عام سی بات ہے۔ سنی سنائی اور دیکھی بھالی حقیقت ہے۔ اس میں کسی قسم کا فلسفہ بگھارنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اس دنیا میں تن تنہا اور اکیلے آتے ہیں۔ میں دیکھ سکتا ہوں کہ آپ میری بات سننے کے بعد مسکرا رہے ہیں۔ میں آپ کو مسکرانے کا ایک موقع اور دیتا ہوں۔ دل کھول کر مسکرائیے۔ ہم جب اس دنیا سے روانہ ہوتے ہیں، تب بھی تنہا ہوتے ہیں۔ کیوں آپ نے میری بات سن کر مسکرانے کی زحمت نہیں کی؟ بات ہی کچھ ایسی ہے بھائی۔ ہر بات پر آپ مسکرا نہیں سکتے۔ ویسے بھی جانے کی بات ہلا کررکھ دیتی ہے۔آپ صرف آنے کی بات سن کر مسکرا سکتے ہیں۔ جانے کی بات سن کر مسکرانا دل گردے کی بات ہے۔ دیکھے بھالے لوگ جانے کی بات سن کر ڈپریشن پژمردگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سب نے سنا ہے کہ یہ دنیا دھوکا ہے، فریب ہے۔ یہ دنیا عارضی ہے۔ خواہشوں کی دلدل ہے۔ ارض وسما کی وہ کونسی برائی ہے جو اس چکا چوند دنیا میں نہیں ہے۔مگر پھر بھی یہ طلسماتی دنیا ہمیں اچھی لگتی ہے۔ اس دنیا میں آنے کے بعد کوئی بھی یہاں سے جانے کے لئے راضی نہیں ہوتا۔یہاں سے روانگی کی بات سن کر ڈھیٹ سے ڈھیٹ شخص بھی مسکرا نہیں سکتا۔
اکیلے اس دنیا میں آنے کی بات سن کر آپ اس لئے مسکرائے تھے کہ آپ مجھے سٹھیا گیاسمجھ بیٹھے ہیں۔ عرض کردوں کہ تقریباً تیس دہائیاں پہلے فقیر سٹھیا جانے سے مکت ہوچکا ہے۔ سٹھیا جانے کے بعد ستریا ہوجانے کے اپنے مزے ہیں۔ اس کے بعد آتا ہے اسی واں دور۔ وہ دور جاری ساری ہے۔ اسیواں دور ختم ہوگا نوے کی دہلیز پر آپ اس دور کو نویواں بھی کہہ سکتے ہیں۔ سلسلہ کچھ اس طرح آگے بڑھتا ہے کہ سٹھیا کہلانے کے بعد آپ ستریا کہلوانے میں آتے ہیں۔ ستریا کے خیروخوبی سے گزر جانے کے بعد اسیواں کہہ کر آپ کا ذکرخیر کرتے ہیں۔ اور اسیویں دور کے بعد آتا ہے ڈائمنڈ جوبلی دور، جس کو عام طور پر نویواں دور بھی کہا جاتا ہے۔ نویواں دور بڑے کمال کا دور ہوتا ہے۔ آپ اگر حالات کے ہاتھوں گنجے ہوچکے ہیں، تو نویویں دور میں آپ کے سر پر بالوں کی نئی فصل اگنے لگتی ہے۔ اگر آپ کے سر پر بال اب تک سلامت ہیں مگر سفید ہوچکے ہیں، تو پھر نوے ویں دور میں آپ کے سفید بال کالے ہونے لگتے ہیں۔ ٹوٹی ہوئی داڑوں کہ جگہ نئی داڑیں نکلنے لگتی ہیں۔ آپ کی عینک کا نمبر کم ہونے لگتا ہے۔دھندلی چیزیں صاف دکھائی دینے لگتی ہیں۔ آپ کو دور کے ڈھول سہانے سنائی دینے لگتے ہیں۔ پچھلی دہائیوں میں آپ کبڑے ہو چکے تھے۔ مگر نویویں دور میں داخل ہونے کے بعد آپ کبڑے نہیں رہتے۔ آپ تیر کی طرح سیدھے اور ہشاش بشاش دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس دور میں آپ ایک عدد شادی بھی رچا سکتے ہیں۔ یقین جایئے، یہ جائز ہے۔آپ کو شرمانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔
خواہ مخواہ کی بے مقصد باتوں میں آپ کا بیش بہا وقت ضائع کررہا ہوں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بھرپور دماغ رکھنے والے مانیں یا نہ مانیں، یہ ان کی خوش نودی پر منحصر ہے۔ مگر فقیروں نے صدیوں سے محسوس کیا ہے، یعنی نسل در نسل محسوس کیا ہے کہ ہم اکیلے اس دلفریب دنیا میں آئے ہیں، اور اکیلے اس دلفریب دنیا سے لوٹ جاتے ہیں۔مانا کہ مائیں جڑواں بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ اور کبھی کبھار تین یا چار بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ ماں کی کوکھ میں آٹھ نو مہینے مل کر اور جڑ کر دنیا میں آنے کے لائق بنتے ہیں۔ اس دنیا میں آنے کے بعد وہ بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے رہتے ہیں، وہ سب اپنی پسند،نا پسند، شخصیت، رویوں، اور رد عمل میں ایک دوسرے سے الگ ہوتے جاتے ہیں۔یہ سب، ہمارے ایک دوسرے سے الگ ہونےکی نشانیاں ہیں۔ہم فقیر سائنسی اور تکنیکی دماغ رکھنے والوں سے الجھنا نہیں چاہتے۔
ہم اس دلکش دنیا میں آئے تواکیلے ہیں مگر بہت جلد اپنی تنہائی، اکیلائی یعنی اکیلا پن سے گھبرا جاتے ہیں۔ ہم دوست احباب تلاش کرناشروع کرتے ہیں۔ رشتہ داروں میں ہم ،ہمعصر اور ہم خیال ساتھیوں کی کھوج لگالیتے ہیں۔ پڑوس کے بعد اسکول، کالج، اور یونیورسٹی سے مخلص دوستوں کی کھیپ تیار کرلیتے ہیں۔ اور پھر روزی روٹی کمانے کے دوران طرح طرح کے لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ دفتروں میں کولیگ ملتے ہیں۔ دوستی کا ایک اور دائرہ بننے لگتا ہے۔ اکیلاپن دور کرنے کے لئے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق کبھی مسجد ،کبھی مندر، کبھی گرجا، کبھی گوردوارے کا اور کبھی سیناگاگ کا رخ کرتے ہیں۔ عبادت گاہیں عقیدت مندوں سے بھری ہوئی ملتی ہیں۔ ہمیں ہجوم کے درمیان ہونا اچھا لگتا ہے۔ اکیلے پن یعنی تنہائی کی وحشت کم ہونے لگتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے ہم ایک بہت بڑے قافلے کا حصہ ہیں۔ زندگی کے سفر میں حیاتِ کارواں نہ جانے کہاں کہاں سے گزرتا ہے۔ پتہ تب چلتا ہے جب ہم سفر ایک ایک کرکے جانے لگتے ہیں۔ ساتھ چھوڑدیتے ہیں۔ اورپھر ایسا وقت بھی آتا ہے جب دوست احباب جاچکے ہوتے ہیں۔ ہمعصر اور ہم سفر دکھائی نہیں دیتے ۔ ایک ایک کرکے سب ساتھی ساتھ چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ ہر طرف رہ جاتی ہیں ان کی یادیں، ان کی باتیں، اور ان کی حکایتیں۔
دراصل آج مجھے آپ سے باتیں کرنی تھیں جسٹس محمد بچل میمن کے بارے میں۔ انیس سوپچاس کی دہائی میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ کمال کے آدمی تھے۔ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ اپنے عہدہ کا مان رکھنا جانتے تھے۔ ضرورت سے کم یا زیادہ ایک لفظ نہیں لکھتے تھے اور نہ بولتے تھے۔ اپنی فقرہ بازی سے میڈیا والوں کو محظوظ کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ خواہ مخواہ بے سروپا، فضول اور اوٹ پٹانگ باتوں سے آج میں نے کتھا ضائع کردی۔ پھرکبھی، میں آپ سے جسٹس محمد بچل میمن کے بارے میں دلچسپ باتیں کروں گا۔