہور سے باہر کے مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کےلوگوں کا اسکول تھا۔ اس اسکول کے بورڈنگ ہائوس کو دارالاقامہ بھی کہتے تھے۔ ہمارے زمانے میں اس بورڈنگ ہائوس کے دو سپرنٹنڈنٹ اساتذہ محمودبٹ اور قاضی افضل حسین رہے، دونوں نے اس بورڈنگ ہائوس کا ڈسپلن ایسا بنایا ہوا تھا کہ آپ کی سوچ سے باہر ہے۔ ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ کا آفس اور رہائش بورڈنگ ہائوس کے اندر ہوتی تھی۔ اس اسکول کےکئی ہیڈ ماسٹر بعد میںسنٹرل ٹریننگ کالج کے پرنسپل بھی بنے۔ ان میں انگریز، ہندو اور مسلمان تینوں شامل تھے۔ جونیئر ماڈل اسکول کی عمارت میں کبھی ایک فارمل اسکول تھا جس کو بعد میں سیالکوٹ منتقل کردیا گیا۔ یہ بات ہے 1915ء کی۔ اس کے بعد اس عمارت میں پوسٹ میٹرک کلیریکل اینڈ کمرشل سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ سنٹر 1943ء تک کام کرتا رہا ہے اس سنٹر میں کیا تعلیم و تربیت دی جاتی تھی اس پرہم آج کل ریسرچ کر رہے ہیں۔پھر یہ سنٹر بھی یہاں سے منتقل کردیا گیا اور یہاں پر جونیئر ماڈل اسکول قائم کیا گیا جو لاہور کا دوسرا کوایجوکیشن اسکول جونیئر سیکشن یعنی پہلی سے پانچویں جماعت تک تھا۔ دوسری جانب کوئین میری اسکول بھی کوایجوکیشن تھا وہاں بھی پہلی سے پانچویں جماعت تک بچے ،بچیاں پڑھا کرتے تھے۔ معروف وکیل چودھری اعتزاز احسن اور سابق گورنر ذوالفقار کھوسہ کوئین میری اسکول میں زیر تعلیم رہے ہیں۔ کوئین میری اسکول چیف کالج (ایچیسن کالج) کی نرسری کا کام دیتا تھا۔ یعنی یہاں پر جو لڑکے پڑھتے تھے وہ بعد میں ایچی سن کالج چلے جاتے تھے۔ اس طرح جونیئر ماڈل اسکول میں جو لڑکیاں پڑھتی تھیں وہ بعد میں سیکرڈ ہارٹ اسکول اور کانوینٹ آف جیسز اینڈمیری میں چلی جاتی تھیں۔ سنٹرل ماڈل اسکول کا اسٹیج لاہور اور ہال لاہور کے تمام تعلیمی اداروں کے اسٹیج اور ہال سے بڑا تھا اور آج بھی ہے۔ آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہو گی کہ اس اسکول کے اسٹیج پر اسکول کے علاوہ دیگر لوگ بھی اسٹیج ڈرامے کرنے آیا کرتے تھے کبھی اس اسکول میں سالانہ ڈرامہ بھی ہوتا تھا،وہ بھی مدت ہوئی ختم ہو گیا۔ عزیز قارئین! آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہو گی کہ لاہور کے کئی تعلیمی اداروں میں ڈرامیٹک کلبز ہوا کرتے تھے۔ اس پر آئندہ بات کریں گے۔ (جاری ہے)