• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معیشت کا سفینہ، ہچکولوں سے بھی نہ سنبھل سکا

گزشتہ تقریباً 10 ماہ سے پاکستانی معیشت اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔ پاکستان کی75سالہ تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ مختلف شعبوں میں متعدد خرابیاں و تباہ کاریاں ایک ساتھ سامنے آئی ہیں۔ ان میں سے بیشتر ہماری اپنی ہی پیدا کردہ ہیں۔ ان کی وجہ سے نہ صرف معیشت تباہ ہوئی ہے بلکہ قومی سلامتی کو درپیش خطرات بھی دوچند ہوگئے ہیں۔ ان خرابیوں میں،(1) نیو گریٹ گیم کے مقاصد میں پیش رفت کے لیے امریکا کا معاندانہ رویہ اور امریکا کی ایماء پر آئی ایم ایف کا پاکستان کو قرضے کی اقساط کی ادائیگی کے لیے اتنی سخت شرائط عائد کرتے چلے جانا جن کی پاکستان تو کیا دُنیا کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے۔ (2) کچھ برس قبل عمران خان کا آئی ایم ایف سے مذاکرات سے قبل گورنر اسٹیٹ بنک سے استعفیٰ لے کر پُراسرار طور پر ڈاکٹر رضا باقر کو گورنر اسٹیٹ بنک مقرر کرنا اور اسد عمرکی جگہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو وزیر خزانہ کی حیثیت سے تعیناتی۔ ان دونوں شخصیات نے جو ناقابل فہم اورغلط فیصلے کیے ان کے تباہ کن اَثرات2022ء میں بھی محیط رہے۔اس کے علاوہ،روس۔ یوکرین کی جنگ کے منفی اَثرات بشمول عالمی کساد بازاری،معیشت کی انتہائی سُست شرح نمو، اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر کا خطرناک حد تک گرنا، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تاریخی کمی، ہنڈی / حوالہ کے کاروبار میں تیزی سے اضافے سے دسمبر 2022 ء میں ڈالرکے224 روپے کے مقابلے میں متوازی کھلی منڈی میں ڈالر کی شرح مبادلہ250 روپے سے تجاوز کر جانا، نتیجتاً سرمائے میں تیزی اور بیرونی ممالک سے آنے والی ترسیلات میں کمی۔(5) ماحولیات کی تبدیلی سے معیشت کو زبردست نقصانات، پھر اعلیٰ عدلیہ میں سیاسی مقدمات کی بھرمار،بھارت اورافغانستان سے پاکستان میں گولہ باری ، فائرنگ اور خود پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات، دو عالمی کریڈٹ ایجنسیز کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کی تنزلی، سیلاب سے46ارب ڈالر سے زائد کے نقصانات ،اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جانب سے حالیہ سروے کے بعد تاجر برادری کا ’’اعتماد‘‘ کو منفی چار کرنا جو چند ماہ پہلے17 فیصد مثبت تھا، اقتدار حاصل کرنے کے لیے حکومت گرانے، اسمبلیاں تحلیل کرنے، ہنگامہ آرائی کرنے کے ساتھ ملککے ڈیفالٹ کرنے کے نعروں کی تکرار اور سماجی رابطے کی میڈیا پر افواہوں کی فیکٹریوں کا کھلنا مثلاً ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ اور لاکرز و بیرونی کرنسی کے کھاتوں کا منجمد ہونا شامل ہیں۔

فرینڈز آف پاکستان گروپ کے اعلامیہ سے نیو گریٹ گیم کا سفر

2008ء میں فرینڈز آف پاکستان اعلامیہ (سودے) کے فوراً بعد30 ستمبر 2008ء کو ہم نے اسے ’’جال‘‘ قرار دیا تھا۔ اس کے پاکستانی معیشت پر تباہ کناَثرات مرتب ہوئے تھے۔کچھ برس بعد یہ بھی کہا گیا کہ یہ تباہ کن اثرات 2021ء تک محیط رہیں گے۔ بدقسمتی سے اپریل2021ء میں وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ میں وہی دو وزراء اکٹھے ہوگئے جو اکتوبر 2008ءمیں کابینہ میں شامل تھے چنانچہ مالی سال2022ء میں معیشت پھر تباہ ہوگئی اور تجارتی خسارہ و درآمدات پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ رہے۔ اس طرح 2008ء کے جال سے2022ء میں امریکا کے نیو گریٹ گیم کے مقاصد میں معاونت کا 14 برس کا سفر طے کر لیا گیا۔

2022ء میں معیشت کیوں تباہہوئی یا کی گئی؟

وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان نے28 فروری2022ء کو خود ان کی اپنی حکومت کے آئی ایم ایف سے کیے گئے تحریری معاہدہ کو اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو سنبھالا دینے کے لیے ایک ایسے وقت توڑا جب تحریک انصاف کی حکومت کی ناقص اور وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی اور ان کےمنشور سے متصادم پالیسیوں کے نتیجے میں معیشت پہلے ہی مشکلات کا شکار تھی اور وہ کسی بڑے داخلی یا بیرونی دھچکے سے نمٹنے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔ اس فیصلے سے ناراض ہو کر آئی ایم ایف نے پاکستان کو دی جانے والی900ملین ڈالر کی قسط روک لی اور آئی ایم ایف کا پروگرام کھٹائی کا شکار ہوگیا۔

دوست ممالک نے بھی پاکستان کی مالی مدد کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ پاکستان پہلے اپنی معاشی پالیسیوں کی آئی ایم ایف سے توثیق کرائے چانچہ اسٹیٹ بنک کےزرمبادلہ کےذخائر اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرنا شروع ہوگئی اور معیشت بحران کی دلدل میں پھنستی چلی گئی۔ اگر عمران خان یہ معاہدہ نہ توڑتے اور مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں کی حکومت اور اسٹیٹ بنک دانشمندی سے معیشت چلاتے تو آج روپے کی قدر 224 روپے نہیں بلکہ تقریباً190روپے ہوتی۔2022ء کا سُورج طلوع ہوا تو پاکستانی معیشت کو زبردست چیلنجز کا سامنا تھا۔ 

اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ عمران خان نے2019ء میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے والی ٹیم پُراسرار طور پر تبدیل کر دی تھی۔ نئی ٹیم میں ڈاکٹر رضا باقر بھی شامل تھے جو آئی ایم ایف کی ملازمت سے استعفیٰ دے کر پاکستان پہنچے تھے۔اسٹیم نے آئی ایم ایف کے ساتھ انتہائی کڑی اور ناقابل عمل شرائط طے کیں، یہی نہیں گورنر اسٹیٹ بنک کی حیثیت سے رضا باقر نے ڈسکائونٹ ریٹ میں مارچ سے جون2020ء تک زبردست کمی کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور حکومت کےساتھ مل کر سستی شرح سُود پر بڑے پیمانے پر قرضے دینا شروع کر دیئے جس سے مالدار اورطاقتور طبقوں نے دولت کے انبار اکٹھے کر لیے مگر اس سے معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔

شوکت ترین ، نے اپریل2021ء میں جب تحریک انصاف حکومت کو ڈھائی برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے اوراسے ٹھیک کرنے میں چار سے پانچ برس کا وقت درکار ہوگا۔ اس بیان کے چند ہفتوں کے اندر شوکت ترین کو وزیر خزانہ مقرر کر دیا گیا جبکہ ان کے دور میں معیشت میں مزید تیزی سے منفی اَثرات مرتب ہوئے۔

عمران خان کی برطرفی کے چار روز کےا ندر سینیٹر شوکت ترین نے کہا کہ جب اگست2018ء میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو نئی حکومت کےپاس معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے سرے سے کوئی حکمت علمی موجود ہی نہیں تھی جس سے معیشت کو نقصان پہنچا۔ یہ بات بہرحال حیرت سے پڑھی جائے گی کہ2018ء کے انتخابات سے چند ہفتے قبل تحریک انصاف نے ایک دس نکاتی حکمت علمی کا اعلان کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے معیشت کے مختلف شعبوں میں بہتری لانے اور معیشت کو بحال کرنے کے لیے ایک مؤثر حکمت علمی وضع کی ہوئی ہے جس پر اقتدار میں آنے کے100 دن کے اندر عمل درآمد شروع کر دیا جائے گا۔ شوکت ترین کے اس بیان سے واضح ہے کہ تحریک انصاف2018ء کے انتخابات میں عوام سے جو مینڈیٹ لے کر آئی تھی وہ غلط بیانی کر کے حاصل کی گئی تھی اور اس سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

تحریک انصاف کے دور حکومت میں آئی ایم ایف کی خواہش پر اسٹیٹ بنک کو اتنی زیادہ خودمختاری دے دی گئی تھی جس کے غلط استعمال سے پاکستانی معیشت اور قومی سلامتی کو زبردست خطرات لاحق ہو سکتے تھے۔ قومی مفادات سے متصادم یہ خودمختاری دینے میں ڈاکٹر رضا باقر کا اہم کردار تھا۔ 

انہوں نےخودمختاری دینے کا ایک مسودہ آئی ایم ایف کے حوالے کیا تھا۔ اس مسودہ کے کچھ نکات آئین پاکستان سے بھی متصادم تھے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اس بات کو تسلیم کیا ، مگر کہا کہ اس معاملہ کو بُھول کر آگے بڑھنا چاہیے گورنر رضا باقر نے اس خودمختاری کا غلط استعمال کیا چنانچہ سٹّے بازی اور سرمائے کا فرار ہوتے رہنے سے بھی نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر گرتی چلی گئی بلکہ معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ گزشتہ تین ماہ میں معیشت کی بربادی کی وجوہات میں ستمبر 2022ء کے اختتامی دنوں میں وزیر خزانہ کا حلف اُٹھانے والے اسحٰق ڈار کی بڑی غلطیوں میں خود ان کے دور میں آئی ایم ایف سے طے کیے گئے معاملات میں انحراف شامل ہیں۔ 

وہ آئی ایم ایف کے معاندانہ رویہ اور بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بھی گزشتہ 3 ماہ کے دوران آئی ایم ایف سے قرضے کی1.17 ارب ڈالر کی قسط لینے میں کامیاب نہیں ہو سکےاور تباہ حال معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ٹیکسوں اور توانائی کے شعبے میں بھی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے اصلاحات کرنے سے گریزاں نظر آئے۔ انہوں نے ایک ڈالر کی شرح مبادلہ کو200 روپے سے نیچے لانے کے عزم کا اظہار کیا تھا لیکن ان کے دو رمیں زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ متعدد سیاستدانوں اور ماہرین نےگزشتہ چند مہینوں میں اس دعوے کی تکرار کی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹہونےوالا ہے۔ اس قسم کے غلط نعروں سے بہرحال پاکستان کی معیشت اور سلامتی کو زبردست نقصان پہنچا۔

معیشت سے سُود کا خاتمہ۔ شرعی عدالت کاحالیہ فیصلہ

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے سُود کے خاتمے کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا یقین دلاتے ہوئے اسٹیٹکےساتھ فیڈریشن ہائوس میں ایک سیمینار سےبھی خطاب کیا جہاں ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے علماء، دینی جماعتوں اور تاجر برادری کی طرف سے حکومت کے اعلان کا خیرمقدم کیا گیا۔ واضح رہے کہ شرعی عدالت کے احکامات کےتحت2027ءتک پاکستانی معیشت سے سُود کا خاتمہ کرنا ہے۔

 ہم نے متعدد بار کہا کہ دو بنکوں کی جانب سے اپیلیں واپس لینا بے معنی ہے کیونکہ دُوسری اپیلوں کی موجودگی میں شرعی عدالت کا فیصلہ خودبخود معطل ہو جائے گا اور2027ء تک اس فیصلے پر عمل درآمد بھی ممکن نہیں ہوگا۔ قوم کو بہرحال ایک بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب وزیر مملکت برائے خزانہ نے سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ کو بتلایا کہ شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق2027ء تک پاکستانی معیشت سے سُود کا خاتمہ ممکن ہی نہیں۔

ڈیفالٹ کے بے سروپا دعوے

2022ء تو کیا مالی سال2023ء میں بھی پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہو گا۔ اس مدت میں پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کے دعوے عمران خان سمیت متعدد سیاستدانوں اور ماہرین جس تواتر سے کرتے رہے ہیں اس کی پاکستان کی75 سالہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی معیشت کو انتہائی سنگین چیلنجز اور خطرات درپیش ہیں۔ تادم تحریر آئی ایم ایف سے مذاکرات کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں چنانچہ دوست ممالک بھی پاکستان کی مالی مدد کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ مندرجہ ذیل حقائق کو بھی بہرحال نظرانداز نہیں کیا جا سکتا:۔

(1) پاکستان کے کچھ دوست ممالک نے آئی ایم ایف کو تحریری یقین دہانی کرائی ہوئی ہے کہ وہ پاکستان کو بڑے پیمانے پر رقوم فراہم کریں گے چنانچہ یہ ازحد ضروری ہے کہ پاکستان جلد از جلد ہر حالت میں آئی ایم ایفکے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کو یقینی بنائے۔(2)بلومبرگ کی 9 دسمبر 2022ء کو جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس میں یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کا ملک پاکستان کی ہرممکن مدد کرے گا۔(3) چین کے ایشیائی انفرا اسٹرکچرل انویسٹمنٹ بنک نے دسمبر2022ء میں پاکستان کو500 ملین ڈالر کا قرضہ دیا ہے۔ (4) 30 جون 2023ء کو پاکستان کی برآمدات اور بیرونی ترسیلات کا تخمینہ60؍ارب ڈالرہے۔ جولائی سے نومبر 2022ء کے 5 ماہ میں پاکستانی درآمدات کا حجم26.3ارب ڈالر ہی رہے گا۔ (5)30 ستمبر2023ء کو پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضوں کا حجم 97.2؍ ارب ڈالر تھا۔ اسٹیٹ بنک کے مطابق پاکستان نے قرضوں اور جاری حسابات کی مد میں موجودہ مالی سال میں تقریباً33؍ ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ اس میں سے کچھ کی ادائیگیاں ہو چکی ہیں، کچھ قرضے ری شیڈول ہو چکے ہیں، کچھ نئے قرضے ملیں گے اور کچھ قرضوں کی ری شیڈولنگ یقیناً ہو جائے گی چنانچہ ڈیفالٹ کا کوئی امکان نہیں ہے۔(6) پاکستان کے ان قرضوں کا سب سے بڑا حصہ چین کو واجب الادا ہے۔ چین کی جانب سے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مالی مدد کرنے کی یقین دہانیاں متعدد مرتبہ کرائی جا چکی ہیں۔ چین ’’ایک پٹی ایک سڑک‘‘ کے تحت دُنیا بھر میں ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ اس کا اہم ترین منصوبہ ’’سی پیک‘‘ ہے۔ امریکا اور آئی ایم ایف سی پیک کو نقصان پہنچاناچاہتے ہیں۔ 

اگر خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے تو مغربی طاقتیں اور عالمی مالیاتی ادارے اس کی ذمہ داری سی پیک پر ڈالیں گے چنانچہ فی الوقت چین بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے۔(7)افغانستان کے معاملات میں آج بھی امریکا کو پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے نہ صرف مغربی ممالک بلکہ عالمی معیشت بھی کسادبازاری کا شکار ہے ۔ان حقائق کی بناء پر ہم سمجھتے ہیں کہ2023ء میں پاکستان ڈیفالٹ کرنے کا قطعی کوئی امکان نہیں ہے۔

روپے کی قدر میں تاریخی کمی

2022ءمیں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تاریخی کمی ہوئی۔ دسمبر2021ء کے اختتام پر ایک ڈالر تقریباً160 روپےکا تھا جبکہ16 دسمبر2022ء کو یہ قدر تقریباً225 روپے تھی۔ اس کمی کے معیشت پر تباہ کن اَثرات مرتب ہوئے اور مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوا لیکن حکومت نے درآمدات پر کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی مد میں خطیر رقوم کے ٹیکس وصول کیے۔ 

روپے کی قدر میں کمی کی چھ اہم اور بنیادی وجوہات ہیں۔ اوّل عمران خان کا28 فروری2022ء کو آئی ایم ایف سے تحریری معاہدہ توڑنا، دوم ،اسٹیٹ بنک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر کا سٹّے بازی ، ہنڈی حوالے کے کاروبار اور ڈالر کی اسمگلنگ کے کاروبار کو خاموش تماشائی کی حیثیت سے دیکھتے رہنا، سوم، حکومت اور اسٹیٹ بنک کی جانب سے غیرضروری درآمدات کو روکنے کے لئے مؤثر اقدامات نہ اُٹھانا، جہارم، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بے یقینی اور خوف کی کیفیت برقرار رہنا، پنجم، آئی ایم ایف سے اقساط نہ ملنے یا غیرضروری تاخیر ہونے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر کا گرتے چلے جانا اور ششم، ہنڈی/ حوالہ اور ڈالرکی افغانستان اسمگلنگ کے کاروبار بڑھتے چلے جانے کو روکنے میں قانون نافذ کرنے والوں اور کسٹم حکام کی ناکامی۔

ایف اے ٹی ایف اور ترسیلات

یہ اَمر خوش آئند ہے کہ 21؍ اکتوبر2022ء کو ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے باہر نکالنے کی منظوری دے دی ہے۔ اب ضرورت اس اَمر کی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور تمام متعلقہ ادارے وقتاً فوقتاً اس بات کا جائزہ لیتے رہیں کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کو ممکنہ حد تک روکنے میں کسی مصلحت یا سہل پسندی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔گزشتہ 4 سال 5 ماہ میں ’’کارکنوں کی ترسیلات ‘‘کے نام پر تقریباً117؍ ارب ڈالر کی رقوم پاکستان آئیں۔ 

ان کا بڑا حصہ بہرحال کارکنوں کی ترسیلات نہیں ہیں اور اس ضمن میں انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق111(4) سے بھی استفادہ حاصل کیا جا تا ہے جو کہ ایک مستقل این آر او ہے اور آنے والے برسوں میں استعماری طاقتوں کی ایما پر ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان پر منی لانڈرنگ کے الزامات بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ ان ترسیلات سے حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں خطیر رقوم کے نقصانات کا سامنا ہے۔ اس شق کو منسوخ کرنا ہوگا۔ 

مہنگائی، غربت، بھوک اور کرپشن

جنوری2022ء میں ملک میں افراطِ زر کی شرح12.3فیصد تھی جبکہ جون2022ء میں یہ شرح21.3فیصد اور نومبر2022ء میں23.8فیصد رہی۔ اس کی بنیادی وجوہات میں اشرافیہ کی معیشت کا برقرار رہنا، بگڑتے ہوئے معاشی اشاریے، حکومت، اسٹیٹ بنک اور ایف بی آر کی ناقص معاشی، مالیاتی اور مانیٹری پالیسیاں، روس یوکرین جنگ کے مضمرات، شاہانہ اخراجات، کرپشن اور روپے کی قدر کودانستہ گرنے دینا شامل ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں بھی پٹرولیم مصنوعات، بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے سے بھی افراطِ زر میں اضافہ ہوا ہے۔ 

لوٹی ہوئی دولت کو قومی خزانے میں واپس لانے کا بڑا چرچا رہا ۔ برطانیہ نے پاکستان سے لوٹ کر برطانیہ منتقل کی ہوئی190 ملین پائونڈ اسٹرلنگ کی خطیر رقم پاکستان کو واپس کی لیکن عمران خان کی حکومت نے یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے متعلقہ فرد کو ہی واپس کر دی۔ وطن عزیز میں35ملین افراد کو غذائی قلّت کا سامنا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے 90 لاکھ سے زائد مزید افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ 

عالمی بھوک انڈیکس کے مطابق121 ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر99 ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی جنوری2022ء میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق2021ء میں پاکستان کو 100 میں سے صرف28 نمبر ملے اور پاکستان 140 ویں نمبر پر رہا حالانکہ2018ء میں پاکستان کو33 نمبرملے تھے اور کرپشن کی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر117 واں تھا۔

2022ء… معیشت کی کارکردگی، مزید اعداد و شمار

2022ء میں بحیثیت مجموعی معیشت کی کارکردگی انتہائی خراب رہی۔ موجودہ مالی سال میں مہنگائی کی اوسط سالانہ شرح22 فیصد اور معیشت کی شرح نمو 2 فیصد سے بھی کم رہنے کا خدشہ ہے۔چند مزید اعداد و شمار پیش ہیں:

(1) دسمبر2021ء میں افراط زر کی شرح12.3 فیصد تھی جبکہ نومبر 2022ء میں یہ شرح23.8فیصد رہی۔(2) دسمبر 2021ء میں ملکی و بیرونی قرضوں اور ذمہ داریوں کا مجموعی حجم51724؍ ارب روپے تھا جو ستمبر2022ء میں بڑھ کر62466؍ ارب روپے ہوگیا یعنی 9 ماہ میں10742؍ ارب روپے کا تاریخی اضافہ۔(3) دسمبر 2021ء میں اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم17.7؍ ارب ڈالر تھا جو11؍ارب ڈالر کی زبردست کمی کے بعد9 دسمبر2022ء کو6.7؍ ارب ڈالر رہ گیا۔(4) دسمبر 2021ء میں اسٹیٹ بنک کا پالیسی ریٹ9.75 تھا جو دسمبر 2022ء میں بڑھ کر16فیصد ہوگیا۔

معیشت… اگلے چند ماہ کا منظرنامہ

حکومت کو ہر حالت میں اور جلد از جلد آئی ایم ایف سے مذاکرات کو کامیاب بنانا ہوگا تا کہ قرضے کی قسط ملنے کے بعد بیرونی مالی وسائل کی پاکستان آمد میں تیزی آئے۔خدشہ ہے کہ ٹیکسوں کے شعبے کی مایوس کن کارکردگی اور شاہانہ اخراجات میں کمی نہ ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف یہ مطالبہ منظور کرائےگا کہ عوام پر کئی سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں۔ وہ یہ مطالبہ بھی کر سکتا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا کر17 فیصد کر دی جائے۔ 

یہ سب عملاً ایک منی بجٹ کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ سیاسی افراتفری کی وجہ سے معیشت مشکلات کا شکار رہے گی اور بیرونی سرمایہ کاری اور ترسیلات بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔ توقع بہرحال یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کی قسط ملنےکے بعد اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔ روپے کی قدر میں کچھ بہتری آئے گی مگر مہنگائی کی شرح اُونچی اور شرح نمو سُست رہے گی۔

معیشت کی بہتری کے لیے ماضی کی تمام حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی تیار نہیں ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ2023ء کے ممکنہ انتخابات کے بعد آنے والی حکومت بھی لازماً آئی ایم ایف سے24 ویں پروگرام کے تحت قرضہ حاصل کرے گی۔2019ء میں آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرتے وقت وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان نے پُرعزم انداز میں کہا تھا کہ یہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا آخری پروگرام ہوگا مگر ہم نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ یہ آخری پروگرام قطعی نہیں ہوگا اور اگلی حکومت پھر آئی ایم ایف کے سامنے دستِ سوال دراز کرے گی۔

اب ہم یہ بات کہنے کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ قرضے کے 24ویں پروگرام کے لیے فنڈ جو شرائط عائد کر سکتا ہے وہ معیشت، عوام اور قومی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ’’میثاق معیشت‘‘ کی بات کر کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کےبجائے ٹیکسوں اور توانائی کے شعبوں میں اصلاحات کی جائیں اور خود انحصاری کی طرف تیزی سے پیش قدمی کرنے کی واضح پالیسی مرتب کی جائے اور اس پر عمل درآمد کیا جائے وگرنہ خودکشی کا راستہ کھلا ہے۔