• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں جناب شاہین صہبائی کا مضمون بعنوان ’’مشرف، الطاف بھائی بھائی‘‘ نظر سے گزرا۔ اس سے قبل کہ اس مضمون کے مندرجات پر تبصرہ کیاجائے،قارئین کی توجہ میں اس مضمون کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا جو صہبائی صاحب نے 22جولائی 2013ء کو ’’تین پارٹیاں، تین کہانیاں ‘‘کے عنوان سے تحریر فرمایا تھا۔ یہ مضمون اس سیریز کا آخری مضمون تھا جو لندن میں ہونے والی پیشرفت کے حوالے سے تحریر کئے گئے تھے۔ جس میں کئے جانے والے تمام دعوے اور پیشگوئیاں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں اس میں موصوف رقمطراز ہیں کہ ’’ان تینوں بڑے لیڈروں کو کراچی کی صورتحال پر بھی کھل کر بات کرنی چاہئے ،جو نظر آرہا ہے وہ اچھا نہیں۔ جیسے ہی لندن میں مقدمات آگے بڑھتے ہیں، کراچی میں حالات بگڑتے جائیں گے۔ سنا ہے کہ اب ستمبر (2013ء) کا آخر وہ وقت ہے جب بڑے بڑے بت گرنا شروع ہوں گے۔ کراچی ظاہر ہے ہر بری خبر پر ردِعمل دکھائے گا اور یہ بات نواز شریف اور جنرل کیانی یا ان کے جانشین کے لئے پریشانی کا باعث ہوگی‘‘۔ اس مضمون کو پانچ ماہ کا عرصہ گزر چکا، اس کے بعد جب دوبارہ معزز کالم نگار نے قلم اٹھایا تو ایم کیو ایم کو موضوعِ بحث بنایا پھر انہیں لندن میں خطرات نظر آنے لگے اور اپنے گزشتہ مضمون کی پیشگوئی کو انہوں نے بھلا دیا اور اس پر رائے زنی کرنے کے بجائے مشرف اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے ساتھ کسی مبینہ اتحاد کا عندیہ دے دیا۔ جو خبریں الطاف حسین اور مشرف کے فرشتوں کے علم میں نہیں، وہ نہ جانے کالم نگار کو کس طرح مل گئیں۔ کالم نگار رقمطراز ہیں کہ پہلے پہل ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین مشرف سے خوفزدہ تھے اور اب وہ انہیں مہاجر کاز کو زندہ کر کے کسی مبینہ عدم موجودگی میں مہاجروں کا لیڈر بنانا چاہتے ہیں۔ راقم کی نظر میں کالم نگار قیادت کے لفظ سے تو آشنا ہیں لیکن اس کے مفاہیم سے آشنا نہیں۔ الطاف حسین جس مقام پر آج موجود ہیں، اس کے پیچھے تیس سے پینتیس سالہ سیاسی جدوجہد ہے۔ بالکل اسی طرح وہ سیاسی قیادت جو پاکستان اور دنیا بھر کی سیاست میں کوئی کردار ادا کرتے ہیں تو اس کے پیچھے ان کی طویل سیاسی جدوجہد ہوتی ہے۔ وگرنہ پاکستان میں بھی بہت سے افراد نے سیاست میں قدم رنجہ فرمائے لیکن آج وہ اپنے گھروں میں بیٹھے زخم چاٹ رہے ہیں۔ سیاسی قائدین راتوں رات تیار نہیں کئے جاسکتے بلکہ یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو خداداد صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ کالم نگار نے الطاف حسین کی گفتگو کو بالکل سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا ہے یا پھر وہ الطاف حسین کی گفتگو کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ حیدرآباد کے جلسے میں علیحدہ صوبے کی بات بھی ہوئی تھی اور حقوق نہ ملنے کی صورت میں علیحدہ ملک کی بات بھی کی گئی لیکن مذکورہ گفتگو کا ایک اہم نکتہ وسائل کی تقسیم پر مذاکرات کے ذریعے تصفیہ کرنے کا تھا اور اس اہم ترین نکتے کا ذکر پورے فسانے میں کہیں موجود نہیں ۔اگر واقعی وہ اتنے باخبر تھے تو ستمبر 2013ء میں جو بت گرنا تھے، وہ کیوں نہ گرے؟ اور آج ایک نئی کہانی لے کر ایک بار پھر ایک ایسی متحرک سیاسی جماعت جو طویل عوامی حمایت کی تاریخ رکھتی ہے اس پر بے بنیاد الزامات گھڑ رہے ہیں جس کی نہ تو کوئی دلیل ہے نہ کوئی ثبوت۔ کبھی سالگرہ کا ذکر کیاجاتا ہے، کبھی مشرف کودعوت دے کر قیادت کا تاج پہنانے کی بات کی جاتی ہے۔ زیر بحث مضمون نہ تو منطق کی بنیاد پر سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی مروجہ صحافتی طریقہ کارکے تحت آتا ہے کیونکہ اگر کسی سالگرہ کی تقریب کا ذکر کیا گیا تو اس تقریب کے میزبان کا ذکر بھی ہونا چاہئے، تاریخ بھی بتانی چاہئے تھی۔ رہی بات جس بنیاد پر انہوں نے الطاف حسین کو مشرف سے خائف قرار دیا، وہ انتہائی اوچھی بات تھی کہ وہ ہاتھ ملاتے وقت صرف انگلیاں ملا کر چلے گئے۔ اس بنیاد پر خوفزدہ ہونے کا تاثر کس طرح پیدا ہوا؟ اس ضمن میں کوئی دلیل کالم نگار نہ دے سکے۔ رہا سوال مشرف کی حمایت کا، اس سلسلے میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آرٹیکل 6 کی تین ذیلی شقیں بھی ہیں جس کے دائرے میں درجنوں نہیں سیکڑوں افراد آتے ہیں ان کو بھی غداری کے اس مقدمے میں شامل کیا جائے اپنی اس رائے کا اظہار الطاف حسین متعدد مواقع پر کرچکے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ صہبائی صاحب یا توکالم نگاری کرتے نہیں ہیں اور اگر کرتے ہیں تو ان کا موضوع صرف اور صرف ایم کیو ایم ہوتی ہے۔ اگر کوئی ذاتی پرخاش انہیں ایم کیو ایم یا اس کے قائد الطاف حسین سے ہے تو بہتر ہوگا کہ وہ اس کا اظہا ر براہِ راست ایم کیو ایم سے کریں۔ رہی بات کسی کی واپسی اور کسی کے جانے کی، تو یہاں یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ ایم کیو ایم ایک وسیع البنیاد جمہوری سیاسی جماعت ہے اور گزشتہ پچیس سالوں سے عوام میں اپنے مینڈیٹ کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اتنی طویل مدت تک مینڈیٹ کو برقرار رکھنا عوامی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ رہا سوال پنجاب میں اور دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے اجتماعات کا تو یہ شکایت بھی بہت جلد دور ہوجائے گی۔ تنظیمی امور میں کبھی وقفہ نہیں آتا اور یہ حقیقت صرف ایم کیو ایم نے ثابت کی ہے کہ وہ ہمہ وقت اپنے کارکنان اور عوام سے رابطے میں رہتی ہے اور بہت جلد کراچی میں دیگر قومیتوں کا ایک بڑا اجتماع بھی منعقد ہوگا جو اس امر کا غماز ہوگا کہ ایم کیو ایم آج بھی نہ صرف قومی دھارے کا حصہ ہے بلکہ مستقبل کی معمار کی حیثیت سے قیادت کا فرض سرانجام دے گی۔
تازہ ترین