• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل سیاسی گفتگو میں یہ جملہ کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے کہ’’یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، اب وہ وقت نہیں رہاکہ جب عوام بے خبر رہتے تھے، اب نہیں سب پتہ چل جاتا ہے، سوشل میڈیا نے عوام میں شعور پیدا کر دیا ہے‘‘۔یہ جملہ اکثر اوقات تب استعمال ہوتا ہے جب اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے کوئی اور ٹھوس دلیل نہ ہو۔ اگلے روز ایک نجی محفل میں یہی بات ہمارے ایک دوست نے عمران خان کی حمایت کرتے ہوئے کہی۔ ان کے بقول یہ سوشل میڈیا ہی تھا جس کے ذریعے عوام کو امپورٹڈ حکومت اور رجیم چینج کے بارے میں پتا چلا۔ جس پر میں نے انہیں یاد دلایا کہ خان صاحب امپورٹڈ حکومت پر یو ٹرن لے چکے ہیں اور یہ بات اب سوشل میڈیا کی کل کی پوسٹوں کی طرح پرانی ہو چکی ہے۔

سوشل میڈیا سیاست میں جو ایک بڑی تبدیلی لانے کا باعث بنا ہے وہ یہ ہے کہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے سیاستدانوں کو بڑے پیمانے پر عوام تک رسائی حاصل ہو گئی ہے۔ پہلے اگر کوئی سیاستدان عوام سے کوئی بات کرنا چاہتا تھا تو وہ اخبار، ٹی وی چینلوں اور رپورٹروں کا محتاج ہوتا تھا۔ اب وہ ایک ٹویٹ کر دیتا ہے اور بیٹھے بیٹھےعوام تک اپنا موقف پہنچا دیتا ہے۔ اخبار، چینلوں یا رپورٹروں میں خواہ کوئی بھی خامی ہوتی تھی لیکن وہ سیاستدانوں کے بیانات کی تصدیق یا تردید بھی کر دیتے تھے اور ان کا پس منظر بھی بتا دیتے تھے۔ خان صاحب اگر اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی حکومت رجیم چینج کے ذریعے ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہاتھ تھا تو وہ اپنی ٹوئٹس میں اپنے یوٹرن کا ذکر نہیں کریں گے لیکن اگر یہی خبر کسی اخبار یا چینل کے رپورٹر نے رپورٹ کی ہوتی تو اس خبر کے ساتھ اس کا سیاق و سباق بھی بیان کیا جاتا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کی بیشتر آبادی کے لئے سوشل میڈیا ہی خبروں کا بنیادی ذریعہ بن چکا ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن سوشل میڈیا کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ آپ کو وہی چیزیں دکھاتا ہے جو آپ کو پسند ہوتی ہیں۔

اگر آپ اپنے کسی جاننے والے ایسے شخص کی جو تحریک انصاف کاحامی ہو اور ایک ایسے شخص کی جو مسلم لیگ (ن)کا حامی ہو، سوشل میڈیا فیڈ دیکھیں تو آپ فوراً ان کی سیاسی پسند یا ناپسند کا بتا دیں گے۔ تحریک انصاف کے حامی کے سوشل میڈیا ہینڈلز عمران خان اور پی ٹی آئی کی حمایت میں پوسٹوں سے بھرے ہوں گے اور مسلم لیگ (ن)کے حامی کے سوشل میڈیا ہینڈلز پر (ن)لیگ اور اس کی قیادت کی حمایت میں پوسٹس موجود ہوں گی۔ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر آپ کی اسی پسند اور ناپسند پر مبنی پوسٹیں ہی آپ کے سامنے آئیں گی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ا نہیں عوام میں شعور پیدا کرنا ہے بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ عوام زیادہ سے زیادہ وقت ان کے پلیٹ فارم پر گزاریں اور ایسا صرف تبھی ممکن ہے جب ان پلیٹ فارموں پر عوام کو ان کے مطلب کی چیزیں میسرہو ۔اس سے سوشل میڈیا کمپنیوں کو یہ مقصود ہوتا ہے کہ وہ عوام کو زیادہ سے زیادہ اشتہار دکھا سکیں اور زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔

اس کے برعکس اگر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر صارفین کو ایسی چیزیں دکھائی یا بتائی جائیں جو ان کی پسند کے مطابق نہ ہوں، مثلاً اگر خان صاحب کے حامیوں کو ان کے یو ٹرنز کی تفصیل بتائی جائے تو وہ سوشل میڈیا کا استعمال کم کر دیں گے، اسی لئے سوشل میڈیا پر صارف کی ذاتی پسند اور ناپسند کو مدنظر رکھا جاتا ہے ، جس سے اس سے میں پہلے ہی سے موجود تعصب میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور وہ ہر چیز کو اسی پیرائے میں دیکھتا ہے۔سوشل میڈیا کے الگو رِدم اتنے تیز ہوتے ہیں کہ وہ صارفین کو نیوز ویب سائٹس اور اخبارات میں سے بھی صرف ان کی پسند کی چیزیں نکال کے دکھاتے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا پر آپ کا ایسے افراد اور گروپوں سے زیادہ سامنا ہوگا جو آپ ہی کا نقطہ نظر رکھتے ہوں گے یعنی آپ ایکو چیمبر میں آ جاتے ہیں جہاں اختلاف کو دبایا جاتا ہے اور آپ کو آپ کی طبیعت کے مطابق مواد ملتا ہے۔

اور چونکہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی کچھ بھی بلا تصدیق لگا سکتا ہے اس لئے ان پلیٹ فارموں سے افواہیں اور غلط معلومات بھی بہت پھیلتی ہیں۔ اس افواہ سازی کی بنیادی وجہ بھی تعصب اور جانبداری ہے۔ اگر کوئی تحریک انصاف کا حامی ہے تو سوشل میڈیا پر (ن)لیگ کی قیادت کے حوالے سے جو بھی چیز سامنے آئے گی وہ بلا سوچے سمجھے اسے سچ تسلیم کر لے گا اور بلا تصدیق اُن جھوٹی خبروں اور افواہوں کو مزید پھیلائے گا۔ سوشل میڈیا صارفین کے اسی جانبدارانہ رویے کی وجہ سے ہر طرف غلط معلومات پھیلتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر گردش کرنے والے جھوٹے پیغامات اور تصاویر اس رویے کی بڑی مثال ہیں۔ سوشل میڈیا پر چونکہ نہ کوئی رپورٹر ہوتا ہے، نہ کوئی ایڈیٹر اور نہ ہی کوئی حقائق کو پرکھنے والا، اسی لئے وہاں پر زیادہ تر جھوٹ پر مبنی خبریں تیزی سے پھیلتی بھی ہیں۔ اگر ایسی خبریں آپ کے نقطہ نظر سے مطابقت رکھتی ہوں گی تو آپ بھی نہ صرف ان کی جانب راغب ہوں گے بلکہ انہیں آگے پھیلانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ سوشل میڈیا پوسٹوں کے ہر شیئر اور ہر وِیو پر سوشل میڈیا کمپنیوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اب تو وِلاگ بنانے والے بھی اسی مرض میں مبتلا نظر آتے ہیں بلکہ وِلاگرز کی تعداد بڑھنے سے افواہ سازی میں بھی تیزی آئی ہے۔ وِلاگرز تو اس مقصد کے لئے باقاعدہ تحقیق کرتے ہیں کہ وہ کس طرح ایسا مواد بنائیں جس سے زیادہ وِیوز حاصل کر سکیں ، اس سوچ سے بالاتر ہو کر کہ وہ سچ پر مبنی ہوگا یا جھوٹ پر۔ بالخصوص اوور سیز پاکستانیوں کے کیسے زیادہ آئیں گے۔ واضح رہے کہ پاکستانیوں کی نسبت اوورسیز پاکستانیوں کے وِیوز سے زیادہ کمائی ہوتی ہے کیونکہ ان کی قوتِ خرید زیادہ ہوتی ہے اس لئے اشتہار کنندگان ان ملکوں میں اپنی اشیا کی تشہیر کیلئے زیادہ پیسہ دیتے ہیں۔

لہٰذاسوشل میڈیا نے عوام میں شعور پیدا نہیں کیا بس خبروں اور بیانات تک رسائی تیز کر دی ہے۔ سیاستدانوں کی عوام تک اور عوام کی سیاستدانوں تک رسائی آسان بنا دی ہے لیکن چونکہ سوشل میڈیا پر کوئی فیکٹ چیک نہیں ہے اور غلط خبروں کی بھی بھرمار ہے، اس لئے تعصب بھی پہلے سے بڑھ چکا ہے۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سوشل میڈیا نے عوام میں شعور اجاگر کرنے کے بجائے عوام سے شعور چھینا بھی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین اس گمان میں مبتلا ہیں کہ وہ باشعور ہو گئے ہیں کیونکہ انہیں ان کے پسند کے مواد تک رسائی حاصل ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ ٹھوس دلائل کی بنیاد پر کوئی رائے قائم نہیں کرتے بلکہ بنی بنائی رائے کیلئے صرف جھوٹے سچے دلائل تلاش کرتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین