• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کیسے پاگل لوگ تھے! کرفیو زدہ علاقوں میں جنگ زدہ راتوں میں مشعلیں اور سفید پرچم اٹھائے نعرے لگاتے نکلتے۔ امن امن سندھ مانگ رہا ہے امن کے نعرے لگاتے۔ یہ لوگ مجھے نیویارک میں عشروں کے بعد ہونے والی مہلک سردی والی رات جب یاد آئے تو بدن میں حرارت پھیل گئی۔ لسانی فسادات کے دنوں میں گولیوں اور فائرنگ کی پروا نہ کرتے ہوئے یہ حیدرآباد پریس کلب کے فٹ پاتھ پر بھوک ہڑتال پر بیٹھتے۔ ان کا مطالبہ ایک ہی تھا امن، سندھیوں اور اردو بولنے والوں کے درمیان امن-
وہ اسی شہر کے باسی اور کئی اس کے جم پل تھے،جو شہر اس نسل کے دیکھتے ہی دیکھتے تقسیم ہو گیا تھا۔ یہاں تک کہ اسپتال تک تقسیم ہو گئے تھے۔ شاہ لطیف کے نام پر قائم ہونے والے اسپتال میں سندھی زخمیوں اور بیماروں کا داخلہ منع تھا اور لیاقت علی خان کے نام پر قائم لیاقت میڈیکل کالج کے اسپتالوں میں اردو بولنے والے مریضوں اورزخمیوں کا داخلہ یا تو بند تھا یا پھرخطرے سے خالی نہیں تھا۔ یہ وہ دن تھے جب شہر خالی ہوگیا تھا۔ ایک نیا شہر آباد ہوا۔ سندھیوں کی نئی بستیاں سندھ کے’’فاتح‘‘ محمد بن قاسم کے نام سے یعنی قاسم آباد۔ لوگ تو کیا اپنی عزاداری کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور شہر میں قدیمی ذوالجناح، علم اور تعزیے اور عزاخآنے بھی قدیمی اور مرکزی شہر سے نقل مکانی کر گئے۔ لطیف آباد سے نورالہدی شاہ، ماہتاب محبوب، اللہ داد بوہیو جیسے دانشور اپنی محنتوں اور خوابوں سے بنائے گئے گھر چھوڑ کر قاسم آباد نقل مکانی پر مجبور ہوئے تو قاسم آباد اورسٹیزن کالونی جیسی سندھی ہائوسنگ سوسائٹیوں سے الیاس عشقی، ڈاکٹر حسن منظر، جیسے اردو بولنے والے ادیب دانشور اور اچھے انسان اور ہزاروں متوسط اور نچلے طبقے کے سندھی اور اردو بولنے والوں کو اپنے اپنے گھر چھوڑنا پڑے۔اچھی خاصی تعداد ایسے جوڑوں کی بھی ہے جن کےبیچ لسانی بنیادوں پرشادیاں اور منگنیاں ٹوٹ گئيں۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ لینڈ مافیا یازمینوں پر قبضہ گیرگروہ اورہتھیاروں کےبیوپاری دونوں لسانی متحارب گروپوں میں سرگرم بھی تھے اور یکساں طور پر اسلحے اور زمینوں کی لوٹ مار میں بھی مصروف تھے، شاید آج بھی ہوں۔ نودولتیوں اورجرائم پیشہ گروہوں کا نیا طبقہ وجود میں آیا ریمبو اسٹائل اور دوسری طرف حقوق یا موت کے نعرے جگہ جگہ دیواروں پر چيخنے لگے،کہاں گئے وہ محرم، اور مشاعرے اس شہر کے۔
’’ملک جب ہوا تقسیم اپنے ہاتھ کیا آیا،
ایک اختر انصاری وہ بھی اکبر آبادی‘‘۔
لیکن یہاں تو وہ بھی نہیں ملا۔
اس شہرمیں نسلی ولسانی عصبیتوں اور نفرتوں کی لگائی ہوئی آگ کو بجھانے کو یہ سر پھرے تب نوجوان فائر مین ہوکر پہنچے تھے۔ فائر مین کا دنیا بھر میں ایک غیرجانبدار کردار ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ آگ میں جلنے والے کا مذہب، زبان و نسل، رنگ ، حیثیت یا سیاسی نظریہ و نعرہ کیا ہے۔ ان کے آگے آگ بجھاناہی مقصد ہوتا ہے۔ یہی کام ان سرپھرے نوجوانوں نے کیا۔ ان لوگوں میں مومن خان بھی تھا،تو اے جی چانڈیو، اسلم خواجہ، عاصم اخوند، ظفر راجپوت، منیر سرور، مظہر منورخان اور آرٹسٹ حسین صمدانی۔ یہ اس وقت کے لڑکےشہر کےعشاق تھےجو آتش نمرود میں کود پڑے تھے۔ آگ گلستان کیا بننی تھی لیکن انہوں نے سفید پھریرے بلند کئے رکھے۔ بند کرو، بند کرو پاگل پن بند کرو۔ اسی دن مجھے اچھا لگا جب ویمن ایکشن فورم سندھ کی جانب سے بھورو بھیل کی یاد میں ایک مشاعرے میں سندھی شاعر بخشن مہرانوی نے اردو شاعرقابل اجمیری کا شعر پڑھا۔
یہ شہرقابل اجمیری کا شہرتھا۔امداد حسینی کا شہرتھا جس نے کہا: یہ میرا شہر ہے کہ دشمن کا شہر ہے۔اس شہرکےہیرآباد کی ہوائوں والی شاموں کو ایک طرف حیدرعلی لغاری،شمس الدین عرسانی اور محمد ابراہیم جویو اپنی کچہریاں یا بیٹھکیں کرتے نظر آتے تو دوسری طرف ہر دوسری جمعرات فاران ہوٹل میں خالدوہاب،ڈاکٹرحسن منظر، پروفیسرفرید احمد، ڈاکٹرمبارک، پروفسر خانزادہ،زبید احمد فردوسی (سابق میئر حیدرآباد آفتاب شیخ کے بڑے بھائی)خورشید قائم خانی ملا کرتے۔حیدرآباد میں اگر تیس ستمبر کی شام تین سو افراد راہ جاتے ہوئے ہلاک کئے گئے جن میں اکثریت اردو بولنے والی آبادیوں کی تھی تو یکم اکتوبر علی الصبح تک کراچی میں ایک سو کے قریب سندھیوں کو چن چن کر قتل کر دیا گیا۔
اب سندھ کے حقوق اورموت کی لڑائی اور مزاحمت کی جہتیں تبدیل ہوچکی تھیں۔ اب سندھ کے نئے اینٹی ہیرو تھے۔اب اس شہر میں سندھی ادب کے شمس العلماء مرزا قلیچ بیگ کے پوتے اور اردو کے بزرگ شاعر بسمل آغائی کے نواسے بھی قتل ہونے لگے۔
مجھے سب کچھ تب یاد آیا جب متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین کا سندھ کو دو حصوں اردو اور سندھی بولنے والے سندھیوں کے درمیان تقیسم کردینے کا مبینہ بیان آیااوراس پرایک ردعمل آیا جس سے سندھ میں ایک بار پھر خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہونے لگی۔ یہ بیان الطاف حسین کے اسی شہر حیدرآباد میں ان کی پارٹی کے جلسے سے خطاب کے دوران دیا گيا، حیدرآباد سندھ کا دل ہے ۔
کئی کاغذی شیراپنے اپنے روزگار اور ڈیوٹی سے لگ جانے کی تیاریاں کرنے لگے۔ مجھے نہیں معلوم کہ صرف پیر پگاڑا ہی خود کو کیوں جی ایچ کیو کا آدمی کہلاتا تھا یہاں تو تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے، پھرجب مشرف کی جان خلاصی کی باری آئے تو۔وہ بیان جو اب مجوزہ سندھ ون اور ’سندھ ٹو‘ میں بدل دیا گیا ہے۔ میں اسے ایک نمبر سندھ اور دو نمبر سندھ کہوں گا۔ سندھ کی تقسیم میں سب سے بڑا نقصان اندرون سندھ اردو بولنے والے سندھیوں کا ہوگا۔ وہ جن کا سماجی، اقتصادی اور جذباتی رشتہ کراچی کے بھائی لوگوں سے نہیں سندھ کی مٹی ہوا اور پانی سے ہے، لوگوں سے ہے۔ جو کشمور سے لیکر مٹھی تک بستے ہیں۔پیرپگاڑا نے ایک مرتبہ جی ایم سید سے کہا تھا کہ تم نےان لوگوں (ایم کیو ایم) کوکن فیکون کا مالک بنادیااور یہ ہیں کہ ان کی سوئی حیدرآباد اورکراچی تک اٹکی ہوئی ہے۔ میں نے سوچاجب لالوکھیت میں بھی ایس ایچ او گھوٹکی کا لگے گاتو پھرفرسٹریشن کی سطح اس حد تک تو پہنچے گی۔بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں کہ لندن پریشر۔ بلاول اورالطاف حسین اپنے اپنے ووٹروں کو ٹوپی پہنانے کو ایک نے سندھ کےدو ٹکڑوں کی بات کی تو دوسرے نے مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ ٹوئٹر پرلگایا۔ اب مرنے مارنے کی سیاست ختم ہونی چاہئے۔یہ اور بات ہے کہ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کا اصل نعرہ لگانے والے جرنیل ہوش محمد شیدی کے قبیلے اور ذات کے شیدیوں کے ساتھ سندھ کے میروں، پیروں اور وڈیروں نے جس غیر انسانی سطح کا سلوک کیا ہوا ہے وہ اس عہد کی بدتر غلامی ہے۔ ’’میں سندھ ماں سے کبھی غداری نہیں کرسکتا‘‘۔ نوجوانی میں حیدرآباد کے قریب ٹنڈوقیصر کے باغوں میں آم کھانے اور اپنے غریب خاصخیلی دوست کو ایسے جملوں والے خط لکھنے والے الطاف حسین نے کاش ٹنڈوقیصرسندھ کے اس عظیم اردو بولنے والا سندھی فرزند کو دیکھا یا سنا ہوتا جسےعزیز سلام بخاری کہتے ہیں۔ تقسیم کے وقت ہجرت کر کے آنے والےعزیز سلام بخاری جن کا اصل تعلق ہندوستان کی ترقی پسند تحریک سے تھا نے سندھی زبان و ثقافت کو اپنایا اور ساری زندگی سندھ کے ہاری کے حقوق اور تبدیلی کیلئے سندھ میں جدوجہد کی۔ عزیز سلام بخاری جو کہ ترقی پسند تھیٹر میں پرتھوی راج کے پائے کے تھے جب فوت ہوئے تو وصیت کی کہ انہیں ٹنڈو قیصر میں ان کے اپنے شاگردوں اور ہاریوں کے درمیاں دفن کیا جائے۔ عزیزسلام بخاری معروف سینئر صحافی جاوید بخاری کے والد تھے۔ کتنے سندھیوں یا اردو بولنے والوں میں عزیز سلام بخاری پیدا ہوتے ہیں؟ کتنے محمدابراہیم جویو اور ڈاکٹر ادیب رضوی پیدا ہوتے ہیں؟ مولانا باری فرنگی محلی پیدا ہوتے ہیں؟
اس دن ڈاکٹر ادیب رضوی کے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن میں محمد ابراہیم جویو کے اعتراف میں تقریب ہو رہی تھی۔ سندھیوں اور اردو بولنے والوں کو تعیش کی چیزیں بیچ کر ہتھیار خرید کرنے کی نہیں اس طرح کی ادارے قائم کرنے کی ضرورت تھی اور ہے سندھ نہ فٹ بال ہے اور نہ ہی چاند جنہیں انوکھے لاڈلے کھیلنے کو مانگتے رہیں۔
تازہ ترین