قومی اسمبلی میں جمشید دستی نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی گھڑی کو موضوع گفتگو بنا دیا اور کہا کہ ڈار صاحب نے پچاس لاکھ روپے کی گھڑی باندھی ہوئی ہے۔ اس پر ڈا ر صاحب نے گھڑی اتار کرا سپیکر کو بھجوائی اور کہا کہ یہ جمشید دستی کو دے دیں اور ان سے پچاس ہزار روپے لے کر خیرات کردیں۔ آج کی ’’تازہ خبر‘‘ دستی کا یہ بیان ہے کہ اب تک اس گھڑی کی تین لاکھ روپے قیمت لگ چکی ہے۔ جس پر کہا گیا کہ ان تین لاکھ میں سے وہ پچاس ہزار روپے خیرات کے لیے جمع کرا دیں۔ باقی منافع کے طور پر اپنے پاس رکھیں۔
اب یہ بات تو یقینی ہے کہ گھڑی پچاس لاکھ کی بالکل نہیں تھی ورنہ اسحاق ڈار ایسا ’’کنجوس‘‘ وزیر خزانہ اپنا ذاتی خزانہ کیسے لٹا سکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے یہ گھڑی ’’فی البدیہہ‘‘ جمشید دستی کو ’’دستی‘‘ طور پر پیش کی۔ اگر وہ محض تردید کرتے تو ہمارے ہاں بہتان لگانے والی ایک نسل جو اگرچہ پہلے بھی موجود تھی مگر اب اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہوگیا ہے اتنا وسیع کہ اب وہ افراد کے علاوہ گھڑیوں پر بھی الزام تراشی کرنے لگے ہیں کبھی یقین نہ کرتے کہ گھڑی مہنگی نہیں تھی۔ انہوں نے اس گھڑی کے ’’درجات‘‘ بلند کرتے ہی رہنا تھا، ویسے مانیں گے وہ اب بھی نہیں۔ اسی طبقے کے ایک فرد افضل خان نے جو 2013ء کے عام انتخابات میں سیکرٹری الیکشن کمیشن تھا دھرنے کے درمیان اسٹیج پر کھڑے ہو کر اپنے اس انکشاف سے ’’تھرتھلی‘‘ مچا دی کہ ان انتخابات میں دھاندلی کا وہ عینی شاہد ہے مگر عدالت میں جا کر اس شخص نے کہا کہ اس نے جھوٹ بولا تھا اور وہ غیر مشروط معافی کا طلب گار ہے چنانچہ اسے معاف کردیا گیا۔ مگر اب وہ کہتا پھرتا ہے کہ معافی تو اس نے مروت میں مانگی تھی۔ سو اس طبقے کا کوئی علاج نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جمشید دستی صاحب جو پچاس ہزار والی پیشکش کے باوجود ابھی تک اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ یہ گھڑی پچاس لاکھ کی ہے ورنہ اس کی قیمت تین لاکھ کیسے لگتی؟ موصوف کو اپنے الزام کی حقیقت کا اندازہ تھا مگر اب وہ پھنس گئے ہیں۔ چنانچہ ممکن ہے ایک آدھ دن میں یہ گھڑی کی قیمت پچاس لاکھ بھی ’’لگوا‘‘ لیں۔ لگوانے میں جاتا ہی کیا ہے؟
مجھے علم نہیں کہ اسحاق ڈر صاحب کی گھڑی کی اصل قیمت کیا ہے تاہم یہ اندازہ ضرور ہے کہ پچاس ہزار سے بہرحال زیادہ نہیں اور اگر یہ گھڑی جو مہنگی لگتی ہے ’’اصل مطابق نقل‘‘ والی گھڑی ہوتی جو دو سو روپے میں بھی مل جاتی ہے تو سوچیں ہمارے جمشید دستی صاحب پر کیا گزرتی جو اس وقت دل میں پھولے نہیں سما رہے ہوں گے کہ پچاس لاکھ کی نہ سہی پچاس ہزار کی گھڑی تو ہاتھ آئی۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ اگر اسحق ڈار کی جگہ میں ہوتا تو جمشید دستی کے الزام کو قبول کرتا البتہ اس میں تھوڑی سی ترمیم یہ کرتا کہ جمشید دستی کی معلومات ناقص ہیں۔ یہ گھڑی پچاس لاکھ کی نہیں ایک کروڑ روپے کی ہے۔ اس کی اوریجنل قیمت تو دو کروڑ روپے تھی مگر میں نے یہ گھڑی چونکہ اس کی پرموشن مہم کے دوران خریدی تھی چنانچہ ایک کروڑ کی ملی۔ میرے خیال میں جمشید دستی کو اذیت دینے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی نہ تھا۔ اب ایک ذاتی سی بات، اگر آپ کا رزق حلال ذرائع سے آیا ہے اور اللہ نے اس میں برکت بھی ڈالی ہے تو اس میں سے اللہ کے رستے میں اللہ کے بندوں پرخرچ کرنے کے بعد باقی پیسہ کیا انڈے دینے کے لیے ہوتا ہے؟ اگر میرے پاس اتنا پیسہ ہوتا جتنا اسحاق ڈار کے پاس ہے اور کبھی کسی نے ان پر کرپشن کا الزام تک نہیں لگایا تو میں اپنی من پسند گاڑی خریدتا، گھڑی خریدتا، گھر خریدتا، جہاز خریدتا اور وہ سب کچھ جو حلال ہے اپنے تصرف میں لاتا اور خوشی کے حصول کے علاوہ حاسدوں کے سینے پر مونگ بھی دلتا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف اہل ثروت بھی ہیں لیکن بہت سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ جب وہ جدہ میں جلاوطنی کے دن گزار رہے تھے میں ایک ہفتہ ان کے پاس ٹھہرا تھا اور ایک دن اس موضوع پر ان سے بہت بحث کی تھی، مگر وہ قائل نہیں ہوئے تھے۔
اسحاق ڈار صاحب کی گھڑی سے ایک بہت مزے کی بات یاد آئی۔ ایک دفعہ ایک دوست دبئی سے لاہور آئے تو انہوں نے جو گھڑیاں تحفے میں پیش کیں ان کا وزن ایک کلو تھا۔ میں نے ان سےکہا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ میں نے تو گھڑی ایک ہی باندھنی ہے ان ایک جیسی ایک کلو گھڑیوں کا مجھے کیا کرنا ہے؟ آپ نے بہت بڑی رقم ضائع کی۔ یہ سن کر وہ ہنسے اور بولے آپ پریشان نہ ہوں، یہ گھڑیاں تول کر مل رہی تھیں میں نے ایک کلو خرید لیں تاکہ آپ اپنے دوستوں میں بانٹ سکیں۔ اس سے ایک روز بعد میں نے ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے انڈیا جانا تھا میں نے گھڑیوں کی گٹھڑی اپنے سامان میں رکھی اور وہاں جس ہوٹل میں ٹھہرا وہاں کے بیروں، کمرے کی صفائی کرنے والوں اور گیٹ پر کھڑے گارڈز میں تقسیم کرنا شروع کردیں وہاں مشہور ہوگیا کہ دبئی کا ایک شیخ یہاں ٹھہرا ہوا ہے جو ٹپ میں گھڑی دیتا ہے۔
کاش ان میں سے ایک آدھ گھڑی بچی ہوتی اور یوں ہمارے بہت دلچسپ پارلیمنٹرین دستی صاحب کو ڈار صاحب کی گھڑی پر نظر نہ رکھنا پڑتی۔