ہماری اک دوست شانتی دیوی، جو آجکل ساؤتھ افریقہ میں رہتی ہیں، نے چند دن پہلے برطانیہ کے اہم فوجی عہدیدار کی تصویر مجھے انٹرنیٹ پر میل کی وہ تصویر ایک قبول صورت ناری کی ہے۔ اس نے برطانیہ کی فوج کے اعلیٰ عہدہ دار کے رینک لگائے ہوئے ہیں۔ اس عسکری خاتون کا نام لیفٹیننٹ جنرل شیرون نشیتھLT GEN SHARON NISHITH ہے جو برطانیہ کی آئندہ اعلیٰ آرمی چیف ہوں گی اور پہلی خاتون بھی جو اس عہدہ پر لگائی گئی ہیں۔میں حیران تھا۔ میں نے شانتی سے ہی پوچھ لیا کہ اس خاتون کا انتخاب کس نے کیا۔ شانتی کا جواب تھا۔ بڑے شرارتی ہو۔ تم کو نہیں معلوم میرے اچھے دوست۔ اس کا انتخاب ملک کے بادشاہ سلامت نے کیا ہے۔ برطانیہ کے عمر رسیدہ، بادشاہ سلامت خواتین کے حوالے سے بڑا اچھا ماضی رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں افواج کا کردار بدل گیا ہے۔برطانیہ ایک عرصہ تک مشرق کے کئی ملکوں پر قابض رہا اور اس نے وہاں کا انتظام افواج کے ذریعے ہی چلایا۔ اب افواج کا چلن بدل گیا ہے۔ جنگ کے لئے دوسرے ملکوں کی افواج کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ افغانستان میں یورپی ممالک کی افواج کا استعمال کیا گیا۔ آج کی افواج اصل میں ملکوں کے معاشی معاملات کا تحفظ کرتی ہیں۔ اس میں امریکی فوج کا کردار بہت ہی نمایاں ہے۔ امریکی افواج کو سابق امریکی صدر ٹرمپ کا روپ پسند نہ تھا۔ مگر اب ٹرمپ ان کو قابو کرنے کے لئےآئندہ کا کامیاب امیدوار ہے۔
اب آپ ہمارے ہاں کے معاملات کو دیکھ لیں سابق سپاہ سالار جنرل باجوہ نے بیرونی ممالک کےکتنے دورے اس معاشی ترقی کے تناظر میں کئے۔ پاکستان جو ایک عرصہ مالی اور معاشی بدحالی سے نبرد آزما ہے۔ عوام میں غربت کی شرح حد سے زیادہ ہے اور بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور اس مہنگائی نے ملکی ترقی کو بھی روک رکھا ہے۔ اس پر مقروض پاکستان کو خطرہ لگا رہتا ہےکہ وہ ایک دیوالیہ ملک ہی نہ بن جائے۔ قرضوں کے بوجھ نے ملک کی آزادی کو دائوپر لگا رکھا ہے اور ایک عرصہ سے ہم اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کی امداد سے ملک کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ملک میں جمہوری حکمرانوں نے جو لوٹ مار مچائی اس کا مقابلہ ہم فوج کے سابق حکمرانوں سے بھی نہیں کر سکتے۔ اس مالی اور معاشی کمزوری نے پاکستان کے تمام اداروں کو بھی بےبس اور لاچار کر دیا۔ آئی ایم ایف ایک عرصہ سے پاکستان کے لئے امداد یا قرض فراہم کر رہا ہے۔ مگر اس کی اپنی شرائط ایسی ہیں جس سے پاکستان مزید کمزور ہوتا نظر آ رہا ہے۔ وہ پاکستان میں کچھ اچھا بھی کروانے کا سوچتے رہتے ہیں۔ مگر ہمارے طاقت ور حلقے ان کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ آئی ایم ایف کی بڑی خواہش ہے کہ پاکستان اپنے خطے میں ایک پر امن ملک کی حیثیت سے اپنی شناخت منوائے۔ مگر کرپشن کا عفریت اتنا مضبوط ہے کہ اس نے جمہوریت کے اندر بھی اپنی جگہ بنا لی ہے ہمارے اہم ادارے جن میں قانون اور انصاف کا نظام بھی مفلوج اور ناکارہ سابن گیا ہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ ہم اب بھی آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر ملک کی سمت درست کر سکتے ہیں۔ مگر مجبوری یہ ہے کہ جمہوریت کو نظر انداز کرنا ہوگا۔ چین کی ترقی میں چین کی افواج کا بڑا ہاتھ ہے۔ 1950ءکے بعد ماؤزے تنگ نے جو پالیسی بنائی تھی۔ اس کی بنیاد دو اہم باتوں پر تھی۔ چینی افواج کے ذمہ دو کام لگائے گئے تھے۔ ایک یہ ملک بھر کے بچوں کو تعلیم کے لئے فوج کو خصوصی تربیت دی گئی اور ملک بھر کے کسانوں کے ساتھ چینی فوج نے ذمہ داری کی بنیاد پر مدد شروع کی اور چند ہی سال میں زراعت کے حوالے سے خود کفالت کی منزل کو آسان کر لیا۔چین ایشیامیں کاروبار کے حوالےسے اپنی حیثیت منوا رہا ہے اور تو اور بھارت بھی چین کی ترقی سے پریشان ہے۔ بھارت میں وزیر اعظم مودی کی امریکہ دوستی آنے والے انتخابات میں مودی کو بڑے نقصان کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ مودی کو اندازہ ہے۔ پھر پاکستان کے عسکری حلقوں کے پاس یہ موقع آیا ہے۔ وہ مالی اور معاشی بے اعتمادی کو اپنے عمل کے ذریعہ بدلنے کی منصوبہ بندی کریں۔ نوکر شاہی پر اعتبار کرنا ان کے ہدف کو متاثر کر سکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)