میرا شمار ملک کے ان دیوانوں میں ہوتا ہے جو جمہوریت کے دیوانے کہلاتےہیں۔ وہ جمہوریت کے علاوہ دوسرے کسی نظام حکومت کو ماننے اور قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ مانا کہ جمہوریت کے عشق میں وہ اندھے، بہرے اور گونگے ہوچکے ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ان کو جمہوریت کے علاوہ دوسرا کوئی نظام حکومت ایک آنکھ نہیں بھاتا ۔ وہ گھنٹوں بحث ومباحثے کرکے ثابت کرسکتے ہیں کہ دنیا میں جتنے بھی طرز حکومت آزمائے گئے ہیں ان تمام طرز حکومت میں سب سے اچھا سب سے بہتر اور سب سے زیادہ قابل قبول نظام حکومت جمہوریت ہے۔ جمہوریت وہ واحد طرز حکومت ہے جس میں نالائق سے نالائق آدمی کو حکومت کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ دیکھنے والوں نے دیکھا ہے کہ ذہنی اور جسمانی طور پر معذور افراد برسہا برس اسمبلی میں گم صم بیٹھے رہتے ہیں۔ منہ سے کچھ نہیں کہتے ، صرف جمائیاں لیتے رہتے ہیں۔ ہرماہ پابندی سے ان کو تنخواہ اور دیگر مراعات ملتی رہتی ہیں۔ ایسے مزے آپ صرف جمہوریت میں لوٹ سکتے ہیں، کسی اور نظام حکومت میں نہیں۔
اپنے موقف کی تائید میں ارض وسما کی قلابیں ملانے سے بہتر ہے کہ ہم جمہوریت کے علاوہ چند ایک نظام حکومت کا تجزیہ کرلیں۔ سب سےکم تر، بیکار اور فضول طرز حکومت کو کہتے ہیں نگراں حکومت ایسی حکومت کا کوئی والی، کوئی وارث نہیں ہوتا۔ دوچارمہینوں کے لئے وارد ہوئے ہوں یا دوچار برس کے لئے، پتہ نہیں چلتا کہ نگراں حکومت کون چلارہا ہے۔پتہ نہیں چلتا کہ نگراں حکومت کا روح رواں کون ہے۔جو نگراں حکومت چلارہے ہوتے ہیں، وہ دکھائی نہیں دیتے۔ اور جو نظام حکومت چلارہے ہوتے ہیں، وہ وہ نہیں ہوتے جو اصل میں ہوتے ہیں۔ ان کے قلم کی سیاہی سوکھ چکی ہوتی ہے، مگر وہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ نگراں حکومتیں بیکار ترین حکومتیں ہوتی ہیں۔ نگراں حکومت کو چلانے کے لئے دوچار دیسی پر دیسی نگرانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک مرتبہ پھر دہرا دوں کہ ملک چلانے کے لئے جمہوریت سے عمدہ طرز حکومت ہوہی نہیں سکتا۔ جمہوریت واحد طرز حکومت ہے جس میں آپ کہیں سے بھی داخل ہوکر حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ چاہے چھوٹے ہوں یا موٹے ہوں، کھرے ہوں یا کھوٹے ہوں، آپ ملک پر حکومت کرسکتے ہیں۔ ایک طرز حکومت میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مندوں کو حکومت چلانے کا موقع دیاجاتا ہے۔ یہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت یا طرز حکومت ہر لحاظ سے جمہوری نظام کی نفی ہوتی ہے۔ ٹیکنو کریٹس کی طرز حکومت میں ان پڑھ، نیم خواندہ اور ہنر سے بے خبر لوگوں کے لئے حکومت کرنے اور ملک چلانے کے دروازے کبھی نہیں کھلتے۔ ہمیشہ بندرہتے ہیں۔ مگر جمہوری نظام میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہر ایرے غیرے، نتھو خیرے کیلئے حکومت میں آنے اور چھا جانے کیلئے کھڑکیاں،روشندان، اور دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔
انصاف کے تقاضے جب تک پورے نہیں ہوتے جب تک جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی۔ جس معاشرے میں تعلیم وتربیت کا فقدان ہو اس ملک میں ناخواندہ اور نیم خواندہ لوگوں کو اقتدار سے دور رکھنا نا انصانی کے مترادف ہے۔ مانا کہ وہ لوگ ان پڑھ ہیں۔ مگر ہیں توآپ ہی کے ملک کے عوام ۔حکومت کرنا ان کا حق ہے۔ آپ اس مثال پرغور کریں۔ ایک معاشرے میں فرض کیجئے کہ ایک سو لوگ رہتے ہیں۔ اس آبادی میں دس فیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ یعنی دس لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ اور نوے لوگ ان پڑھ ہیں۔ انصاف کی روسے جمہوری نظام حکومت میں دس لوگوں کو نوے لوگوں پر حکومت کرنے کا حق نہیں دیاجاسکتا۔
بات واضح کرنے کے لئے ایک غیر حقیقی مثال لیتے ہیں۔ ایک معاشرے میں نوے گدھے اور دس گھوڑے رہتے ہیں۔ فری اور فیئر الیکشن میں یہ ہو نہیں سکتا کہ نوے گدھے، دس گھوڑوں کو اپنا نمائندہ چن لیں اور دس گھوڑوں کو اپنا لیڈر بنادیں۔ ایسا رویہ جمہوری تقاضوں کے برعکس سمجھا جاتا ہے۔ معاشرے میں جن کی اکثریت ہے، حکومت کرنے کا حق ان کا بنتا ہے۔ اقلیت کو اکثریت پر فوقیت دینے سے معاشرے میں سیاسی اور سماجی عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ اگر آپ کے ملک میں پروان چڑھنے والی اکثریت پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی کے ہنرمند اشخاص پر مشتمل ہے، اور نظام جمہوریت میں اقتدار کی مسند پر براجمان ہے، یقین جانئے آپ کا ملک دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا۔ اگر آپ کے ملک کی اکثریت ان پڑھ، سست اور ہنرمندی سے محروم لوگوں پر مشتمل ہے تو پھر آپ کے ملک کا شمار دنیا کے پسماندہ ممالک کی سر فہرست میں ہوگا۔ اس کے لئے آپ دوش جمہوریت کو نہیں دے سکتے ۔ آپ ایک ٹکٹ میں دو فلمیں نہیں دیکھ سکتے۔ آپ کو ایک بہت بڑا، سایہ دار اور گھنا درخت چاہئے اور آپ درخت کی شاخوں پر میٹھا پھل دار فروٹ بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ بلکہ لگاتار توڑ توڑ کرکھانا چاہتے ہیں۔ توپھر بھائی، ایٹم بم بنانے سے پہلے اسکول کالج اور یونیورسٹیاں بنائیے۔ پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ بنائیے۔ آپ کے ہاں بے شمار ٹیلیویژن چینل ہیں۔ آپ کب تک ساس بہو، نند بھاوج کے ڈرامے دکھاتے رہیں گے؟ آپ کب تک لوگوں کو بتاتے رہیں گے کہ وہ کب ہنسیں اور کب روئیں؟خدا کے نیک بندو ، کم سے کم ایک چینل تو صرف تعلیم وتربیت ، علم اور آگاہی کے لئے مخصوص کردیجئے۔