سالِ گزشتہ کا آغاز ہوا توملک کے اقتصادی حالات بہت دگر گوں تھے۔ لیکن جب یہ اختتام کو پہنچا تو حالات میں کچھ بہتری کے اشارے ملنا شروع ہوئے۔یوں بدحال عوام کواُمّید کی موہوم سی کرِن نظر آنا شروع ہوئی۔ تسلسل سے اچھی خبریںملنے کا زور آخری دوماہ میں زیادہ رہا۔
اسی دوران دسمبر 2024کے دوسرے ہفتے میں ایشیائی ترقیاتی بینک نےنہ صرف پاکستان کی معیشت میں نمایاں بہتری کا اعتراف کیا، بلکہ اُس نے رواں مالی سال میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کی رفتارتین فی صد تک پہنچنے کی پیش گوئی بھی کردی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی)نے ایشیا ڈیولپمنٹ آوٴٹ لْک رپورٹ جاری کی تو ستمبر2024میں شرح نمو کا تخمینہ 3.6فی صد کےہدف کے مقابلے میں 2.8فی صدلگایا گیا تھا۔
اس رپورٹ کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے نئے قرض پروگرام کی منظوری کے بعد پاکستان میں میکرو اکنامک استحکام آیا، منہگائی میں توقع سے زیادہ تیزی سے کمی آئی اور نومبر میں یہ ساڑھے چھ سال کی کم ترین سطح پر یعنی،4.9فی صد پر آگئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں منہگائی کی شرح 15 کے بجائے 10 فی صد رہنے کا تخمینہ ہے۔
اے ڈی بی کی رپورٹ کے مطابق درآمدی پابندیاں ختم ہونے سے صنعتی شعبہ رفتار پکڑے گا، پالیسی ریٹ میں کمی سے معاشی سرگرمیوں میں بھی تیزی آنی چاہیے، سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا اور زرمبادلہ کے ذخائر تک رسائی آسان ہوگی۔
شدید مون سون کی بارشوں سے زرعی شعبے کی پیداوار کم زور رہے گی اور دو بڑی فصلوں، گندم اور کپاس کی پیداوار کم رہنے کا خدشہ ہے۔ علاوہ ازیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت، بنگلا دیش اور مالدیپ کی شرح نمو میں کمی آئے گی اور امریکی پالیسیوں میں تبدیلی سے ایشیا کا خطہ متاثر ہو سکتا ہے۔
حکومت کے دعوے اور حقیقت
لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان آج بھی اقتصادی طورپر بہت تنی ہوئی رسّی پر چل رہا ہے اوربہتری کی اس تصویرکے رنگ بہت ناپختہ ہیں۔ معیشت میں کچھ بہتری کے اشارے ملنے کی بات تو کئی ماہ قبل آئی ایم ایف کے عہدے دار بھی کر رہے تھے۔ حکومت کی جانب سے عوام کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ اس کی کوششوں کی وجہ سے منہگائی کم ہو گئی ہے۔ لیکن اس میں کچھ کردار عالمی منڈی کا بھی ہے، جہاں خوراک کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، تیل کی قیمت میں بھی کمی ہوئی تھی۔
یہ درست ہے کہ ہمارے زراعت کے شعبے نے اس سال اچھی کارکردگی دکھائی۔ ادہر اسٹاک ایکسچینج نےنئی بلندیوں کو چھوا۔سترہ دسمبر کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شرح سود میں مزید کمی کی خبروں کے باعث سرمایہ کاروں میں زبردست جوش و خروش دیکھنے کو ملا، بازارِ حصص میں تاریخی تیزی آئی، نیا ریکارڈ قائم ہوا اورکے ایس ای100انڈیکس میں 1868 پوائنٹس کا اضافہ ہوا اور یہ ایک لاکھ 16 ہزار169پوائنٹس پر بند ہوا ۔ اُس روز 51.57فی صد کمپنیز کے حصص کی قیمتیں بڑھیں، سرمایہ کاری کی مالیت 224 ارب ایک کروڑ43لاکھ روپے تک جاپہنچی اور کاروباری حجم بھی 35 کروڑ 20 لاکھ 91 ہزار شیئرز زیادہ رہا۔
اس پیش رفت نے ہر جانب ڈنکا بجا دیا کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے، لیکن بے روزگاروں، فاقہ کشوں، بجلی کے ہوش رُبا نرخ سے زخمی دلوں، گیس کے بے رحم بلز سے بلبلاتے ہوئے غریبوں کے لیے یہ خبریں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔منہگائی سنگل ڈیجٹ پر آگئی بالکل درست، لیکن غریب اسے نہیں مانتا۔ وہ کہتا ہے کہ بازار جاؤ تو چند اشیا خرید کر ہی جیب خالی ہو جاتی ہے۔
تجارتی خسارہ اور چیلنج
بہ ہرحال حکومت نے کہا ہے کہ نومبر2024میں نومبر 2023 کے مقابلے میں تجارتی خسارے میں 18.60 فی صد کمی ہوئی ہے۔ اگر جولائی تا نومبر 2024 کا مقابلہ جولائی تا نومبر 2023 سے کریں تو بھی تجارتی خسارے میں 7.39فی صد کی کمی تو ہوئی ہے۔لیکن اصل چیلنج اسے برقرار رکھنے کا ہے۔
جب تک تجارتی خسارہ25تا30فی صد کم نہیں ہوتا اس وقت تک شاید معیشت حقیقی بہتری کی طرف نہ جائے۔ ہاں دعوے کیے جاسکتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے زرمبادلہ کی آمد تیزی سے بڑھائی جا سکتی ہے۔
امپورٹ بل جوپانچ ماہ میں چارفی صد بڑھاہے، اب اسے فوراً کنٹرول کرنا چاہیے، کیوں کہ جولائی تا نومبر 2024کل درآمدات کا حجم 22ارب 34 کروڑ ڈالرز تھا۔ اس کے مقابلے میں گزشتہ مالی سال میں جولائی تا نومبر 2023 کے دوران یہ 21ارب50کروڑ ڈالرز تک تھا۔
اس لیے اگر درآمدات کابہ نظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو بہت سی اشیا ایسی نظر آرہی ہیں جن میں سے بعض پر حکومت نے گزشتہ مالی سال میں کچھ پابندیاں لگائی تھیں۔ درآمدات میں عام اور پُر تعیّش گاڑیاں، موبائل فونز اورکئی دیگر اشیا بھی شامل ہیں۔
البتہ اشیائے خورونوش میں سے کئی ایک ایسی ہیں جن پر ٹیکس کم کرنے کی ضرورت ہے،مثلا ، کوکنگ آئل، خشک میوہ جات،بعض سبزیاں اور کچھ پھل جو درآمد کیے جاتے ہیں۔ خاص طور پر چائے کی پتی کو کچھ سستا کر دیا جائے تاکہ غریب آدمی سستی چائے پی کر کہہ سکے کہ ہاں منہگائی کچھ کم ہوگئی ہے۔
مثبت اشارے
دسمبر کے دوسرے ہفتے میں کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس سروے نے اپنی چوتھی سہ ماہی رپورٹ جاری کی جس میں بتایاگیا کہ پاکستان کی معیشت میں گزشتہ سال کے دوران قابل ذکر بہتری آئی ہے اور پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بہ دستور تیزی کا رجحان ہے، معیشت استحکام کی جانب گام زن ہے اور 2024 میں منہگائی ساڑھے تین سال کی کم ترین سطح پر آگئی۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چوتھی سہ ماہی کے سروے کےنتائج میں کئی اقتصادی ریکارڈز بھی قائم ہوئے اورچوتھی سہ ماہی میں پاکستان میں مزید اقتصادی بہتری کا امکان ہے۔
ستمبر 2023 کے بعد اقتصادی حالت مستحکم قرار دینے والے عوام کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق معیشت کے حوالے سے 19فی صد افراد اگلے 6ماہ میں بہتری کی توقع رکھتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے پہلی بار ترکیہ کو صارفین کے اعتماد کے عالمی انڈیکس میں پیچھے چھوڑا۔
سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ملازمت کے تحفظ پر اعتماد میں مسلسل استحکام دیکھنے کو مل رہا ہے، پاکستانیوں کی گھریلو خریداری کی صلاحیت میں6پوائنٹس کی بہتری آئی ہے، ملکی اقتصادی حالات پر پاکستانیوں کا اعتماد20فی صد بڑھا ہے اور عدم اعتماد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ یاد رہےکہ اپسوس گلوبل کنزیومرکا نفیڈنس انڈیکس ایک اہم سروے ہےجو صارفین کے معاشی حالات اور سرمایہ کاری کی صلاحیت کو اجاگر کرتا ہے۔
شرح سود میں کمی اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ
اسی دوران نسبتا زیادہ ٹھوس خبر یہ آئی کہ اسٹیٹ بینک نے مسلسل پانچویں مرتبہ شرحِ سود میں کمی کردی ہے۔ یوں مزید 200 بیسس پوائنٹس کی کمی کے بعد شرح سود15سے کم ہوکر 13فی صد ہوگئی۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق منہگائی نومبر میں گھٹ کر 4.9فی صد ہوگئی، جاری کھاتہ اکتوبر میں مسلسل تیسری بار فاضل رہا، جاری کھاتہ فاضل رہنے سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 12ارب ڈالرزتک پہنچ گئےاور اس میں اضافہ جاری ہے، ترقی کی شرح میں بھی تیزی ریکارڈ کی گئی اور نومبر 2024ءتک بینکوں کے نجی شعبے کو قرضوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تاہم مرکزی بینک کا کہنا تھا کہ سالانہ مالیاتی اہداف حاصل کرنے کے لیے اضافی اقدامات اٹھانا ہوں گے، جی ڈی پی کی نمو ڈھائی سے ساڑھے تین فی صد رہنے کا امکان ہے اور ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں اضافے کا رجحان برقرار رہنے کی توقع ہے۔
مرکزی بینک کے اعلامیے کے مطابق بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی ( ایم پی سی) کی توقعات کے مطابق نومبر 2024ء میں عمومی منہگائی کم ہو کر 4.9 فی صد سال بہ سال ہوگئی۔ اس کمی کی بڑی وجہ غذائی منہگائی مسلسل کم ہونا، نیز نومبر 2023ء میں گیس کے نرخوں میں اضافے کے اثرات کابہ تدریج ختم ہونا تھا۔ کمیٹی نے نوٹ کیا کہ قوزی گرانی (core inflation) جو 9.7 فی صد پر ہے ، اٹل (sticky) ثابت ہورہی ہے، تاہم صارفین اور کاروباری اداروں کی منہگائی سے متعلق توقعات تغیر پذیر ہیں۔
اکتوبر 2024ء میں جاری کھاتہ مسلسل تیسرے مہینے فاضل رہا جس سےکم زور آمدِ رقوم اور سرکاری قرضوں کی بھاری واپسی کے باوجوداسٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑھا کرلگ بھگ 12 ارب ڈالرز تک لانے میں مدد ملی۔ اجناس کی عالمی قیمتیں بالعموم سازگار رہیں جن کے ملکی منہگائی اور درآمدی بل پر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔
مرکزی بینک کے مطابق نجی شعبے کو قرض میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا، ٹیکس محاصل کا ہدف کے مقابلے میں فرق بڑھ گیا، صنعتی شعبے کی سرگرمی کی رفتار بھی مزید بڑھ رہی ہے، بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) کے ٹیکسٹائل، غذا، گاڑیوں، پیٹرولیم مصنوعات اور تمباکو جیسے اہم شعبے پہلے ہی مالی سال 25ء کی پہلی سہ ماہی تک مستحکم نمو کے عکاس تھے۔
مزید برآں، سیمنٹ، گاڑیوں، کھاد اور پیٹرولیم مصنوعات کی ملکی فروخت جیسے بلند فریکوینسی کے تازہ ترین اظہاریوں سے پتا چلتا ہے کہ صنعتی سرگرمی کی اس رفتار کا تسلسل جاری ہے۔ اجناس کے پیداواری شعبوں کے اِن بہتر امکانات اور منہگائی میں کمی کے اثرات سے خدمات کے شعبے کوبھی مدد ملےگی۔ آگے چل کرکاروباری اعتماد میں بہتری اور مالی حالات سازگار ہونے سے اقتصادی نمو کو تقویت ملنے کی توقع ہے۔
روپے کی قدر اور زرِ مبادلہ کے ذخائر
2024 میں زرمبادلہ کے ذخائر اور ڈالر کے مقابلےمیں روپے کی قدر میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ زرِمبادلہ کےمجموعی ذخائر میں تین ارب پچانوے کروڑ نوے لاکھ ڈالرزکا اضافہ ہوا اور ایک برس میں ڈالر کے مقابلے روپےکی قدر تین روپے سے زائدبڑھ گئی۔
چوبیس دسمبر تک اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں 2024 میں3 ارب 84 کروڑ 81 لاکھ ڈالرز اور کمرشل بینکوں کے ذخائر میں 11 کروڑ14 لاکھ ڈالرز کا اضافہ ہوا جس کے بعد زرمبادلہ کےمجموعی ذخائر 16ارب 63 کروڑ 27لاکھ ڈالرز پر پہنچ گئے تھے جس میں اسٹیٹ بینک کے پاس 12 ارب 8 کروڑ 15لاکھ ڈالرز اور کمرشل بینکوں کےپاس 4 ارب 55 کروڑ12لاکھ ڈالرز کے ذخائر تھے۔
منہگائی میں کمی کے دعوے، مگر عوام ثمرات سے محروم
رواں برس منہگائی تاریخ کی بلند ترین شرح کو چھو کر ساڑھے چھ سال کی کم ترین سطح پر آگئی، لیکن اس کمی کے ثمرات عوام تک نہ پہنچ سکے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سال کا آغاز ہوا تو منہگائی کی سالانہ شرح 28.3 فی صد اور ہفتہ وار شرح 44.6فی صد تھی۔
سال کے دوران منہگائی بڑھنے کی شرح ہر آنے والے ہفتے اورمہینے کےساتھ کم ہوتی رہی۔ وزراء منہگائی میں کمی کے دعوے تو کرتے رہے، لیکن بازاروں میں اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں کمی نہ ہوسکی۔ ادارہ شماریات بھی حکومت کے دعوؤں کو کو محض آگے بڑھاتا رہا۔ تاہم عوام کو منہگائی میں کمی کے ثمرات کم ہی ملے۔
مشکل ترین سال
دوسری جانب پاکستان بزنس فورم نے 2024کو بزنس کمیونٹی اور عوام کے لئے مشکل ترین سال قرار دیا اوروفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب سے 2025 کے لیے واضح اور قابل عمل اقتصادی روڈ میپ کے اعلان کی اپیل کی۔ دسمبر میں لکھے گئے خط میں پاکستان بزنس فورم نےکہا کہ بجلی کےبلز اور شرح سود نے تاجر برادری کواپنی گرفت میں لیے رکھا۔ پاکستان کاروبار دوست ملک نہیں رہا، لہٰذا سب کو مل کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
فورم نے خط میں کہا کہ آئی ایم ایف کے ایک اور پروگرام کے باوجود روپیہ مستحکم ہونے میں ناکام رہا، حکومت روپے کو مستحکم کرنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات اٹھائے۔ روپے کے استحکام کے بغیر مالی دباؤ کم کرنے کی کوششیں بے اثر رہیں گی۔ فورم کا کہنا ہے کہ 2024میں زرعی محاذ پربھی کسانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑااوربہت سے لوگ اپنی پیداواری لاگت وصول کرنےسے بھی قاصر رہے۔
ترسیلاتِ زر اور قرضے
نو دسمبر کو یہ خبر آئی کہ جولائی تا نومبر ترسیلاتِ زر کا حجم 14.8 ارب ڈالرز رہا، نومبر میں تارکین وطن نے 2.9 ارب ڈالرز بھیجے۔ یہ خجم گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کی نسبت 33.6 فی صد زیادہ تھا۔
اس سے قبل آٹھ دسمبر کو کراچی میں اوور سیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( او آئی سی سی آئی ) میں ذرایع ابلاغ کے نمائندوں بات چیت اور چیمبر کے اراکین سےخطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ و محصولات، محمد اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں ترسیلات زر کا حجم 35ارب ڈالرز کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کا امکان ہے، مہنگائی میں کمی آرہی ہے، لیکن عوام کو اس کا فائدہ نہیں پہنچ رہا۔
سال2024 میں بھی وفاقی حکومت کا قرضوں پر انحصار برقرار رہا۔ مرکزی حکومت کے قرضوں میں اس سال مجموعی طور پرتین ہزارنوسو انیس ارب روپےکا اضافہ ہوا۔ وفاقی حکومت کے مقامی قرضوں میں اضافہ ہوا اور غیر ملکی قرضہ کم ہوا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دستاویز کے مطابق 2024 میں وفاقی حکومت کےمقامی قرضوں میں 4 ہزار 632 ارب روپے کا اضافہ ہوا تاہم مرکزی حکومت کےغیر ملکی قرضوں میں710ارب روپے کی کمی بھی ہوئی-
سرکاری اداروں اور سیاسی عدم استحکام کے نقصانات
آٹھ دسمبر کوکراچی میں وفاقی وزیر خزانہ و محصولات، محمد اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ تین صوبے زرعی ٹیکس پر رضا مند ہیں، سندھ سے بات کرنے جارہے ہیں، اقتصادی ترقی کے لیےسیاسی استحکام اہم ہے، سرکاری ملکیتی ادارے (ایس او ایز) یومیہ 2.2ارب روپے کا نقصان کررہے ہیں، سیلز ٹیکس کی چوری سے بزنس ماڈل نہیں چل سکتا۔ عالمی مارکیٹ میں دالوں، اجناس اور پولٹری اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں کمی آرہی ہے، لیکن پاکستان میں قیمت کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دھرنوں اور ریلیوں سے یومیہ ایک سو نوے ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ملک میں مشکل صورت حال کے باوجود اس وقت بیرونی سرمایہ کاری آرہی ہے، محاصل کےپرانے نظام کے ساتھ اب مزید نہیں چل سکتے، ہمیں ٹیکس نیٹ ہر صورت میں بڑھانا ہوگا، ٹیکس چوری روکنے کیلئے ڈیجیٹیلائزیشن سسٹم لا رہے ہیں۔ ریاستی ملکیتی اداروں نے 10سال میں 60 کھرب کا نقصان کیا، معیشت کے لیےسیاسی استحکام ضروری ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری
مرکزی بینک نے سترہ دسمبر کو بتایا کہ رواں مالی سال کےپانچ ماہ میں ملک میں1.27ارب ڈالرز کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی اور نومبرمیں اسٹاک مارکیٹ سے 5.91کروڑ ڈالرکی بیرونی سرمایہ کاری کا اخراج ہوا۔ مالی سال 24 کے ابتدائی 5 ماہ میں براہ راست سرمایہ کاری 31 فی صد اضافے سے 1.12 ارب ڈالر رہی۔
دسمبر کے اواخر میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا تھاکہ 2024 میں ملک میں ہونی والی بیرونی سرمایہ کاری میں11.58فی صداضافہ ہوا۔ مرکزی بینک کے اعلامیے کے مطابق جنوری سے نومبر2024کے دوران بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 2.05 ارب ڈالر رہا جو سال 2023 کے ابتدائی 11 مہینوں میں 1.84 ارب ڈالرز تھا۔
کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ، درآمدات و برآمدات
پاکستان کاکرنٹ اکاؤنٹ نومبر میں 72کروڑ ڈالرز رہا۔ اکتوبر کے مقابلے میں نومبر کی درآمدات دس فی صد، برآمدات پانچ فی صداور بیرون میک پاکستانیوں کی ترسیلات پانچ فی صدکم رہیں۔ لیکن کرنٹ اکاؤنٹ کھاتہ 111 فی صد فاضل رہا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان سات دسمبر کے اعدادو شمار کے مطابق نومبر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس فروری 2015ء کے بعد بلند ترین تھا۔ مالی سال کے ابتدائی پانچ مہینوں میں کرنٹ اکاؤنٹ کھاتہ 94 کروڑ ڈالرز سرپلس رہا۔ یادرہے کہ گزشتہ مالی سال کے ابتدائی پانچ مہینوں میں ایک ارب 67 کروڑ ڈالرز کا خسارہ تھا۔
رواں مالی سال میں جولائی تانومبر ملکی برآمدات 12 ارب 36 کروڑ اور درآمدات 21 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز رہیں۔ پانچ مہینوں میں ملکی تجارتی خسارہ 9 ارب 68 کروڑ ڈالر زرہا جو گزشتہ مالی سال کے ابتدائی پانچ مہینوں سے 10فی صد زائد رہا۔
مرکزی بینک کے اعداد وشمار کے مطابق تجارت، خدمات اور آمدن کا خسارہ رواں مالی سال کے ابتدائی پانچ مہینوں میں ساڑھے 14 فی صدبڑھ کر 14 ارب 55 کروڑ ڈالرز رہا۔
یوں مالی سال 2023۔24کے دوران پاکستان کی برآمدات 10.54فی صد اضافے کے بعد30ارب 64 کروڑ ڈالرز تک پہنچیں جن کا حجم گزشتہ برس 27 ارب 72 کروڑ ڈالر زتھا۔
تلخ اقتصادی حقائق
گزشتہ برس جولائی کے پہلے ہفتے میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو سات ارب ڈالرزکا قرض پروگرام دینے کی منظوری دی تھی ۔قرض کی رقم آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کی منظوری اور پاکستان کی جانب سے کرائی گئی یقین دہانیوں پر عمل درآمد سے مشروط رکھی گئی تھی۔
اقتصادی ماہرین اور اہم کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ ٹیکس، منہگی بجلی، سیاسی عدم استحکام ہمارے بڑے اقتصادی مسائل ہیں۔ ہم نے ریاست چلانے کا سارا بوجھ تن خواہ دار طبقےپرڈال دیا ہے، اسے زرعی ٹیکس کے ذریعےریلیف دیناچاہیے۔ ہمیں میثاقِ معیشت کی ضرورت ہے۔
زرعی ٹیکس کے ذریعے1200ارب روپے جمع ہو سکتے ہیں۔ برآمدات سے زیادہ ترسیلاتِ زر میں ترقی ہوئی ہے۔دوسری جانب رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران 4279ارب60کروڑ روپے کے محاصل جمع ہوسکے حالاں کہ ہدف 4636 ارب روپے تھا۔ یوں ایف بی آر کو 356 ارب 40کروڑ روپے کے شارٹ فال کا سامنا رہا۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی ترقی کے لیے توانائی کے نرخ، شرحِ سود اورمحاصل میں کمی ضروری ہے۔ یہ تین اقدامات اٹھائے بغیر ہماری برآمدی صنعت دیگر ملکوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ بات ذہن نشین کرنا ہوگی کہ اگر ملک کو ترقی کرنا ہے تو ہمیں آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نکل کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا اور اپنی آمدن پر گزارہ کرنا ہوگا۔ خسارے میں رہتے ہوئے قرضے لیتے رہنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا۔ بیرونِ ملک سے سرمایہ تب آتا ہے جب ملک میں امن وامان کی صورت حال اچھی ہوتی ہے۔ آئی ٹی کے شعبے میں بہت مواقع ہیں۔
حکومت کا اصل مسئلہ آمدن اور اخراجات میں در آنے والا بہت بڑا فرق ہے۔ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دوفی صدہے۔ ہمیں فوڈ سکیورٹی، بچوں کی نشوونما، اسکول سے باہربچوں کے چیلنجز درپیش ہیں۔
گزشتہ مالی سال میں معیشت 0.21 فی صد سکڑ گئی تھی، جو زرعی شعبے میں بہتری کی وجہ سے بحال ہوئی ہے۔ عالمی بینک کے تخمینے کے مطابق غربت کی شرح 40فی صد ہے اور مزیدایک کروڑ افراد غربت کی لکیر سےنیچے جاسکتے ہیں۔ وقتی میکرو اکنامک استحکام کافی نہیں ہے۔
اس کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف کے دیے گئے پروگرام پر من و عن عمل درآمد کرنا ہو گا،بجٹ خسارہ مزید کم کرنا ہو گا۔ برآمدات بڑھانے پر توجہ دینا ہو گی اور بجٹ میں محاصل کے اہداف کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہو گی۔خیال رہے کہ اس بار حکومت نے بجٹ میں 12 ہزار 970 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا بڑا ہدف رکھا ہے جو تقریباً 46 ارب ڈالر زکی رقم بنتی ہے۔ یہ گزشتہ سال جمع کیے گئے محاصل سے 40 فی صد زیادہ ہے۔
ماہرین کا مزید کہناہے کہ حکومت کو اپنے مالی خساروں پر قابو پانے کے لیے توانائی کےشعبے میں اصلاحات متعارف کرانا ہوں گی کیوں کہ یہ شعبہ اکیلے ہی 2600 ارب روپے کے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ اسی طرح گیس کے شعبے میں دو ہزار 800 ارب روپے کے نقصانات اور سرکاری کاروباری اداروں کے 700 ارب روپے سالانہ کے نقصانات الگ ہیں۔
گزشتہ برس جنوری تک صرف بجلی کے شعبے میں 2 ہزار 635 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ ہوچکا تھا اور اس میں ماہانہ اضافہ 66 ارب روپے سے زائد کا نوٹ کیا جا رہاتھا۔یہ رقم پاکستان کے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے جو رواں مالی سال کے لیے دو ہزار 120 ارب روپے رکھا گیا ہے۔اس کے بعد ڈسٹری بیوشن میں650 ارب روپے کا نقصان بھی بجلی کے نرخ میں شامل ہوتا ہے۔
زرعی شعبے، رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ملک میں کاروباری ماحول ناپید ہے،بُری طرزِ حکم رانی ،اقتصادی ترقی اور سرمایہ کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سیاسی حکومتوں کاعدم استحکام اور ملک میں جاری بے چینی اقتصادی جمود کی ایک بڑی وجہ ہے۔
بعض مبصرین حصص بازار میں تیزی کو معاشی ترقی کا پیمانہ ماننے سے گریز کرتے نظر آتے ہیں اور اسے حقیقی معیشت سے جدا سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی اچھی ہے یا بُری، اگر حقیقی معیشت بحال نہیں کی گئی تو اس کا کوئی مطلب نہیں۔
وہ اس ضمن میں بیس دسمبرکی مثال دیتے ہیں جب حصص بازارمیں سترہ دسمبر کے عروج کے بعد بڑے پیمانے پر سرمائے کا انخلا ہوا، مندی کا نیا ریکارڈقائم ہوا اور 4795 پوائنٹس کی کمی آئی۔تاہم حکومت سترہ دسمبر کےواقعے کو معیشت میں بڑھتے ہوئے استحکام سے تعبیر کر رہی ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سرمایہ کاروں کا بڑھتا ہوا اعتماد ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی اقتصادی حکمتِ عملی ٹھیک سمت میں ہیں۔
پاکستان کئی دہائیوں سے مسلسل گہرے مالیاتی بحران کا سامنا کر رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جب تک نظام کی اصلاح نہیں ہو جاتی تب تک یہ عمل جاری رہے گا۔ ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب پاکستان کو منہگائی کا مقابلہ کرنے، طرزِ حکم رانی بہتر بنانے، معیاری عوامی خدمات فراہم کرنے، یا انسانی وسائل کو بہتر بنانے کے قابل نہیں بناتا ہے ۔
اقتصادی اشاریے، تیزی کے مختصر وقفوں کے بعد، ٹوٹ پھوٹ کی واضح علامات ظاہر کرنا شروع کر دیتے ہیں، پالیسیز میں بنیادی خامیوں کی وجہ سے جہاں ترقی کو بنیادی طور پر درآمد پر مبنی اِن پُٹس کی مدد حاصل ہوتی ہے وہ حاصل نہیں ہو پاتی ہے۔ مقامی اقتصادی پیداوار اور کھپت مشکل وقت میں برداشت پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔