• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیم کے شعبہ میں ہر سطح پر تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر ثانوی اور اعلیٰ تعلیم تک۔ تاریخ کی نصابی کتب موجود ہیں، جن میں تاریخ کا سرکاری نقطہ نظر طلبا و طالبات کو منتقل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح تاریخ کی تعلیم چاہے مطالعہ پاکستان کے تحت پڑھائی جائے یا تاریخ کے ایک موضوع کے طور پر، یک طرفہ ماضی کی تصویر پیش کرتی ہے، جس میں ہمارے اسلاف نے کارھائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔

لیکن جہاں کہیں انہیں ناکامی ہوئی تو وہ اُن کی اپنی نا اہلی نہیں بل کہ غداروں کی سازشوں کا نتیجہ قرار دی جاتی ہے۔ اس یک طرفہ تاریخ میں اتنی یکسانیت اور خود فریبی ہوتی ہے کہ طالب علم دل چسپی کھو بیٹھتے ہیں اور کچھ تو اتنے عاجز آجاتے ہیں کہ رسمی تعلیم ختم کرنے کے بعد مطالعے کی طرف راغب ہی نہیں ہو پاتے۔

آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ آج کے دور میں تعلیم کے ساتھ تاریخ کا شعور کیوں ضروری ہے۔ ایک بنیادی سوال جو، آج کے طالب علم اکثر پوچھتے ہیں وہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں تاریخ پڑھنے اور سمجھنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہاں موجودہ دور کا مطلب ہے اکیسویں صدی اور تاریخ کا مطلب ہے جو کچھ لمحہ موجود سے پہلے گزر چکا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں کچھ تاریخ دان آج سے دس سال پہلے اور اس سے قبل واقعات شامل کرتے ہیں۔ 

یعنی 2023 سے حساب لگایا جائے تو 2013 سے پہلے کے تمام واقعات تاریخ کے نصاب میں شامل ہونے چاہئیں۔ پاکستان میں تاریخ کے نصاب کی ایک خرابی یہ ہے اس میں مغلیہ سلطنت اور قطب الدین ایبک سے لے کر لودھی خاندان تک سب کے قصے شامل ہیں لیکن حالیہ تاریخ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح ہمارے بچے دو قومی نظریے اور نہرو رپورٹ کے ساتھ قائد اعظم کے چودہ نکات رٹ رٹ کر تھک جاتے ہیں لیکن انہیں پاکستان کے پہلے تین وزرائے اعظم کے نام تک نہیں آتے۔ یقین نہ آئے تو آپ کسی سے پاکستان کے پہلے صدر کا نام پوچھ کر دیکھ لیجئے، شاید ہی کوئی بتلا سکے کہ درست جواب میجر جنرل اسکندر مرزا ہے۔

ایک اور مسئلہ ہماری تعلیم میں تاریخ کو صرف سیاسی تاریخ تک محدود رکھا جاتا ہے یعنی آپ کو سراج الدولہ اور ٹیپوسلطان کی انگریزوں سے لڑائی تو پڑھائی جائے گی لیکن ٹیپو سلطان کے کتب خانوں اور بنگال میں علوم و فنون کے ارتقا پر شاید ہی کچھ پڑھایا جائے۔ اسی طرح سندھ اور پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کی تاریخ تو پڑھا دی جائے گی لیکن جامعہ پنجاب یا سندھ کے تعلیمی اداروں کے ارتقا پر بہت ہی کم بتایا جائے گا۔

تعلیم میں تاریخ سے دل چسپی اسی وقت پیدا کی جاسکتی ہے جب اسے سیاسی تاریخ تک محدود نہ رکھا جائے بل کہ اس میں سماجی و معاشی، تاریخ، تعلیم و تربیت، سائنس اور ٹیکنالوجی ، آئینی اور قانونی ارتقا ، بیرونی روابط کی ، ماحولیاتی، انسانی حقوق اور جمہوریت کی تاریخ وغیرہ کو شامل کیا جائے۔

تعلیم میں تاریخ کے نصاب کو کسی ایک مذہب یا فرقے کی اچھائیاں بیان کرنے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہئے، نہ ہی دیگر مذاہب یا فرقوں کے بارے میں معاندانہ رکھنا چاہئے۔

تاریخ کی صحیح تعلیم وہ ہوگی جس میں غیر جانب دارانہ حالات و واقعات اور شخصیات کا تجزیہ کرنا بتایا جائے ۔ مثلا یہ بتانے کے بجائے کہ اورنگ زیب ٹوپیاں سی کر گزارا کرتا تھا یا انگریز اور ہندو مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر رہے تھے یہ بتانا چاہیے کہ اورنگ زیب کے دور میں ٹوپیاں سینے اور جنگیں لڑنے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوا۔ علوم و فنون میں کیا ترقی ہوئی اور اگر نہیں ہو سکی تو اس کی وجوہ کیا تھیں ۔اسی طرح انگریزوں اور ھندووں کی مبینہ سازشوں کے بجائے طالب علم کو سمجھانا چاہیے کہ انگریزوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کے مفادات کیا تھے اور وہ کن مقاصد کے لیے کام کر رہے تھے۔

ایک اچھے طالب علم کو تاریخ کی نصابی کتابوں سے ہٹ کر مزید کتابوں سے یہ پڑھنا چاہئے کہ مذاہب اور فرتوں کے نام پر کیا اچھے اور برے کام کیے گئے اور اس میں کسں حد تک بے جا تشدد کا دخل تھا اور کتنی ایسی خون ریزیاں تھیں جن سے بچا جا سکتا تھا اورکسں خاص نظریے کی ترویج یا محض معاشی مفادات کے حصول کے لیے عوام کو جنگوں میں جھونکا جاتا رہا ۔ اس طرح عدم تشدد کی تاریخ بھی پڑھنا ضروری ہے کہ کسں طرح عدم تشدد کے علم برداروں نے تشدد کرنے والوں کے مقابلے میں معاشرے پر کیا اثرات چھوڑے - کیا جابر بن حیان اور البیرونی سے لے کر ابن سینا اور ڈاکٹر عبد السلام تک یہ لوگ تشدد کے پر چارک تھے۔

فنون لطیفہ کی تاریخ میں ادب و شاعری سے لے کر رقص و موسیقی تک اور مصوری سے لے کر ڈرامے اور ناٹک تک تاریخ کا حصہ ہیں۔ تاریخ کا اچھا طالب علم یہ سمجھنے کوشش کرتا ہے کہ کسی معاشرے میں فنون لطیفہ کیوں پروان چڑھتے ہیں، جب کہ کچھ معاشروں میں رقص و موسیقی دم توڑ دیتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ موازنہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ معاشرے میں فنون لطیفہ کی ترویج کی کیوں ضرورت ہے اور اس سے رواداری اور برداشت کے رویے کیسے پھیلائے جا سکتے ہیں۔

اسی طرح عقائد کی تاریخ پڑھنے سے ہمیں معلوم ہو سکتا ہے کہ بہت سے فرقے مذاہب کے آغاز میں موجود ہی نہیں تھے اور فرقہ واریت دراصل بہت بعد کی پیداوار ہے جس کا فائدہ کچھ لوگ اُٹھاتے ہیں۔ مثلا اسلام کے آغار میں دیوبندی ، بریلوی، وهابی یا احمدی اور اسماعیلی وغیرہ موجود نہیں تھے۔ تاریخ کے اس علم سے ہمیں فرقہ واریت سے بچنے کی ترغیب ملتی ہے۔ اس طرح مسیحی مذہب میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ یا آرتھوڈوکس وغیرہ کی تعلیم ابتدا میں موجود نہیں تھی۔

علوم عالیہ کی تاریخ سے ہمیں علم کے ارتقا اور اس کو تاریخ میں درپیش رکاوٹوں کا شعور حاصل ہوتا ہے ۔ غرض یہ کہ تاریخ کی تعلیم کو لگے بندھے نصاب میں باندھنا سرکاری ضرورت تو ہو سکتی ہے لیکن طلبا و طالبات کی ہرگز نہیں۔ وہ امتحان میں کام یاب ہونے کے لیے بے شک نصابی کتابیں پڑھیں لیکن تاریخ کا علم حاصل کرنے کے لیے اور بہت کچھ پڑھیں۔

جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ ہر وه حالات و واقعات جو دس سال سے قبل گزر چکے ہیں انہیں تاریخ کا حصہ سمجھنا چاہئے اور ان کے بارے میں پڑھنا چاہئے۔ اکثر لوگ چوں کہ حالاتِ حاضرہ سے خود کو باخبر نہیں رکھتے اور اگر رکھتے بھی ہیں تو صرف سطحی طور پر، اس لیے انہیں دس سال قبل کی تاریخ بھی یاد نہیں رہتی۔ تعلیم میں تاریخ کی بابت ایک اور اہم بات یہ ہے کہ صرف تاریخ پڑھنا کافی نہیں، بل کہ اس کی تفہیم اور تشریح بھی بہت ضروری ہے، ایک ہی طرح کے حالات و واقعات اور شخصیات کی تفہیم مختلف طرح کر سکتے ہیں، اسی طرح تاریخ نویس اپنے اپنے نظریات کے مطابق تاریخ کی تشریح کر سکتے ہیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ تاریخ پڑھتے ہوئے تاریخ نویس کے ذاتی رجحانات کو بھی ذہن میں رکھا جائے۔ مثلا نسیم حجازی کے تاریخی ناول پڑھتے ہوئے یہ خیال رکھنا چاہئے کہ وہ کس طرح تاریخ کو پیش کر رہے ہیں۔ کیا اُن کی تحریروں میں موجودہ حالات و واقعات حقیقت پر مبنی ہیں یا ان میں خیال آرائی زیادہ ہے اسی طرح ڈاکٹر مبارک علی کی تحریریں پڑھتے ہوئے ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ ایک ایسے تاریخ دان ہیں جو تاریخ کو معروضی طور پر یعنی شواہد کی بنیاد پر پرکھنے کی دعوت دیتے ہیں جو روشن خیال فکر کی بنیاد ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ موجودہ دور یعنی اکیسویں صدی کے پاکستان میں جب لوگ اپنے حال اور مستقبل کے مسائل میں پوری طرح غرق ہیں ایسے میں گزری ہوئی باتوں کو دہرانا یا انہیں سمجھنے کی کوشش کرنا کیوں ضروری ہے ؟

جب لوگوں کی اکثریت نانِ شبینہ کی جستجو میں مصروف ہو اور باقی ماندہ اقلیت دولت کے انبار لگانے میں مشغول ہو، ایسے میں گئے گزرے دور کو یاد کرنا یا اس سے سبق حاصل کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟

پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص ماضی سے دل چسپی نہیں رکھتا ،وہ بھی تو زندگی گزار لیتا ہے پھر تاریخ کی کیا اہمیت ہے؟

شاید یہیں پر ہمیں پہلے انسانی زندگی گزارنے کے ڈھنگ پر کچھ بات کرنی چاہیے۔ یہ بات شاید درست ہے کہ جہاں تک زندگی گزارنے کا تعلق ہے تو یہ بغیر تاریخ کو پڑھے اور سمجھے گزاری جا سکتی ہے،بالکل اسی طرح جیسے شاید ادب کو پڑھے بغیر یا سائنس اور ٹیکنالوجی کو سمجھے بغیر زندگی گزاری جاسکتی ہے ۔ ماحول کو تاراج کرتے ہوئے بھی اور تعلیم سے دور رہتے ہوئے بھی زندگی گزاری جاسکتی ہے اور بہت سے گزارتے ہی ہیں ۔ لیکن کیا اس طرح کی زندگی کو آج کے دور میں ڈھنگ کی زندگی یا قابل تعریف زندگی کہا جا سکتا ہے ؟ کیا ایسی زندگی کو ایک ذمہ دار انسان کی زندگی کہا جاسکتا ہے جو درج بالا ذمہ داریوں سے خود کو مبرا سمجھے؟

اگر اس کا جواب ہاں میں ہو تو پھر مزید کہناہی بیکار ہوگا لیکن ظاہر ہے اس کا جواب ہاں میں ہو ہی نہیں سکتا تا وقت کہ جواب دینے والا ذاتی خود غرضی کی انتہا پر نہ کھڑا ہو۔

ایک اچھا انسان اس قسم کی خود غرضی سے بالا تر ہوتا ہے جو اُسے اپنی ذات میں محصور کردے۔

اب اگلا سوال یہ ہےکہ جب ہم اچھے انسان کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہمارا کیا مطلب ہوتا ہے؟

کیا ایک مزدور جس نے تاریخ کا علم حاصل نہ کیا ہو اچھا انسان نہیں ہو سکتا ؟ کیا اچھا انسان بننے کے لیے تاریخ پڑھنا ضروری ہے ؟ یقیناً ایک ان پڑھ مزدور بھی اچھا انسان ہو سکتا اور تاریخ پڑھنے والا برا انسان بھی ہو سکتا ہے ۔ غالباً على عباس جلال پوری نے کہیں لکھا تھا کہ اگر مطالعہ کرنے سے بھی آپ کی نفرت اور تعصب میں کمی نہیں آرہی تو آپ غلط کتابیں پڑھ رہے ہیں ۔ اسی طرح تاریخ سے نابلد کوئی کاروباری شخصیت بھی اچھے انسان کی علامات رکھ سکتی ہے۔ لیکن ان کو ایک مکمل انسان نہیں کہا جا سکتا یعنی مکمل طور پر اچھا انسان بننے کے کئی درجے ہو سکتے ہیں اور تمام لوگ اس درجہ بندی میں مختلف درجوں پر فائز ہوسکتے ہیں۔ 

اگر اچھے انسان بننے کے مختلف مدارج ہیں تو ان میں بھی شامل ہونا چاہئے کہ وہ سماجی و سیاسی طور پر باشعور ہوتے ہیں اور ان میں سماج کو بہتر بنانے کی تڑپ زندہ ہوتی ہے ۔ وہ اپنی ذاتی ، خاندانی اور سماجی ذمہ داریوں کا احساس رکھتےاور ان کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ خود کو جسمانی اور ذہنی امراض سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی شخصیت میں متوازن ہوتے ہیں اور تخلیقی صلاحیتوں کو برقرار رکھنے ، نکھارنے اور دوسروں تک پہنچانے کی سعی کرتے ہیں ۔رنگ، نسل ، مذہب اور صنف کے علاوہ دیگر ممکنہ تعصبات سے پاک ہوتے ہیں ۔ معاشرتی رنگا رنگی، بوقلمونی اور مختلف النوعیت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ بقول احمد ندیم قاسمی؎

وہم سے بو قلموں کون و مکاں

ورنہ یک رنگ، یقیں کی باتیں

مزید یہ کہ اچھے انسان عدم تشدد پر یقین رکھتے اور عسکریت پسندی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ۔ وہ برد بار، روا دار اور درگزر کرنے والے ہوتے ہیں۔ اُن میں تجسّس اور جاننے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ علم کی جستجو کر کے علم کو عمل کے ساتھ جوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پُر اعتماد اور پُر امید ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے خیالات و نظریات دوسروں پر تھوپنے کی کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی دوسروں کو ایسا کرنے کی اجازت یا ترغیب دیتے ہیں ۔

اب پھر وہی سوال کہ اگر اچھے انسان میں یہ سب خصوصیات ہونی چاہئیں تو ان کا تاریخ سے کیا تعلق بنتا ہے؟ یہ ہی وہ نکتہ ہے کہ شاید جس سے آج کے دور میں تاریخ کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے اور شاید یہیں سے طلبا میں، قاری میں وہ رغبت پیدا ہو جائے جو اسے گزری ہوئی باتوں کی تفہیم و تشریح کی طرف لے جائے۔ غالباً ایک اچھے انسان کی تشکیل میں جن باتوں اور عوامل کی ضرورت ہے وہ شاید تاریخ سے روگردانی کر کے حاصل نہیں کیئے جاسکتے۔ جس طرح صحت مند انسانی جسم اپنے ہر عضو میں صحت مند ہوتا ہے اسی طرح ایک اچھے اور صحت مند معاشرے کو اپنے ہر حصے کی صحت کا خیال رکھنا ہو تا ہے۔ اسی طرح سماجی تاریخ کو نظر انداز کر کے ہم صرف اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار سکتے ہیں جو ہم کررہے ہیں۔