• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف سے 12؍جولائی 2023ء کو 9 ماہ کی عبوری مدّت کے تین ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری اور دوست ممالک سے مالی معاونت ملنے کے باوجود پاکستان کی معیشت کو سنگین مشکلات، چیلنجز اور خطرات کا سامنا ہے۔ 

واضح رہے کہ یہ قرضہ معیشت کی بحالی کے لیے نہیں بلکہ اس کا مقصد 2024ء میں آئی ایم ایف سے بڑی رقم کے قرضے کی پاکستان کی درخواست کی ممکنہ منظوری تک پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانا ہے اِلّا یہ کہ خود حکومت کوئی بڑی غلطی نہ کرے۔ یہ بات ہم گزشتہ کئی ماہ سے کہتے رہے ہیں کہ دسمبر 2023ء کے بعد کسی بھی وقت حکومت ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف سے درمیانی مدت کے قرضے کے لیے دستِ سوال دراز کرے گی یہ قرضہ امریکا کی سفارش اور انتہائی کڑی معاشی شرائط پر منظور کیا جائے گا۔ 

ان کے نتیجے میں معیشت کی شرح نمو سُست رہے گی، غریب و امیر کا فرق بڑھے گا اور وفاق و چھوٹے صوبوں کے درمیان اعتماد کا بحران سنگین ہوگا جس سے پاکستان دُشمن ملکی و بیرونی قوتیں فائدہ اُٹھانے کی کوششیں تیز کریں گی۔ خدشہ یہ ہے کہ ’’نئی سردجنگ‘‘ کے دور میں ’’نیوگریٹ گیم‘‘ کے مقاصد کے حصول میں مزید پیش رفت ہوگی۔ اس صورت حال کے نتیجے میں نہ صرف ملکی معیشت بلکہ قومی مفادات اور قومی سلامتی کو درپیش خطرات میں مزید اضافہ ہوگا۔

مالی سال 2019ء سے مالی سال 2023ء کے پانچ برسوں میں پاکستانی معیشت کی کارکردگی پاکستان کی تاریخ کی بدترین کارکردگی رہی۔ اس مدت میں:

(1) معیشت کی اوسط سالانہ شرح نمو آزادی کے 76 برسوں میں کسی بھی 5 برسوں میں حاصل کی جانے والی اوسط سالانہ شرح نمو سے کم رہی۔

(2) مجموعی تجارتی خسارہ، مجموعی جاری حسابات کا خسارہ، مجموعی بجٹ خسارہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ رہا۔

(3) استعداد کے مقابلے میں ٹیکسوں کی کم وصولی پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ رہی۔

(4) مالی سال 2003ء کے بعد سے یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ پانچ برسوں میں ٹیکسوں کی وصولی کا حجم دُگنا نہیں ہوا۔

(5) ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں سب سے تیز رفتاری سے کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انٹربنک مارکیٹ اور کھلی منڈی میں روپے کی قدر کا فرق 40 روپے فی ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔

(6) پاکستان کے مجموعی قرضوں و ذمہ داریوں کے حجم میں ان 5 برسوں میں جو اضافہ ہوا وہ پاکستان کی تاریخ میں اِسی مدت میں سب سے زیادہ تھا۔

(7) معیشت میں تباہ کاریوں کے باوجود پاکستان میں کام کرنے والے تجارتی بینکوں نے ان پانچ برسوں میں اپنے ٹیکس سے قبل منافع میں جو اضافہ کیا اس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے۔

(8) ان پانچ برسوں میں اگرچہ معیشت مشکلات کا شکار رہی اور ڈیفالٹ کے نعرے لگتے رہے مگر مالدار اور طاقتور اشرافیہ نے اس مدت میں جو بے تحاشہ دولت کمائی اس کی بھی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے۔

ملکی و بیرونی اشرافیہ کا گٹھ جوڑ:

یہ ایک قومی اَلمیہ ہے کہ ملکی و بیرونی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے خصوصی طور پر گزشتہ پانچ برسوں میں جو ناقابل فہم، ناقابل دفاع اور قومی سلامتی و مفادات سے متصادم معاشی و مالیاتی پالیسیاں وفاقی و صوبائی حکومتوں، اسٹیٹ بنک اور ایف بی آر وغیرہ نے اپنائیں ان کے نتیجے میں نہ صرف وطن عزیز کے 24 کروڑ عوام کی زندگی اَجیرن ہوئی بلکہ معیشت اور قومی سلامتی کو بھی دھچکے لگے۔ ان 5 برسوں میں معیشت کی کارکردگی کے ضمن میں کچھ حقائق اور اعداد و شمار پیش ہیں:

(1) پاکستان کی درآمدات ملکی برآمدات سے دُگنی سے بھی زائد رہیں چنانچہ مالی سال 2019ء سے مالی سال 2023ء میں پاکستان کو 162؍ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا جو کہ تقریباً 32 ارب ڈالر سالانہ بنتا ہے۔ واضح رہے کہ نائن الیون سے پہلے 1990ء کی دہائی میں تجارتی خسارہ صرف تقریباً 22؍ ارب ڈالر تھا یعنی تقریباً 2؍ارب ڈالر سالانہ۔ 

یہ بات واضح ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی امداد ملنے، بیرونی ملکوں سے آنے والی ترسیلات میں اضافہ ہونے اور عملاً برآمدات کو نظرانداز کر کے انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق (4)111 سے استفادہ کر کے ان ’’کارکنوں کی ترسیلات‘‘ میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ڈالر کی شکل میں جو رقوم ملیں ان سے طاقتور طبقوں کو غیرضروری درآمدات کی اجازت دے کر خوب دولت کمانے کا موقع دیا گیا۔ یہ پالیسی تباہ کن ہے۔

(2) پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے لیکن ملکی قانون کے تحت کھلی منڈی سے ڈالر خرید کر بنکوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر رقوم منتقل کی جا رہی ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں ہی جو رقوم اس طرح باہر منتقل کی گئی ہیں وہ متعدد بڑے ڈیم بنانے کے لیے کافی ہوتیں۔

(3) مالی سال 2018ء کے اختتام پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 122 روپے تھی جو مالی سال 2023ء کے اختتام پر 283 روپے ہوگئی۔

(4) تخمینہ ہے کہ گزشتہ 5 برسوں میں ایف بی آر نے ٹیکسوں کی مد میں استعداد سے تقریباً 25 ہزار ارب روپے کی کم وصولی کی مالی سال 2023ء صرف ٹیکسوں کی چوری کی مد میں قومی خزانے کو تقریباً 4 ہزار روپے کا نقصان ہوا ،جبکہ ملک میں تقریباً 9 کروڑ موبائل رکھنے والے ایسے افراد سے بھی حکومت اب 15 فیصد ٹیکس وصول کر رہی ہے جو کہ غیرقانونی ہے۔

(5) مالی سال 2018ء میں پاکستان کے مجموعی قرضوں و ذمہ داریوں کا حجم 29879؍ ارب روپے تھا جو مارچ 2023ء میں بڑھ کر 72978؍ ارب روپے ہوگیا۔

(6) دسمبر 2018 سے دسمبر 2022ء کے چار برسوں میں تجارتی بنکوں کے صنعت، تجارت و زراعت وغیرہ کو دیئے گئے قرضوں کے حجم میں 3863؍ ارب روپے کا اضافہ ہوا ،جبکہ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومتی تمسکات کے حجم میں 10486؍ ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ تجارتی بنکوں کی سرمایہ کاری کا حجم بڑھنا تشویشناک ہے۔ 

عالمی مالیاتی نظام اس سرمایہ کاری کو ملک کاخطرہ قرار دیتی ہیں،اب یہ خطرہ بڑھ رہا ہے، آنے والے برسوں میں ان حکومتی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کرنے کے لیے بھی پاکستان پر دبائو ڈالا جا سکتا ہے جو کہ بنکاری کے نظام کے لیے بھی بڑا جھٹکا ہوگا۔

(7) 31؍دسمبر 2018ء کو ختم ہونے والے سال میں پاکستان میں کام کرنے والے بنکوں نے مجموعی طور پر 242؍ ارب روپے کا ٹیکس سے قبل منافع کمایا تھا جو 4 برس بعد دسمبر 2022ء میں بڑھ کر703؍ ارب روپے ہو گیا۔ جب معیشت مشکلات میں ہوتی ہے اور بجٹ خسارہ بڑھتا ہے تو بنکوں کا منافع بھی بڑھ جاتا ہے جو کہ پریشان کن ہے۔

(8) گزشتہ 5 برسوں میں معیشت کی اوسط سالانہ شرح نمو 2.6 فیصد سالانہ رہی جبکہ 1980ء سے 2016ء کے 36 برسوں میں یہ شرح نمو 4.7 فیصد سالانہ رہی تھی۔

(9) مالی سال 2018ء میں افراط زَر کی شرح 4.69 فیصد تھی جبکہ مالی سال 2023ء میں یہ شرح 29.2 ہوگئی۔

(10) مالی سال 2018ء میں اسٹیٹ بنک کا پالیسی ریٹ 7.5 فیصد تھا۔ اسٹیٹ بنک نے افراط زَر کو کنٹرول کرنے کے نام پر پالیسی ریٹ میں متعدد بار اضافہ کیا اور یہ ریٹ اب 22 فیصد ہے۔ اسٹیٹ بنک نے 31 جولائی 2023ء کو یہ شرح برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ مالی سال 2024ء میں افراط زر کی شرح 20 سے 22 فیصد کے درمیان رہے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ شرح 25 فیصد سے زائد رہے گی اور اس بات کا امکان ہے کہ اسٹیٹ بنک وسط ستمبر 2023ء میں پالیسی ریٹ میں اضافہ کرے گا۔

ان اعداد و شمار سے واضح ہے کہ معیشت میں اصلاحات کرنے کے بجائے عمران خان کے دور میں مالی سال 2022ء میں ملکی درآمدات، تجارتی خسارے اور جاری حسابات کے خسارے میں تاریخی اضافہ کرکے معیشت کو بحران میں مبتلا کیا گیا جبکہ یہ بات بھی واضح رہے کہ اس مالی سال میں بھی طاقتور طبقوں کو بے تحاشہ دولت کمانے کا موقع دیا گیا۔ 

شہباز حکومت نے معیشت کے شعبے میں اصلاحات کرنے کے بجائے مالی سال 2023ء میں درآمدات، تجارتی خسارہ اور جاری حسابات میں تاریخی کمی کی لیکن اس دور میں بھی بنکوں، طاقتور طبقوں، ہنڈی/حوالہ/ اسمگلنگ کا کاروبار کرنے والوں نے خوب دولت کمائی، لیکن ان برسوں میں بھی اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی ہوئی اور مہنگائی میں اضافہ ہوا۔

معیشت کی تباہی… ذمہ دار کون؟

گزشتہ برسوں میں وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان اور ان کی جانب سے مقرر کیے جانے والے ڈاکٹر رضا باقر نے بحیثیت گورنر اسٹیٹ بنک ایک مربوط حکمت علمی کے تحت سیاسی فائدہ اُٹھانے، طاقتور طبقوں کو ناجائز فائدہ پہنچانے اور بیرونی اشرافیہ کی خوشنودی کے لیے متعدد ایسے اقدامات اُٹھائے جو معیشت کو بحران میں لانے کا سبب بنے۔

نت نئے خطرات:

خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں بڑھ رہی ہیں جبکہ افغان طالبان حکومت سے پاکستان کے تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے ہیں۔ امریکی صدر بائیڈن اور بھارت کے مودی کے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان پر سنگین مگر بے سروپا الزامات لگائے گئے ہیں۔ یہ کوششیں بھی ہو رہی ہیں کہ 2024ء میں ایف اے ٹی ایف پاکستان کو ایک مرتبہ پھر ’’گرے لسٹ‘‘ میں ڈالنے کی مہم کا آغاز کرے۔ 

پاکستان کا شاندار محل وقوع اور جوہری اثاثے دُشمنوں کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں۔ یہ قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان کی معیشت و سلامتی کو نقصان پہنچا کر ایسی تبدیلیاں کی جائیں کہ خدانخواستہ پاکستان کی سرحدیں چین، ایران اور افغانستان سے نہ ملیں۔ ان مذموم مقاصد کو ناکام بنانے کے لیے انتخابات سے پہلے مقامی اصلاحات کو لازماً قانونی شکل دینا ہوگی تاکہ آنے والی حکومت ان سے انحراف کر ہی نہ سکے۔ 

ان اصلاحات میں معیشت کو دستاویزی بنانا، وفاق اور صوبوں کو ایک مقررہ حد سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر بلا کسی استثنیٰ ٹیکس عائد اور وصول کرنا، جنرل سیلزٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح علاوہ اشیائے تعیش کے 7.5 فیصد رکھنا، پیٹرولیم لیوی (بھتہ) کو ختم کرنا، انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق (4)111 کو منسوخ کرنا، کھلی منڈی سے ڈالر خرید کر بیرونی کرنسی کے کھاتوں کے ذریعے رقوم کی منتقلی کو روکنا (علاوہ تعلیم اور علاج معالجے کے اخراجات) اور تعلیم و صحت کی مد میں جی ڈی پی کا 7.5 مختص اور خرچ کرنا لازماً شامل ہوں۔