فرانسیسی طبیب برنیر1909(Bernier)ء سے 1666ء تک ہندوستان میں مقیم رہا۔ اسے بحیثیت شاہی طبیب عالمگیر کے دربار میں بھی رسائی حاصل رہی۔ اپنے سفرنامہ میں اس نے اورنگ زیب عالمگیر کی ایک گفتگو نقل کی ہے جو اس عظیم المرتبت حکمراں نے اپنے بچپن کے ایک استاد کے گوش گزار کی۔ یہ گفتگو نہ صرف مغل شہزادوں کی تعلیم پر روشنی ڈالتی ہے بلکہ تعلیم کے حوالے سے اورنگ زیب کے خیالات کا خاکہ بھی پیش کرتی ہے۔
برنیر کے بقول اورنگ زیب کے اس استاد کا نام ملا صالح تھا۔ بعض اہل ِ تحقیق کے نزدیک یہ ساری گفتگو برنیر کے اپنے نہاں خانہ ٔ دماغ کی تخلیق ہے۔ حقیقت کچھ بھی ہو۔ اس گفتگو میں اورنگ زیب کی طرف سے جو اعتراضات اٹھائے گئے ،وہ وزنی بھی ہیں اور مبنی بر صداقت بھی معلوم ہوتے ہیں۔ اورنگ زیب کی تخت نشینی کے بعد ، ملا صالح کسی انعام و اکرام کی امید میں دربار شاہی تک رسائی کی کوشش کرتا۔ ایک دن اورنگ زیب اسے تخلیہ میں طلب کرکے یوں مخاطب ہوتا ہے:
’’محترم استاد، فرمائیے آپ کو کس خواہش کی طلب مجھ تک لے آئی ہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو مملکت کے اعلیٰ ترین اعزازات سے سرفراز کروں؟ استادِ محترم، ہم کسی بھی امتیاز کے لئے آپ کے حق کا جائزہ لیں۔ میں سجھتا ہوں کہ مجھ پر آپ کا یہ حق ضرور ہوتا اگر آپ مجھے کوئی ڈھنگ کی تعلیم دیتے۔ لیکن آپ نے مجھے کیا تعلیم دی؟ کیا آپ کا یہ فرض نہ تھا کہ آپ مجھے تمام اقوام کی امتیازی خصوصیات سے آگاہ کرتے۔
یہ بتاتے کہ اُن کے وسائل کیا ہیں۔ ان کی قوت کتنی ہے، اُن کا طریقہ حرب کیا ہے، اُن کے رسوم و رواج کیا ہیں، مذہب اور طرز حکومت کیا ہے اور یہ کہ ان کے بنیادی مفادات کیا ہیں۔ آپ کو چاہئے تھا کہ تاریخ کی باقاعدہ تعلیم دے کر مجھے ریاستوں کے آغاز، ان کی ترقی اور تنزلی سے آگاہ کرتے، ان کوتاہیوں ،واقعات و حادثات سے پردہ اٹھاتے جن سے تاریخ میں بڑی تبدیلیاں اور انقلابات آئے۔ گردوپیش میں آباد اقوام کی زبانوں سے واقفیت ایک حکمران کے لئے کتنی ضروری ہوتی ہے۔ لیکن آپ مجھے صرف عربی لکھنا اور پڑھنا سکھاتے رہے۔
آپ یہ بھول گئے کہ ایک شاہزادے کی تعلیم کے لئے کون سے مضامین پڑھانے چاہئیں۔ آپ کے خیال میں اسے محض صرف و نحو کی مہارت چاہئے۔ وہ علم حاصل کرنا چاہئے جس کی ضرورت اس فقیہہ کو ہوتی ہے۔ اس طرح استاد محترم آپ نے میرے لڑکپن کا قیمتی وقت لفظوں کو سیکھنے اور ان کی گردانوں کو یاد کرنے کی خشک، بے فائدہ اور لامتناہی کوششوں میں ضائع کر دیا۔ کیا آپ یہ بات نہ جانتے تھے کہ بچپن میں دماغ کی اکتسابی قوت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ دانائی کے ہزاروں رموز کو بآسانی قبول کر لیتا ہے اور اسے ایسی مفید تعلیم سے آراستہ کیا جا سکتا ہے جو کسی بھی فرد کو کارہائے نمایاں انجام دینے کی صلاحیت دیتی ہے۔
کیا ہم علوم زمانہ کی تعلیم صرف عربی کے ذریعے ہی حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا یہ معلومات اتنی ہی آسانی سے ہماری مادری زبان میں ہم تک نہیں پہنچائی جا سکتیں؟ اگر آپ مجھے وہ علم سکھاتے جو دماغ کو عقل و شعور سے آراستہ کرتا ہے اور اسے صحیح و وزنی استدلال کو قبول کرنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے یا آپ مجھے وہ باتیں بتاتے جن سے نفس کی تطہیر ہوتی ہے اور طمانیت قلب میسر آتی ہے،جس سے انسان کو ایسی قوت ملتی ہے کہ نہ تو مصائب اور تقریر کے کھیل اسے پریشان کرتے ہیں اور نہ خوشیاں اور کامیابیاں اس کا دماغ خراب کرتی ہیں۔
میرا خیال ہے کہ اگر آپ مجھے یہ سب پڑھا دیتے تو مجھ پر آپ کے احسانات سکندر اعظم پر ارسطو کے احسانات سے زیادہ ہوتے اور میں اسے اپنا فرض جانتا کہ آپ کو وہ امتیاز عطا کروں جو سکندر نے ارسطو کو بھی نہ دیا تھا۔ بتائیے کیا آپ کا یہ فرض نہ تھا کہ مجھے یہی بنیادی نکتہ سمجھا دیتے جو کسی بھی حکمران کے لئے جاننا ضروری ہے یعنی اُس کے اور اس کی رعیت کے مابین حقوق و فرائض کیا ہوتے ہیں۔
آپ کو چاہئے تھا کہ دُوربینی سے کام لیتے ہوئے سوچتے کہ مستقبل میں کسی وقت تخت کے لئے میں اپنے بھائیوں کے خلاف شمشیر بدست نبردآزما ہوں گا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان کے ہر بادشاہ کے بچوں کی یہی تقدیر رہی ہے۔ کیا آپ نے مجھے کبھی فنِ حرب کی تعلیم دی کہ، کسی بستی کا محاصرہ کیسے کیا جاتا ہے یا میدان میں فوجوں کی صف بندی کیسے کرتے ہیں۔ میری خوش قسمتی تھی کہ یہ موضوعات سکھانے کیلئے مجھے آپ سے زیادہ دانا لوگ مل گئے۔ جائیے استاد محترم اپنے وطن تشریف لے جائیے اور آج کے بعد کسی کو بھی پتہ نہ چلے کہ آپ کیا کرتے ہیں کہاں رہتے ہیں۔‘‘
(ماخوذ: ’’اورنگ زیب از لین پول اور مسلمانوں کی تعلیمی تاریخ‘‘ازحامی الدین بحوالہ سفر نامہ برنیر)