• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے سے مشکلات میں گھرا، پاکستان اب کسی نئے بحران، طوفان یا ہیجان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کوئی مانے نہ مانے پرویز مشرف کی نوسالہ آمریت نے ملک کی چولیں ہلاکے رکھ دی ہیں۔ اکتوبر 1999ء سے اگست 2008ء تک جنرل مشرف کی تمام داخلی و خارجی پالیسیاں اس نکتے پر مرکوز رہیں کہ پاکستان پر اس کی گرفت کیوں کر مضبوط رہے اور وہ کیا حکمت عملی وضع کرے کہ اس کے اقتدار کا سورج کبھی نہ ڈھلنے پائے۔ اس مقصد کے لئے اس نے ہر وہ حربہ اختیار کیا جو کسی بھی خدا فراموش اور خود پرست انسان کے دماغ میں سما سکتا تھا۔ اس کا سلسلہ چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی کو اس دھمکی سے شروع ہوا کہ 12؍اکتوبر کے اقدام کی توثیق کرو ورنہ گھر چلے جائو۔ وہ مرد شریف اپنے پانچ دیگر رفقاء کے ساتھ گھر چلا گیا۔ ارشاد حسن خان نے نئے چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھایا اور ڈکٹیٹر کی جھولی میں وہ کچھ بھی ڈال دیا جو اس نے مانگا بھی نہیں تھا۔ کامل نو برس تک اپنی ذات ہی پرویز مشرف کا مرکز و محور رہی جسے وہ ’’پاکستان‘‘ کہا کرتے تھے۔ ریفرنڈم، منصب صدارت پہ قبضہ، فرزندان وقت پر مشتمل ایک سیاسی ریوڑ کی تخلیق، آئین کی چیرپھاڑ، وردی کو اپنی کھال قرار دینے کا اعلان، اداروں کی تاخت و تاراج، قانون کی پامالی، عدلیہ پر شرمناک حملے، من پسند اسمبلیوں کی تشکیل، یہ سب کچھ مشرف نامی شخص کی کشت آرزو کی آبیاری کے لئے تھا۔ خارجی مفاد پر امریکہ کی اطاعت کو بنیادی اصول کا درجہ حاصل ہوگیا۔ کولن پاول کے وہ کرخت مطالبات بھی مان لئے گئے جنہیں امریکیوں نے صرف سودا بازی کے لئے فہرست میں شامل کردیا تھا۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ پاکستان کی فوج کو قبائلی علاقوں میں بھیج کر بے چہرہ امریکی جنگ کو اس طرح اپنالیا گیا کہ آج ہمارے لئے اس سے گلو خلاصی پانا مشکل ہوگیا ہے۔
میں یہ بات بارہا لکھ چکا ہوں کہ ڈکٹیٹر آئین، قانون، نظام عدل، جمہوریت، سیاسی کلچر اور ریاستی اداروں کو تو تباہ کرتے ہی ہیں، سب سے زیادہ نقصان وہ اپنے ادارے یعنی فوج کو پہنچاتے ہیں۔ بظاہر وہ ملک و قوم کی ہمدردی کا دم بھرتے لیکن دراصل فوج کو اپنے ذاتی عزائم کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ثمرات وہ خود سمیٹتے ہیں اور پتھر فوج کو پڑتے ہیں۔ اقتدار کی لذتیں ان کے حصے میں آتی ہیں اور الزامات کے تیر فوج پہ برستے ہیں۔ مشرف نے پہلے تو آرمی چیف کی حیثیت سے فوج کو کارگل کے ایسے ایڈونچر میں دھکیل دیا جس سے فوج کو بھی ہزیمت اٹھانا پڑی اور عالمی سطح پر ایسی رسوائی ہوئی کہ آج تک ہماری ساکھ بحال نہ ہوسکی۔ جنرل شاہد عزیز اپنی کتاب میں انکشاف کر چکے ہیں کہ کس طرح بندر گاہوں اور ہوائی اڈوں سمیت سب کچھ امریکہ کے قدموں میں ڈال دینے کے فیصلے فوجی قیادت سے بالا بالا انفرادی طور پر کرلئے گئے۔ مشرف نے آخری معرکہ عدلیہ سے لڑا جس سے وہ وردی سمیت صدارتی الیکشن لڑنے کا فیصلہ چاہتے تھے لیکن حالات ناسازگار دیکھ کر انہوں نے 3؍نومبر کو عدلیہ کا تختہ ہی الٹ دیا۔ من مانی عدالت بنائی اور من مانا فیصلہ حاصل کرلیا۔
مشرف کے عہد کے بہت سے پہلو اب پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ شاید مسلم لیگ (ن) نے شعوری فیصلہ کیا ہے کہ ان باتوں کو بھلا دیا جائے۔ وزیراعظم نواز شریف تسلسل سے کہتے رہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذات اور اپنے خاندان کے حوالے سے ظلم و ستم کی ساری کہانیاں بھلا دی ہیں اور سب کو معاف کردیا ہے۔ مسلم لیگی رہنمائوں اور کارکنوں کی بڑی تعداد ہے جسے مشرف نے ایجنسیوں کے اہلکاروں کے ذریعے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ ظلم و ستم کی یہ داستانیں مرتب کی جائیں تو ایک خونچکاں مرقع تیار ہوسکتا ہے۔ پھر کہا جائے گا کہ یہ کام مشرف نے کوئی اکیلے کیا ہے؟ لیکن یہ آتش فشاں نہ ہوتا تو سب کچھ بھسم کر ڈالنے والا یہ لاوہ بھی نہ ہوتا۔ صرف پرویز رشید ہی اپنی کہانی لکھ ڈالے تو دنیا کو پتہ چلے گا کہ یہ شخص اپنے عزائم کے لئے کیا کیا کچھ کرتا رہا ہے۔ تشدد اور ایذا رسانی کی یہ وارداتیں پس منظر میں چلی گئی ہیں کیونکہ ’’ظلم کی کہانیاں‘‘ صرف سیاستدانوں کے نامۂ اعمال کا حصہ بنتی ہیں۔
نو سال ہر محیط اس عہد ستم کی تفصیلات شاید ہی کبھی منظرعام پر آسکیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پرویز مشرف کو انہی سکّوں میں ادائیگی کی جائے جو اس نے اپنی ٹیکسال میں ڈھالے تھے۔ اب تک جو ہوا، وہ ٹھیک ہوا۔ حکومت کو اسی متوازن اور معتدل راہ پہ چلتے رہنا چاہئے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کی واضح ہدایت کے باوجود خود کو عوامی جماعت کہنے والی پیپلزپارٹی ٹال مٹول سے کام لیتی رہی کیونکہ جناب آصف زرداری ’’پانچ سال پورے کروں گا‘‘ کے جنوں میں مبتلا تھے۔ نگرانوں سے پوچھا گیا تو بولے، ہم یہ بھاری پتھر نہیں اٹھا سکتے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے عدالتی استفسار کا ’’ہاں‘‘ میں جواب دیا اور آئینی تقاضوں کے مطابق اپنی شکایت خصوصی عدالت کو بھیج دی۔ استحقاق رکھتے ہوئے بھی حکومت نے اپنی صوابدید استعمال نہیں کی۔ اب معاملہ اس عدالت کے روبرو ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ عدالت بھی دھیمے انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ اس نے کسی مرحلے پر یہ تاثر نہیں دیا کہ اسے جلدی ہے۔ ہر بات پر وکلاء کا نقطہ نظر سنا جارہا ہے اور ساتھ ساتھ فیصلے صادر کئے جارہے ہیں۔ اب تک عدالت قرار دے چکی ہے کہ فوجی ڈاکٹرز کی رپورٹ کے مطابق پرویز مشرف کو عارضہ قلب کی شکایت نہیں۔ عدالت نے اس کے باوجود انہیں پیشی کے لئے ایک ہفتے کی مہلت دے دی ہے۔ یہ فیصلہ بھی ہوگیا کہ اس کیس پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق ہوگا۔
حکومتی ذمہ داری بڑی حد تک ختم ہوچکی ہے۔ اب جو بھی ہونا ہے کمرہ عدالت میں ہونا ہے۔ کمرہ عدالت کے اعتبار و وقار کا تقاضا یہ ہے کہ ملزم کو اپنی صفائی کا بھرپور موقع دیا جائے۔ ماحول کو ہر نوع کی آلودگی سے بچانے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس مقدمے کو سیاسی سرکسوں اور میڈیا چوپالوں میں بھی زیادہ زیر بحث نہ لایا جائے لیکن سب سے ضروری بات یہ ہے کہ پرویز مشرف عدالت سے تعاون کریں۔ اب ان کے پاس ڈیڑھ فٹ کی چھڑی نہیں۔ سو وہ کسی جج کو گھر بھیج سکتے ہیں نہ مرضی کی عدالت بناکر پسند کا فیصلہ لے سکتے ہیں۔ وہ ریٹائرڈ آرمی چیف ہی نہیں،ایک سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ یہ جماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے۔ انتخابات میں حصہ بھی لے چکی ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک سیاستدان کی حیثیت سے اس مقدمے کا سامنا کریں۔ وہ اپنے دفاع کے لئے فوج اور آرمی چیف کو ملوث کرکے ایک بار پھر اپنے اس ادارے سے زیادتی کررہے ہیں جسے وہ دو بار اپنے شخصی مفاد کے لئے استعمال کرچکے ہیں۔ سابق صدر زرداری عدالت میں پیش ہوگئے۔ گزشتہ ہفتے سابق صدر رفیق تارڑ کو دل کی تکلیف ہوئی۔ وہ لاہور کے ایک عام سے پرائیویٹ اسپتال میں داخل ہوگئے اور چار دن بعد گھر آگئے۔ پرویز مشرف بھی گردش ایام کے اس مرحلے میں مردانگی کا مظاہرہ کریں۔ کم ازکم فوج کو ڈھال نہ بنائیں۔ وہ پہلے ہی ان کی خود پرستی کی خاصی بھاری قیمت ادا کرچکی ہے۔ مشرف نے سیاسی قبا پہن ہی لی ہے تو ایک جری سیاستدان کے طور پر اس افتاد کا سامنا کریں۔
تازہ ترین