• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے کامل یقین ہے کہ ایک عام سے لفظ سے آپ بہت اچھی طرح واقف ہیں۔آپ اس لفظ کے معنی اور مفہوم کے بارے میں ضرورت سے کچھ زیادہ جانتے ہیں۔ یہ ایک عام سالفظ آپ نے اس دنیا میں قدم رکھنے کے بعد اتنی مرتبہ سنا ہے کہ آپ کو حفظ ہوگیا ہے۔ کسی کام میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے آپ بار بار سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ آپ کو فلاں کام میں ہاتھ ڈ النے کا اختیار ہے؟ آپ کوئی غلط کام تونہیں کرنے جارہے ؟ آپ خسارے کا سودا تو نہیں کرنے جارہے ؟ آپ کی زندگی مخمصوں میں الجھ کررہ جاتی ہے۔ آپ وقت پر فیصلہ نہیں کر پاتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آپ مناسب موقع محل گنوا بیٹھتے ہیں۔ آپ زندگی بھرہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ ہاتھ ملنے سے اگر کچھ ہوتا تو ایک ہی کشتی میں سوار شیر، بکری اور گھاس گانا گاتے ہوئے ندیا کے پار جارہے ہوتے۔ عین ممکن ہے کہ فرہاد تیشے سے پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہر نکالنے میں کامیاب ہوچکا ہوتا۔ مگر زمینی حقائق میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ ہاتھ ملنے سے کچھ نہیں ملتا۔

اس عام سے، سادہ سے لفظ کو آئین کہتے ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ آئین سے آپ کا واسطہ تب پڑتا ہے جب آپ عمر کے لحاظ سے ووٹ ڈالنے کے قابل ہوتے ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ آئین میں کہیں بھی لکھا ہوا نہیں ہے کہ ووٹ ڈ النے کی عمر سے پہلے بچہ کتنی عمر سے آئین کے بارے میں بول سکتا ہے؟ کیا طوطا مینا کی کہانیاں سننے والا بچہ آئین پر بولنے کا آئینی حق رکھتا ہے؟ آئین میں یہ بھی لکھا ہوا نہیں ہے کہ عمر کی کس حد تک کوئی شخص آئین کے بارے میں بول سکتا ہے؟ کیا لکنت اور ہکلانے والا شخص آئین کے بارے میں بات کرنے کامجاز ہے؟ الوادعی سانسیں لیتےہوئےکوئی کہہ سکتا ہے کہ یہاں سانس لینا کس قدرد شوار ہوتا جارہا ہے؟ اس نوعیت کے جملے بولنے سے پہلے تولنے چاہئیں۔ آئین کو حساس مانا جاتا ہے۔ ہم جیسے کم علم اور کم عقل لوگ نادانستہ اول فول بک دیتے ہیں، اور خواہ نخواہ آئین کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں دھرلئے جاتے ہیں۔ آئین پر دسترس رکھنے والے ایک صاحب نے ہمیں باشعور بناتے ہوئے کہا تھا کہ آئین ایم پی اے اور ایم این اےجیسے عالم فاضل بناتے ہیں۔ اپنے بنائے آئین کی تشریح کرتے ہیں اور آئین کی ہر شق پر عمل پیرا ہوکر دکھاتے ہیں۔

آئین پر دسترس رکھنے والوں کی بات ہماری سمجھ میں آگئی ہے۔ آئین کی کسی شق پر بات کرنے سے پہلے ہمیںکسی نامور ماہر آئین سے صلاح مشورہ کرنا چاہئے ۔ماہرین نے ہمیں یہ بھی ذہن نشین کروا دیا ہے کہ آئین بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اسلئے والدین پر لازماً فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کوآئین سے دور رکھیں۔ والدین حتی الامکان بچوں کو آئین سے دور رکھتے ہیں۔ ایسا نہ کرنے کی وجہ سے آئین میں والدین کیلئےگوش مالی کی کیسی کیسی سزائیں تجویز کی گئی ہیں ان کے بارے میں والدین بے خبر ہیں۔ آئین کی دست اندازی سے بچوں کودوررکھنے کیلئے ذہین والدین نے اپنا زبانی بلکہ غیر تحریری آئین بچوں پرتھونپ دیا ہے۔ سنا ہے کہ برطانیہ کا آئین غیر تحریری ہے۔ مگر عدالتوں میں غیر تحریری آئین کو اس قدر مسند کے طور پر دہرایا گیا ہے کہ کہنے کی حد تک برطانیہ کا آئین غیر تحریری ہے، مگر لاتعداد مقدموں کی کارروائی تحریر میں لاتے ہوئے غیر تحریری آئین ہزاروں کتابوں میں محفوظ ہوچکا ہے۔ اسی حوالے سے ذکر خیر لے بیٹھے تھے ہم بچوں کیلئے غیر تحریری یعنیunwrittenآئین کا شعور کے آنے سے بہت پہلے آپ بچوں کو بھول بھلیاں سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

یہاں پر اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے۔مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔ مجھے آپ سے کچھ سیکھنا ہے، سمجھنا ہے۔ آپ میری تصیح کریں۔ میری سوچ میں خامیوں کی نشاندہی کریں۔ انگریز اگر اپنے آئین کو غیر تحریری آئین کا لیبل چپکانے سے گریز کرتا تو پھر شاید مجھے کبھی خیال نہ آتا کہ ماں باپ اپنے بچوں کیلئے غیر تحریری آئین ایجاد کرتے ہیں۔ آئین پر دسترس رکھنے والوں کی باتیں سنتے سنتے ہم کم فہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آپ کو بہت سے اعمال افعال اور بدمعاملگی سے روکنے اور کچھ کام بغیر روک ٹوک کے کرنے کی اجازت دینے والے دستاویزات کو آئین کہتے ہیں اور یہ نیک کام دوچار صدیوں تک محدود نہیں ہے جب سے افزائش نسل انسان کی سوچ کا محوربنا ہے، تب سے والدین نے غیر تحریری آئین ایجاد کیا ہے۔ آپ بچوں کو معیوب باتوں اور عمل سے روکتے ہیں، اچھے اعمال کی ترغیب دیتے ہیں۔ چونکہ معاشرے کی نشوونما اور بالیدگی ہردور میں ایک جیسی نہیں ہوتی ، اسلئے غیر تحریری آئین تاریخ کے ہر دور میں ہر معاشرے میں ایک جیسا نہیں رہتا۔ مگر یہ طے ہے کہ ہر دور میں، ہرملک اور معاشرے میں والدین آنے والی نسلوں کیلئے غیر تحریری آئین چھوڑ جاتے ہیں۔ آئین تحریری ہو یا غیر تحریری ہو، ملک اور معاشرے کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ تجریدی تحقیق کے بعد ہم کم فہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آئین تحریری ہو یا غیر تحریری ہو، اپنے ملک اور معاشرے کی ضروریات کے مطابق ہوتا ہے۔ ملک آئین کیلئے نہیں ہوتا۔ آئین ملک کیلئے ہوتا ہے۔

تازہ ترین