• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معیشت کا سفینہ : روپیہ نیچے ... مہنگائی اوپر

رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی

2023 پاکستانی معیشت کے لیے بڑا حیران کن سال رہا ہے۔اس برس دو حکومتیں رہیں، نگراں حکومت آئی اور نگراں حکومت نے بجٹ بھی دیا ہے۔اس سال پاکستان میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ہمیں آئی ایم سے لون حاصل کرنے کے لیے کافی انتظار کرنا پڑا۔ اس کےلیے مشکل ترین حالات سے گزرنا پڑا۔ 

ڈاکٹر محمد ایوب مہر، اکانومسٹ
ڈاکٹر محمد ایوب مہر، اکانومسٹ

ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ آئی ایم ایف طویل انتظار کرائے اور کوئی فیصلہ بھی نہ کرے ورنہ اس سے پہلے بھی پاکستان کومشکل ترین حالات کا سامنارہا، ہم قرض پہلے بھی لیتے رہے ہیں اور پاکستان کی یہ تاریخ ہے کہ وہ قرض ادائی میں کبھی ڈیفالٹ نہیں ہوا یا کبھی کسی ایسے معاہدے سے نکلا ہو، ہمیشہ بروقت ادائی کی ہےیا قرض ری شیڈول کروائے ہیں، بلند منافع پربانڈجاری کئے ہیں، لون کو ری پلیس کیا ہے،لیکن ادائی وقت پر کی ہے،کبھی بھی ڈیفالٹ نہیں کیا ہے یہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ ہے۔ لیکن اس کے باوجود آئی ایم ایف نے اس سال عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔

جس کی ایک بڑی وجہ پی ٹی آئی حکومت نے جو آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا اس معاہدے کی اسی حکومت نے خود خلاف ورزی کردی تھی۔طے شدہ شرائط کے برخلاف فیصلے لیے گئے تھے۔ جس کے بعد سے عدم اعتماد کی فضا بن چکی تھی۔ حکومتی تبدیلی کے بعد نئے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کی شرائط پر مکمل عمل درآمد کی کوشش کی ،وہ آئی ایم ایف کو بتانا چاہ رہے تھے کہ ہم آپ کی شرائط پر مکمل عمل درآمد کررہے ہیں۔اس کی وجہ سے عوام بہت متاثر ہوئیں، مہنگائی بڑھی بہت سارے مسائل پیدا ہوئے۔

مفتاح اسماعیہل اس سے پہلے بھی وفاقی وزیرخزانہ رہے تھے اس وقت ان کا پیش کردہ بجٹ مڈل کلاس کا بجٹ سمجھا جاتا تھا، لیکن دوسری مرتبہ ان کا بجٹ سخت نظرآیا۔ پھر اسحاق ڈار نئے وزیرخزانہ بنے توانہوں نے یہ دعوے کیے کہ ہم روپے کی قدر کو مضبوط کردیں گے اور آئی ایم ایف کی شرائط نہیں مانیں گے، ہم انہیں قائل کریں گے۔ عالمی منظرنامے میں ایک اور عجیب و غریب چیز ہوئی تیل کی قیمتوں میں دنیا بھر میں عدم استحکام دیکھا گیا۔

آئی ایم ایف نے پاکستان پر عدم اعتماد کا مظاہرہ کیا، سخت شرائط کے ساتھ نیا معاہدہ کیا گیا

پاکستان میں نگراں حکومت آئی،عموماً یہ سمجھاجاتا ہے نگراں سیٹ اپ کو عوام کے پاس نہیں جانا ہوتا انہیں ووٹ نہیں مانگنا اس لیے وہ حکومتی پالیسییوں میں عمل درآمد کے لیے سختیاں کریں گے، یہ سمجھاجارہا تھا کہ وزیرخزانہ محترمہ شمشاد اختر کا منی بجٹ سخت ہوگا وہ سخت اقدامات کریں گی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ جو نارمل پریکٹس چل رہی تھی وہ اسی کو لے کرچلتی رہیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے عالمی مارکیٹ کے حساب سے پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے بجائے کم بھی کیں، ہمیں یہ سب چیزیں بھی نظرآتی ہیں عالمی طور پرغیریقینی صورت حال جاری رہی، یوکرین کی جنگ شروع ہوئی اس کے بھی 2023 میں اثرات آئے، اس کے بعد فلسطین کا مسئلہ شرو ع ہوا،اسرائیل نے جودہشت گردی شروع کررکھی ہے اس کے بعد اثرات آرہے ہیں،ایک اور مسئلہ شروع ہوا پوسٹ کوویڈ کے بعد جو حالات بنے اس سے عالمی سطح پر مہنگائی ہوئی ہے اس کے بعدکے اثرات بھی ہم پر پڑ رہے ہیں۔

2023 میں جو دیگر نئے حالات دیکھنے کو ملے اس کا تعلق مانیٹری پالیسی سے ہے،مانیٹرپالیسی اور مہنگائی کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو اس میں جو نئے حالات نظرآئے وہ اس سے پہلے ماضی میں  کبھی نہیں ہوئےتھے۔مثال کے طور پر شرح سود تاریخ کی بلند ترین سطح پررہا گوکہ دنیا بھر میں یہ بڑھا ہے لیکن پاکستان میں جہاں پہلے ہی بہت زیاد ہ تھا اس حد تک بڑھ گیا جو انڈسٹری کے لیے بالکل مناسب نہیں وہ 22 فیصد پر ہے جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک کا موقف یہ ہے کہ یہ اقدامات مہنگائی کو قابو کرنے کےلیے کررہے ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے پاکستان میں کوسٹ پش افراط زر ہے جس سے مراد جب چیزیں جیسے خام مال ،سبزی ،آئل اور خدمات مارکیٹ میں مہنگی ہوجائیں، امپورٹ مہنگی ہوجائے،تو پروڈیوسر کو وہ چیزیں مارکیٹ میں مہنگا فروخت کرنا پڑتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کا یہ کہنا کہ یہ مانیٹری پالیسی سے قابوہوگا حالانکہ مانیٹری پالیسی سے ڈیمانڈپل انفلیشن کنٹرول ہوتا ہے جس سے مراد لوگوں کے پاس پیسہ آگیا ہے اور لوگوں نے ڈیمانڈ بڑھادی ہے اور جب مارکیٹ میں دباؤ آیا تو اشیا مہنگی ہوگئیں۔

بائیس فی صدشرح سود تاریخ کی بلند ترین سطح پر رہا جو انڈسٹری کے لیے بالکل مناسب نہیں

حکومت کا ایک تھنک ٹینک ہے پلاننگ کمیشن کے زیرانتظام باڈی جسے PIDE کہتے ہیں اس کی جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے کیس میں مانیٹری پالیسی غیر موثر ہے جس سے مراد مانیٹری پالیسی سے افراط زر کو قابو نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اس کے نتائج دیکھیں ایک زمانے میں بینک کے جو طویل الیعاد لون ہوتے تھے اس کا جو پورٹ فولیو تھا اس میں سب سے زیادہ پرسنٹیج فکسڈ اثاثوں پر تھی، فکسڈ اثاثوں سے مراد لون نئے پلانٹ کےلیے، مشینری لگے گی تو انڈسٹری لگے گی ،اس سے یہ ہوتا تھا کہ انڈسٹری بڑھتی تھی تو روزگار ملتا تھا جی ڈی پی کی گروتھ بڑھتی تھی مینوفیکچرنگ سیکٹر کا شیئر بڑھتا تھا یہ ماضی میں ہوتا تھا۔

غالباًتین سال پہلے تبدیلی آئی اور ٹرینڈ بدل گیا، اب فکس اثاثوں کے بجائے بینک کے زیادہ لون ورکنگ کیپیٹل کےلیے دیئے جانے لگے،انڈسٹری کی ڈیمانڈ ورکنگ کیپیٹل کےلیے زیادہ تھی انہیں روزانہ کی بنیاد پراپنے کاروبار اور لیکوڈیٹی کو سنبھالنے کےلیے خام مال ، اوور ہیڈ اخراجات، تنخواہوں اور دیگر بل اس طرح کی دیگرچیزوں کےلیے لون زیادہ چاہیے ہوتا تھا، تو اس طرح فکسڈ اثاثوں کاریشو کم ہوکر ورکنگ کیپیٹل کا شیئر بڑھ گیا۔

لیکن اس سال دوہزار 23 میں وہ ٹرینڈ بھی بدل گیا ہے اس سال دونوں کا شیئر کم ہوا اور بینک کے زیادہ لون پرائیوٹ سیکٹرکو دیئے گئے وہ ایکویٹی اورنان بینکنگ فنانشل انسٹی ٹیوشن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دیا گیا ہے، ایک اور اہم چیز بتانے کی ہے پرائیوٹ سیکٹر کو جوڈومیسٹک قرض دیا جاتا ہے یہ انڈسٹری اور سرمایہ کاری میں بہت اہم کردار اداکرتا ہے،گلوبل ریشو یہ ہے ڈومیسٹک ڈیبٹ جو پرائیوٹ سیکٹر کو دیا جاتا ہے وہ جی ڈی پی کا 140 فیصد سے زیادہ ہوتا ہے، جنوبی ایشیا میں بھی یہ پچاس فیصد سے زیادہ ہے انڈیا میں بھی ڈومیسٹک ڈیبٹ پرائیوٹ سیکٹر ٹو جی ڈی پی کا 55فیصد ہوتا ہے۔

اسٹیٹ بینک نے مہنگائی کو قابو میں رکھنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کیا

پاکستان میں یہ ریشوصرف15فیصد ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مانیٹری سیکٹر انڈسٹری سیکٹر میں کیا کردار ادا کرسکتاہے،15فیصد ریشو پاکستان ،افغانستان کے علاوہ ایک دو ملک اور ہوں گے جہاں اتنے کم فیصد ڈومیسٹک ڈیبٹ پرائیوٹ سیکٹر ٹو جی ڈی پی مل رہا ہے، تو جو ریشو پہلے ہی کم ہے وہ 22فیصدانٹرسٹ پر کہاں پہنچے گی۔ پانچ سال پہلے سے ایک اور ٹرینڈ نظر آرہا ہےجو اس سال مزید بڑھ گیا ہے، بینک جولینڈنگ کرتے ہیں اس کا ایک بڑا حصہ بجٹ خسارے کو پورا کرنےکے لیے حکومت کوجاتا ہے وہ تین ٹریلین سے زیادہ ہوگیا ہے جو کبھی ایک ٹریلین بھی نہیں ہوتاتھا،اب باقاعدہ جب بجٹ پیش ہوتے ہیں اس میں یہ بھی ذکر ہوتا ہے کہ بینک سے اتنے لون لینے ہیں۔اس سے آپ اندازہ لگالیں لوگوں کی سیونگ کہاں استعمال ہورہی ہیں۔

اتنے انٹرسٹ ریٹ سے پھر یہ کہنا کہ اس طرح مہنگائی کو قابو کرلیا جائے گا کیسے ممکن ہے۔ افراط زر میں ایک تبدیلی اور آئی ہے اگر آپ کنزیومر پرائس انڈیکس کے ڈیٹا کا جائزہ لیں تو دوطرح کا افراط زر دیکھنے کو مل رہا ہے ،ایک مڈل کلاس افراط زر جو سی پی آئی کی بنیاد پر ہوتا ہے اور ایک حساس اعشاریہ ہوتا ہے جسے ہم غریب کا انڈیکس کہتے ہیں جس میں بارہ کموڈیٹیز شامل ہیں جیسے چینی، آٹا،دال، چاول، تیل وغیرہ اس طرح کی چیزیں شامل ہوتی ہیں، ماضی میں یوں ہوتا تھا کہ کنزیومر پرائس انڈیکس جس میں چار سوسے زیادہ کموڈیٹیز شامل ہیں وہ زیادہ ہوتا تھا کیوں کہ انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہوتا تھا۔ لیکن غریب کی ضرورت بارہ کموڈیٹزکی قیمتوں کو حکومت کنٹرول کرتی تھی اسے بڑھنے نہیں دیتی تھی،یعنی ایس پی آئی میں قیمتیں زیادہ ہوتی تھی اور ایس پی آئی میں قیمتیں کم ہوتی تھیں یہ ماضی میں ہوتا تھا۔لیکن اس سال عام عوام غریب لوگوں والا انڈیکس بہت زیادہ ہے،وہ چالیس کے قریب پہنچ گیا ہے۔

یہ نیا ٹرینڈ ہے مہنگائی غریبوں کےلیے زیادہ ہو رہی ہے ایسا پہلے نہیں ہوتا تھا۔اگر اسے مزید رورل اوراربن میں تقسیم کریں تو اب دیہی علاقوں میں مہنگائی زیادہ ہے بہ نسبت شہر کے، اس سے پہلے شہری علاقوں میں مہنگائی زیادہ ہوتی تھی اربن ایریاز میں مڈل کلاس آبادی زیادہ ہے جن کا اپنے رہن سہن تعلیم میں زیادہ خرچ ہوتا ہے وہ سپرمارکیٹ سے خریداری کرتے ہیں، لیکن اب دیہات میں ایس پی آئی والا بھی اور کنزیومر والا دونوں انڈیکس میں مہنگائی زیادہ ہے جو بہت خطرناک ہے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ کوسٹ پوش انفلیشن ہے، اور جب دیہات میں کھانے پینے کی چیزیں شہر سے زیادہ مہنگی ہوجائیں، توصاف ظاہر ہے کہ دیہات میں اشیاخوردونوش کی جو پیداوار ہورہی ہے وہ رولر پروڈیوسرکسی بھی مجبوری میں اسے پیسے چاہیے وہ اسے اب وہاں نہیں رکھ رہا وہ اربن علاقوں میں پہلے بھیج رہا ہے دیہات کی ضروریات اس کے بعد سوچ رہا ہے اس سال یہ نیاٹرینڈ شروع ہے۔

نومبر2023کے اعدادوشمار آگئے ہیں۔ نومبر میں دواعشاریہ سات بلین ڈالر ایکسپورٹ ہوئیں ہیں، پچھلے سال یہ دواعشاریہ دو دوبلین ڈالر پر تھی تو اس طرح یہ پانچ بلین ڈالرکااضافہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ امپورٹ میں بھی دو سو ملین کا اضافہ ہوا وہ چار اعشاریہ پانچ ملین ڈالر ہوگئی ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پرکوئی خاص فرق نہیں پڑرہا۔ پچھلی دفعہ بھی ایک اعشاریہ نو فیصد تجارتی خسارہ تھا ابھی بھی ایک اعشاریہ سات کا ہے۔ ہم اسے بہت بڑی کامیابی نہیں کہہ سکتےصورت حال پہلے جیسی ہی ہے۔

اس میں نقصان دہ چیز ہوئیں ہےاگر ہم جولائی سے نومبر کا موازنہ کریں توورک ریمی ٹینس کے نمبر آچکے ہیں، دوہزار اکیس اور بائیس میں ریمی ٹینسس تیرہ اعشاریہ تین بلین ڈالر تھے دوہزار بائیس تئیس میں بارہ اعشاریہ تین ہوگئے یعنی ایک بلین ڈالر کی کمی ہوگئی تھی۔اب دوہزار تئیس چوبیس میں گیارہ بلین ڈالر رہ گئے ہیں یعنی مزید کم ہوگئے ہیں۔ اس طرح سے اگر ایکسپورٹ میں معمولی اضافہ ہوا ہے تو اس سے کہیں زیادہ ورکر ریمی ٹینسس میں کمی واقع ہوگئی ہے۔

جو فارن کرنسی ان فلو کا ایک ذریعہ ہوسکتاتھا جو بہت اہم اور مناسب آمدنی کاذریعہ ہے۔وہ غیرملکی سرمایہ کاری ایم ڈی آئی یورو فارن انویسٹمنٹ ایف بی آئی میں اس کاکوئی خاص فرق نہیں پڑ رہا ہے بہت معمولی سافرق آ رہا ہے۔ہمارا سب سےاہم ترین مسئلہ ریمی ٹینسس میں کمی کا آرہا ہے۔ مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے اسٹیٹ پاکستان ڈیمانڈ مینجمنٹ پالیسی یا انٹرسٹ ریٹ کی پالیسی پرعمل کرتارہاہے جس میں وہ منی ٹائٹنگ کرتا ہے ہاٹ پالیسی پر عمل کرتاہے اور انٹرسٹ ریٹ بڑھادیتا ہے۔

روپے کی قدر میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی جو دنیا کی کسی اور کرنسی میں نہیں دیکھا گیا

اب اگر ٹرینڈ دیکھیں تو جیسے جیسے انٹرسٹ ریٹ بڑھا اگر اس کا موازنہ دوہزار بیس سے دوہزارتئیس کے نومبر تک، اس دوران انٹرسٹ ریٹ مستقل بڑھتارہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ مہنگائی کم نہیں ہوئی وہ بھی بڑھتی رہی ہے۔اب یہ کہاجائے کہ انٹرسٹ ریٹ بڑھانے کی وجہ مہنگائی کم رکھنا ہے تو بدقسمتی سے ایسانہیں ہورہا۔ دو ہزار بیس سے تئیس تک افراط زر مستقل بڑھتارہا ہے۔

مئی دوہزار بیس میں ریٹ آف انٹرسٹ آٹھ تھا جو کوویڈ کے سبب جون میں پالیسی انٹرسٹ ریٹ سات کردیاگیاتھا۔ دوہزار اکیس میں بھی تھوڑا اضافہ ہوا اور نواعشاریہ سات پانچ رہا ہے اس کے بعد بڑھ کربارہ اعشاریہ دو پانچ ہوا۔ جنوری دو ہزار تئیس میں سترہ ہوگیاتھا یعنی رواں سال کے آغاز میں مانیٹری پالیسی کاریٹ اسٹیٹ بینک نے سترہ فیصد کردیا تھا پھر بیس فیصد ہوا اور جون میں سترہ سے بائیس ہوگیا تھا اور ابھی تک بائیس فیصد ہی ہے۔

جب کہ اسٹیٹ بینک کا وہی پالیسی بیان ہے کہ ہم مہنگائی کو قابو میں رکھنے کے لیے شرح سود بڑھارہے ہیں۔ لیکن اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے اس سے مہنگائی تو کم نہیں ہورہی لیکن سرمایہ کاری کم ہورہی ہے۔ ڈومیسٹک سرمایہ کاری میں بھی کمی ہے نجی سیکٹر کا لون کم ہوتا جارہا ہے اس کا حصہ کم ہورہاہے جس کی وجہ سے انڈسٹری میں کمی اور اس سے منسلک دوسرے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

ایک اور اہم فیکٹر روپے کی قدر میں کمی دوہزار تئیس میں پاکستانی روپے کی قدر میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہےجو دنیا کی کسی اور کرنسی کے ساتھ نہیں ہوا۔حتی کہ ان ملکوں کی کرنسی کے ساتھ بھی جو ڈیفالٹ کرگئے تھے۔اس بحران میں وہاں افراط زرضرور بلند سطح پر پہنچ گئی لیکن وہاں بھی کرنسی کی قدر میں اس طرح کی کمی نہیں دیکھی گئی۔ دوہزار بائیس کے آخر میں ڈالر دو سو پچیس کے قریب تھا وہ ایک موقع پر تین سو سے اوپر تک چلاگیا تھا اور اب بھی وہ اب دوسوپچاسی سے اوپر ہے۔

یہ ایک سال میں روپے کی بہت زیادہ بے قدری ہے۔دنیا کی دوسری کرنسی کا ذکرکریں تو جیسے انڈین روپیہ،چینی یوآن آسٹرلنگ پونڈ،یورو ان کو بھی ڈالر کے مقابلے میں کمی کا سامنارہا ان کی قدر میں بھی معمولی سی کمی ہوئی ہے۔لیکن پاکستانی روپے کی قدر میں جو تاریخی کمی واقع ہوئی ہے کسی بھی کرنسی کے ساتھ اتنا نہیں ہوا، اس کی وجہ سے ڈومیسٹک کرنسی میں ڈیبٹ کی جو ادائی کرنی تھی اس میں اضافہ ہوگیاجس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا 30فیصد سے زائد افراط زر کا سامنا کرنا پڑا اور اگر ڈومیسٹک ڈیبٹ کو دیکھیں جو حکومت کو قسط اور انٹرسٹ اداکرنا ہے۔

اگر آپ ایکسٹرنل ڈیبٹ کو دیکھیں تو اکتوبر دوہزار بائیس سے اکتوبرتئیس کے مقابلے میں لگ بھگ ایک بلین ڈالر کا اور روپے میں97روپے کا فرق نظرآئے گا جب کہ ڈالر میں ایک بلین کا پتا چلتا ہے ہمارے ایک بلین ڈالرکے فرق کی وجہ سے قرض کا بوجھ بھی بڑھ گیاہے۔ جب ہم اسے روپے میں دیکھتے ہیں تو وہ 17اعشاریہ چھ ٹریلین روپے تھے جوبڑھ کر 22ٹریلین ہوگیا ہے یعنی پانچ ٹریلین کا اضافہ ہوگیا ہے،ڈالر میں اگر ایک بلین بڑھے تو کرنسی کی قدر گرنے سے ہم پر پانچ ٹریلین روپے کا بوجھ بڑھ گیا ہے، روپے کی قدر گرنے سے مقامی کرنسی میں بیرونی قرض کا اضافہ ہوگیا ہے۔

اس کے نتیجے میں آپ کو زیادہ ٹیکس وصول کرنے پڑیں گے،ایف بی آر نے بیان بھی جاری کیا ہےکہ وصولی بڑھ رہی ہے۔ لیکن جہاں کساد بازار ی کا سامنا ہو افراط زر بلند سطح پر ہو اور صنعتوں میں سرمایہ کاری بھی نہ ہورہی ہو،ان حالات میں ٹیکس کا بڑھنا اچھی علامت نہیں ہوتی۔ 2023 کےستمبر میں تیسری سہ ماہی کے اختتام میں اب مثبت اشارے نظرآنا شروع ہوئے ہیں، انڈسٹری میں مثبت گروتھ آنا شروع ہوگئی ہے،اگر یہ پائیدار رہتی ہے تو مثبت ہوگا،لیکن آئی ایم ایف اور اسٹیٹ بینک کی پیشن گوئی ہے اس میں لگ بھگ دواعشاریہ پانچ جی ڈی پی گروتھ بتایاجارہا ہے،گزشتہ سال وہ منفی ہوکر صفر اعشاریہ چھ ہوگیا تھا۔ اس سے تویہ بہت بہتر ہے۔لیکن ہماری ضرورت سات فیصد کی ہے اور وہ جی ڈی پی اس سے بہت کم ہے۔

اس سال ایک اور اہم مسئلہ رہا، نگراں حکومت سیٹ اپ کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سخت اقدامات کریں گے کیوںکہ منتخب سیاسی حکومتوں کو کئی طرح کی مجبوریاں کا سامنا ہوتا ہےاس لیے وہ بعض اقدامات نہیں کرپاتے۔ نگراں حکومت بھی کوئی نیا اقدام نہیں کرسکتی۔ ایف بی آر کا دعویٰ ہے کہ ٹیکس وصولی پچھلے سال سے زیادہ ہوئی ہے،ٹیکس زیادہ جمع ہونا اہم نہیں ہے، پاکستان کا شمار دنیاکے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو بہت کم ہے لیکن دوسری طرف پاکستان دنیا کے ان پانچ ملکوں میں شامل ہے جہاں ٹیکس ریٹ سب سے زیادہ ہے، جب ٹیکس دینے والے کم ہوں لیکن ٹیکس ریٹ زیادہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکس کا نظام غیر منصفانہ ہے کچھ لوگوں پر بہت زیادہ ٹیکس ہے اور کچھ لوگ ٹیکس سرے سےنہیں دیتے۔

یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ جن لوگوں نے اس طرح کی پالیسیاں بنائیں تھیں ان کے اپنے کچھ بیرونی مفادات تھے،ان مفادات کے تحفظ کےلیے وہ بعض شعبوں اور طبقوں پر ٹیکس نہیں لگاتے۔ دو ہزار چوبیس میں الیکشن بھی قریب ہے لہذا سیاست بھی شروع ہوگئی ہے، ہرجماعت نے یہ وعدہ کیا تھا ان کے منشور کا حصہ ہوتا تھا کہ وہ جب اقتدار میں آئیں گے وہ ان ڈائریکٹ ٹیکس کو کم کریں گے اور ڈائریکٹ ٹیکس نیٹ بڑھائیں گے۔

ان ڈائریکٹ ٹیکس سے مراد مثلا جی ایس ٹی جو پٹرول، گیس بجلی غرض روزمرہ کی ہر شے میں یہ ٹیکس شامل ہے، جی ایس ٹی ٹیکس مہنگائی کا بہت بڑا سبب ہے،اس ٹیکس کا بوجھ غریبوں پر زیادہ پڑتا ہے، امیروں پر اس کا فرق نہیں پڑتا۔ کیوں کہ غریب کی آمدنی کا نوے سے سو فیصد اس کی روزمرہ کی ضروریات میں خرچ ہوجاتا ہے تو اس ریشو سے اسے اپنی آمدنی کے نوے سے سوفیصد پر اسے جی ایس ٹی ٹیکس دیناپڑتا ہے ،جب کہ امیرطبقےکے اخراجات صرف دس فیصد ہوتے ہیں اس کی نوے فیصد آمدنی بچتی ہے۔ اس لیے اسےاپنی آمدنی سے صرف دس فیصد جی ایس ٹی ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ 

بدقسمتی سے آخری بجٹ میں اس سے پہلے والی اور نگراں حکومت دونوں نے زیادہ توجہ ان ڈائریکٹ ٹیکس پر ہی رکھی ہے،بعض موقع پر آئی ایم ایف کے مطالبے سے بھی زیادہ جی ایس ٹی وصول کیا گیا ہے۔ٹیکس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے لیکن کیسے ہوا ہے ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق وہ جی ایس ٹی اور ود ہولڈنگ ٹیکس کے ذریعے ہوئی ہے،تو اس طرح سے ٹیکس کی وصولی ہونا معیشت کےلیے ٹھیک نہیں ہوتا اس طرح سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔مجموعی طور پراس سال غریبوں کی تعدا د مزیدبڑھی ہے،غربت میں اضافے کی وجہ دو ہوتی ہیں ایک بے روزگاری اور دوسرا مہنگائی۔

ایک نئی اور بری چیز دیکھنے کو مل رہی ہے اس مرتبہ منشور کے نام پر نعرے دیئے جارہے ہیں جو خطرناک بات ہے،دوہزار 23 میں ماضی کے برخلاف جو نئی چیزیں اور دعوے سامنے آئے ہیں ان میں سے کوئی کہتا تھا ایک کروڑ نوکریاں دیں گے ،پچاس لاکھ گھر دیں گے۔ اب300یونٹ مفت بجلی کے یونٹ دینے کی بات ہورہی ہے گے،کوئی کہتا ہے کہ کہیں سے بھی پیسے آئیں ہم اسے ایمسنٹی دے دیں گے اس طرح کے نعروں کو منشور کا نام دیتے ہیں یہ ایک اور خطرناک رحجان ہے، الیکشن قریب ہیں سیاسی پارٹیوں نے سلوگن کو منشورکا نام دے دیا ہے یہ بھی اس سال ہم دیکھ رہے ہیں۔

اس طرح کا رحجان دوہزار اٹھارہ سے شروع ہوا ہے۔ لوگوں کے سمجھنے کےلیے ضروری ہے کہ انہیں معلوم ہو کہ منشور کےلیے دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے پہلی بات کسی بھی جماعت کا کوئی نظریہ ہوتا ہے،لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایک دو کے علاوہ کسی کا کوئی نظریہ نہیں ہے،نظریاتی جماعت کے اگر بات کریں تو جماعت اسلامی ملک میں اسلامی نظام کی بات کرتی ہے، اے این پی بہت پرانی جماعت ہے، پاکستان پیپلزپارٹی60کے عشرے کے آخر میں قائم ہوئی تھی ایک نظریہ تھا اور اس پر انہوں نے عمل بھی کرکے دکھایا،انہوں نے روٹی کپڑامکان کا نعرہ دیاتھا تو ڈی نیشلائزیشن ان کی آئیڈیالوجی تھی انہوں نے اس پر عمل درآمدبھی کیا۔90 کے بعد جو جماعتیں سامنےآئیں ان کی آئیڈیالوجی واضح نہیں ہے اس لیے منشور تو ہوہی نہیں سکتا۔

روپے کی قدر گرنے سے مقامی کرنسی میں بیرونی قرض کا اضافہ ہوا

جسے آج لوگ منشور سمجھ رہے وہ صرف نعرے ہیں ۔ایک اور بات ہم بہت سنتے ہیں اکثر جماعتیں کہتی ہیں پی ٹی آئی نے بھی کہا تھا کہ ہم نے ملک کا نظام ٹھیک کردیا ہے اصلاحات کردی ہیں جس کے اثرات اگلے کچھ چند برس بعدنظرآئیں گے پھراس کے فوائد ملیں گے، یہ کہنا خطرناک رحجان ہے،یہ ٹھیک ہے بعض پالیسی کے اثرات لانگ ٹرم ہوتے ہیں نتائج دیر سے ملتےہیں لیکن یہ کہہ کر شارٹ ٹرم کو قربان نہیں کیاجاسکتا، آج کا نوجوان جو یونی ورسٹی کالج یا کسی انسٹی ٹیوٹ سے نکل رہا ہے اس کےلیے کیا ہے لہذا پالیسی میں یہ سب باتیں ذہن میں ہونی چاہیے۔

دو ہزار تئیس اہم سال ہے اس سال حکومت کا بدلنا نگراں حکومت کاآنا،آخری بجٹ آنا،دہشت گردی کے واقعات ،خوراک کا مہنگا ترین ہونا ،پھر عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں غیر استحکام ہونا، روس یوکرین جنگ کا اثر، فلسطین پر اسرائیل کی دہشت گردی یہ سب اس سال کے تاریخی واقعات ہیں جو اس سے پہلے نہیں ہوئے تھے۔ پاکستان میں غربت مزید بڑھی ان ڈائریکٹ ٹیکس کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے ہیں۔ اس سال اسٹاک مارکیٹ میں غیرمعمولی اضافہ دیکھاگیا،فنانس تھیوری میں کہاجاتا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کسی ملک کی معیشت کا بیرومیٹر ہے،یہ بیرو میٹر ہے لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں،اگر وہ شرائط پوری ہورہی ہیں تو ٹھیک ورنہ اسے ببل کہا جائے گا۔

پاکستان کے کیس میں اگر جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں یہاں مہنگائی بڑھ رہی ہے ،بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے انٹرسٹ ریٹ بڑھ رہا ہے۔اسٹاک مارکیٹ نے کئی مرتبہ چھلانگ لگائی تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے لیکن کمپنی کی آمدنی بڑھی تھیں ۔وہ آمدنی تو مہنگائی کی وجہ سے بڑھنی ہی تھی لیکن کمپنی نے کوئی نئے یونٹ نہیں لگائےاسٹاک مارکیٹ بیرو میٹر ہوسکتا ہے اگر وہ جی ڈی پی کی گروتھ سے ملتا ہو پاکستان کے کیس میں وہ میچ نہیں ہورہا ہے۔

ن لیگ کی طرف سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہم سرمایہ کار کوایمنسٹی دیں گے،1983 سے جب ڈاکٹر محبوب الحق آئے تھے اس کے بعد سے اب تک پانچ مرتبہ اس طرح کی اسکیم آئیں ہیں جس میں ایمنسٹی دی گئی ہیں،ن لیگ اور دیگر جماعتیں اپنے منشور میں کہہ رہی ہیں کہ ہم ملک میں سرمایہ کاری کے لیے ایمنسٹی دیں گے، پچھلی پانچوں ایمنسٹی اسکیم میں ایک بات یکساں تھی کہا جاتا ہے کہ اس کا فائدہ عوام اور ملک کو ہوگا، لیکن اس کی مد میں آئے پیسے کسی اور جگہ تو استعمال ہوئے لیکن اس آمدنی سے ملک میں صنعتیں نہیں لگیں، یا تو وہ پیسے قرض اتارنے میں استعمال ہوئے یا بیورکریٹک کرپشن کے نظر ہوئے یا بجٹ خسارہ پورا کرنے کےلیے استعمال ہوئے، تو اگر اس طرح کی اسکیم آتی ہیں تو یہ خیال رکھنا پڑے گا آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی جو شرائط ہیں اس کی خلاف ورزی نہ ہو،ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے عوام کو واقعی فائدہ پہنچانا ہےتو دوہزار پندرہ اور سولہ یہ دوسال تھے حکومت کے کہنے پر ایس پی سی سی آئی نے ایک ایمنسٹی اسکیم تیار کی تھی میں اس کا حصہ تھا۔

ایمنسٹی سے اس طرح سے نہ ہو کہ ہر ایک کو دے دی جائےاس پر مشتمل چند سفارشات تیار کی تھیں، اس میں چار باتیں رکھیں ہم نے کہا تھا صرف ان کو ایمنسٹی دی جائے گی ان سے ان کا سورس نہیں پوچھا جائے گا جو چار میں سے ایک شرط پوری کریں گے۔ پہلا، ان پیسوں سے کوئی انڈسٹری لگےاور گارنٹی دی جائے کہ وہاں کم ازکم دوسوپچاس لوگوں کو روزگار دیا جائے گا،دوسرا، وہ سرمایہ کار جو کسی نالج دینے والے جیسے میڈیسن ،ہیلتھ آئی ٹی ،اسپتال کی کنسٹرکشن میں یا ایسی پیداوار جو سوفیصد ایکسپورٹ ہوتی ہو ایسے کاروبار میں سرمایہ کاری کرے ان کو دی جائے، نمبر تین، وہ سرمایہ کار جو پسماندہ علاقوں میں انڈسٹری لگائے،نمبرچار سی پیک کے تحت نو زون بنائے جارہے ہیں ان میں آٹھ میں یہ پاکستان سرمایہ کاری کریں،ان چار کے علاوہ کسی اور کو ایمنسٹی نہ دی جائے۔تو اگر کوئی جماعت ایمنسٹی اپنے منشور میں رکھ رہی ہے تواسے اس کےلیے پہلے کچھ پیرامیٹرز طے کرنے چاہیں۔