• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے تقریباً 76 سال ہوگئے ہیں مگر افسوس ہمارا ملک تاحال ترقی یافتہ نہیں بن سکا، دیگر وجوہات کے علاوہ سب سے اہم وجہ ہمارا ناقص تعلیمی نظام ہے۔ آج بھارت اور بنگلہ دیش تعلیمی لحاظ سے ہم سے کہیں بہتر ہیں، انہوں نے دوسرے شعبوں میں بھی ہم سے زیادہ ترقی کی ہے۔ International Federation of Red Cross کے مطابق ہمارا لٹریسی ریٹ 58.9% ہے، جبکہ بھارت میں 77.7% ،بنگلہ دیش میں 74% ہے اور ہم دنیا میں تعلیمی سسٹم کے لحاظ سے164 ویں نمبر پر آتے ہیں۔

الحمدللہ ہم مسلمان ہیں ہمارے دین میں تو علم حاصل کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے حدیث شریف ہے کہ ’’علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ اور ایک عربی کہاوت ہے کہ ’’علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے‘‘

حقیقت یہ ہے کہ ،ہم دوسری اقوام سے تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے ہیں کیونکہ ہمارا موجودہ نظام تعلیم نہایت فرسودہ ہے۔ تعلیمی پالیسی بنانے والوں نے کبھی توجہ ہی نہیں دی کہ ہمیں اپنے بچوں کو کس طرح کی تعلیم دینی چاہئے۔

ہمیں یاد ہے کہ 1950ء کی دہائی میں اردو میڈیم کے بچوں کو چھٹی جماعت سے انگلش پڑھانا شروع کی جاتی تھی۔ کتنی مضحکہ خیز بات تھی کہ جو بچہ A.B.C.D سیکھ رہا ہو اس کو گرامر کی کتاب انگلش میں دی جاتی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ زیادہ تر بچے انگلش کے مضمون میں کمزور ہوتے تھے، گریجویٹ ہونے کے باوجود انگلش میں ایک لیٹر صحیح طرح نہیں لکھ سکتے تھے۔

دراصل ہمارے ملک میں تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ملازمت حاصل کرنا سمجھا جاتا ہے۔ تاحال اس بات کو اہمیت نہیں دی جا رہی کہ موجودہ دور کا کیا تقاضہ ہے اور ہمیں اپنے بچوں کو کس طرح کی تعلیم دینی چاہئے کہ وہ جدید تقاضوں کو پورا کرسکیں۔ ہم صرف ڈگریاں بانٹ رہے ہیں،ہمارے زیادہ تر نوجوان نقل کرکے اور غیر معیاری تعلیم حاصل کرکے ملازمت کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں، انہوں نے جو تعلیم حاصل کی ہے اور جس طرح کی ہے اس سے نہ ان کو نہ ہی ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا، دوسرے معنوں میں ہم قوم کا مستقبل تباہ کررہے ہیں اور ہمارا تعلیمی معیار روز بروز مزید گرتا جارہا ہے۔

نیلسن منڈیلا نے کہا تھا:۔

’’کسی قوم کو تباہ کرنے کیلئے ایٹم بم یا میزائل کی ضرورت نہیں صرف ان کے تعلیمی نظام کے معیار کو گرانے اور طلبا کو امتحانات میں نقل کرنے کی اجازت دینے سے یہ مقصد پورا ہوسکتا ہے‘‘

منڈیلا کا یہ قول یونیورسٹی آف سائوتھ افریقہ کے داخلی گیٹ پر واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔

اس بات سے بھی انکا ممکن نہیں کہ، خراب تعلیمی نظام کی وجہ سے:۔

…مریض ڈاکٹروں کے ہاتھوں وفات پائیں گے۔

…عمارات انجینئروں کے ہاتھوں گریں گی۔

…معیشت معاشی ماہرین کے ہاتھوں تباہ ہوگی

…انسانیت مذہبی اسکالروں کے ہاتھوں دفن ہوگی

…انصاف ججوں کے ہاتھوں نہیں مل سکے گا۔

نیلسن منڈیلا کے مطابق:۔

’’The collapse of education in collapse of nation‘‘

عام طور پر ہمارے ملک کے اساتذہ کا تعلیم حاصل کرتے وقت یہ رجحان نہیں ہوتا کہ ہم نے تعلیم حاصل کرکے ٹیچر یا لیکچرار بننا ہے بلکہ مجبوری میں جب ان کے پسند کی نوکری نہیں ملتی تودرس و تدریس کا شعبہ اپنا لیتے ہیں، ایسے میں رزلٹ کیسے بہتر نکل سکتا ہے۔

1960ء کی دہائی میں ملکہ برطانیہ پاکستان کے دورے پر آئیں تو انہوں نے ایبٹ آباد کے ’’برن ہائی اسکول‘‘ کا دورہ کیا،اس دوران ان کے شوہر نے اسکول کے کئی بچوں سے پوچھا کہ آپ بڑے ہوکر کیا بنو گے،جواب میں کسی بچے نے ڈاکٹر، کسی نے انجینئر، پائلٹ اور فوجی افسر کہا تو انہوں نے ایوب خان جو اس وقت ملک کے صدر تھے سے کہا کہ، آپ کو اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہئے، میں نے بیس پچیس بچوں سے بات کی ،کسی ایک نے بھی نہیں کہا کہ اسے ٹیچر بننا ہے،یہ بہت خطرناک ہے، جواب میں ہمارے صدر صرف مسکراتے رہے۔

حقیقت میں تعلیم پر حکومت کی طرف سے خاص توجہ ہی نہیں دی جاتی ۔ملک میں صرف چند ادارے ہیں جہاں تعلیم کا بہتر نظام ہے ،مگر ان کی فیسیں عام آدمی برداشت نہیں کرسکتا، کیونکہ وہ کمرشل بنیادوں پر اپنے اداروں کو چلاتے ہیں۔

ایک عظیم لیڈر نے کہا تھا:۔

’’جس قوم میں تعلیم، صحت اور تعمیر کے شعبے کمرشل بنیادوں پر چلائے جائیں وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی‘‘

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اسکول لیول تک تعلیم مفت دی جاتی ہے اور ان کی تعلیم کا معیار نہایت اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی جو میشنری اسکول ہیں ان میں نہایت کم فیس لی جاتی ہے مگر بہترین تعلیم دی جاتی ہے۔ افسوس کہ ہمارے ملک میں تعلیم اور صحت جیسے شعبوں کو کمرشل بنیاد پر پیسہ کمانے کا ذریعہ بنادیا گیا ہے، جو انتہائی افسوسناک اور خطرناک ہے۔

غیر معیاری نظام تعلیم اور امتحانات میں نقل کے رجحانات کی وجہ سے معیار کا یہ عالم ہے کہ اس سال CSS کے امتحان میں 20,262 امیدواروں میں سے صرف 393 یعنی یعنی 2% سے بھی کم امیدوار کامیاب ہوسکے۔

دوسری جانب ،آ بی اے، جو ہمارے ملک کا بہترین تعلیمی ادارہ ہے اس کی سکھر برانچ کے طالبعلوں سے پوچھا گیا ،آ بی اے کامخفف کیا ہے تو اکثریت کو پتہ ہی نہیں تھا۔

مندرجہ بالا صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہم ناکارہ ڈگریاں بانٹ کر نہ صرف اپنے بچوں کا مستقبل خراب کررہے ہیں بلکہ ملک کی معاشی حالت کو تباہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

آج کل دنیا بہت تیزی سے ترقی کررہی ہے ،جبکہ ہم تنزلی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ہر شعبہ میں تعلیم کے ذریعہ جدید ٹیکنالوجی کو اپنائیں۔ ماہرین ریسرچ کریں کہ ملک کی ترقی کیلئے کن کن شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہمارا زرعی ملک ہے۔ یہاں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے،مگر افسوس ہمیں زراعتی اشیاء ایکسپورٹ کرنے کےبجائےدوسرے ملکوں سے امپورٹ کرنی پڑرہی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اگر ایک ایکٹر میں 50 من گندم پیدا کررہے ہیں تو ہم اس سے آدھی بھی پیدا نہیں کرپاتے۔ آج آی ٹی اور انڈسٹریل دور ہے ہمارا پڑوسی بھارت ان شعبوں میں ترقی کرتے ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ گیا، لکین ہم آج کے دور میں بھی سوئی تک چین سے امپورٹ کرتے ہیں۔ ہم جب ایٹم بناسکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ دوسرے شعبوں میں ترقی نہیں کرسکتے،اس کی اہم وجہ فرسودہ اور ناکارہ تعلیمی نظام ہے۔

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ بچوں کیلئے ’’تعلیم و تربیت‘‘ ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ترقی کیلئے تعلیم کے ساتھ قوم کی تربیت بھی بہت ضروری ہے۔ اچھے کردارکے حامل بچے ہی بڑے ہوکر اپنی قوم کو بلند مقام تک لے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کی کردار سازی پرائمری اسکول لیول میں ہی کی جاتی ہے جس سے ان کی شخصیت کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے۔ وہ معاشرے اور اپنے ملک کی ترقی کیلئے ایک اثاثہ ثابت ہوتے ہیں، لہٰذا ہمیں پرائمری اسکول لیول پر بچوں کی کردار سازی پر توجہ دینی چاہئے، انہیں بتانا اور سکھانا چاہئے کہ:۔

…اپنی غلطی پر معافی اور دوسرے کی مدد پر شکریہ ادا کریں۔

…عزت ہر آدمی کا حق ہے چاہے وہ کوئی بھی ہو

…دوسروں کی مدد کریں چاہے اجنبی ہی کیوں نہ ہو

…ناپسند معاملات میں سمجھوتہ کریں اور نظرانداز کریں

…علم شوق سے حاصل کریں اور محنت سے نہ گھبرائیں

…ہمیشہ سچ بولیں،انصاف کی بات کریں

اورایمانداری سے زندگی گزاریں

…کسی کو کسی قسم کی تکلیف نہ دیں

…اپنی فیملی سے پیار اور محبت کریں

…دوسروں کے مذہب اور عقیدوں کا احترام کریں

…ہر انسان کے حقوق برابر سمجھیں

ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق بنانے کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات ہنگامی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے:۔

…تعلیمی اداروں کو تجارتی بنیادوں پر نی چلایا جائے۔ بہتر ہے کہ حکومت پرائیویٹ اداروں کے ساتھ ملکر تعلیمی اداروں کا انتظام چلائے۔

… اساتذہ میرٹ پر بھرتی کئے جائیں اور ان کی تنخواہ بھی مناسب ہو

…نقل کرنے پر سخت سزا دی جائے

…فرسودہ نظام تعلیم ختم کرکے بامقصد تعلیم پر زور دیا جائے، جس سے ملک کی معیشت ترقی کرسکے

…تمام اسکولوں میں انگلش کی تعلیم پہلی جماعت سے دی جائے،پرائمری تعلیم پر بھرپور توجہ دی جائے کیونکہ اس عمر میں بچے کی شخصیت بنتی ہے۔ پرائمری لیول پر بھی بچوں کو اپنی اقدار کی تعلیم دی جائے ،تاکہ بڑے ہوکر وہ اچھے شہری بن سکیں اور ملک کی ترقی میں بہتر کردار ادا کرسکیں۔

…تعلیم کیلئے جدید ٹیکنالوجی، آن لائن کلاسز اور جدید سافٹ ویر سے مدد لی جائے۔

… پروجیکٹ پر مبنی تعلیم کو پروموٹ کیا جائے۔

…Vocational Literacy Programs اور Life Skills Learning کو Promote کیا جائے تاکہ وہ طالب علم جو سیکنڈری تعلیم کے بعد مالی مشکلات کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے وہ فوراً روزگار حاصل کرکے ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

…اساتذہ اور طالب علموں کو ترقی یافتہ ملکوں میں جدید ٹیکنالوجی اور مہارت سیکھنے کیلئے بھیجا جائے، تاکہ اسے اپناکر ملک کی ترقی کیلئے کام کیا جاسکے۔

…ذہین طلبا کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے اور حکومت اپنے خرچہ پر ان کو اعلیٰ تعلیم کیلئے ترقی یافتہ ممالک بھیجے مگر اس یقین دہانی کے ساتھ کہ وہ واپس آئیں گے اور ملک کی خدمت کریں گے۔

اللہ رب العزت نے پاکستانیوں کو بڑی صلاحیتوں سے نوازا ہے ہمارے بہت سے ماہرین دنیا میں کام کرکے ملک کا نام روشن کررہے ہیں لہٰذا ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔ ان شااللہ جلد وہ وقت آئے گا کہ ہمارا پیارا ملک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوگا۔