• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارم فاطمہ

ہمارے ملک میں دو طبقاتی نظام نے جہاں زندگی کے مختلف شعبوں کو متاثر کیا ہے وہیں ہماری تہذیب، معاشرت ، سماجی رویے بھی بدل رہے ہیں۔ یوں دو مختلف طرز زندگی رکھنے والے لوگوں میں فاصلے پیدا ہورہے ہیں۔ ایک طبقہ خود غرضیوں کی انتہا پر ہے، جنہیں زندگی کی سب ہی سہولیات میسر ہیں وہ اپنے آپ میں مگن ہیں۔ دوسرا نادار طبقہ حالات کی چکی میں پس رہا ہے نہ صرف یہ بلکہ اس نظام سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ ’ تعلیم کا ہے۔

سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کا اپنا اپنا نظام ہے ،جس کا فرق واضح نظر آتا ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے جدید نصاب کو متعارف کروایا جو عالمی نصاب سے ہم آہنگ ہے، مگر ان کے تعلیمی اخراجات عام آدمی کے بچوں کی رسائی سے بہت دور ہیں۔ ان کے مالی مسائل انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ انہی سرکاری اداروں میں جو رائج مروجہ نصاب کے مطابق تعلیم حاصل کریں۔ یوں دو طبقاتی نظام نے تعلیم کو ایک مقصد، مشن اور معاشرے میں بسنے والے افراد کی ترقی اور معیار زندگی بلند کرنے کی بجائے ایک تجارت کا درجہ دے دیا ہے۔ طلباء کو بھی دو طبقوں میں تقسیم کردیا۔

ایک طبقہ ان نوجوانوں کا ہے جو پرائیویٹ اداروں میں سافٹ وئیر انجیئرنگ، اکاؤنٹس اینڈ فنانس،اور آئی-ٹی سے تعلق رکھنے والے دیگر شعبوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کا مستقبل روشن اور تابناک ہے۔ دوسری طرف وہ نوجوان طبقہ ہے جو مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے مروجہ سرکاری تعلیمی نصاب میں اپنی صلاحیتیں آزماتے اور انہی میں اپنا مستقبل ڈھونڈ تےہیں۔ اس نظام نے انہیں ذہنی پسماندگی میں مبتلا کردیا ہے۔ وہ فرسٹریشن اورڈپریشن کا شکار ہیں۔ اس کا ثبوت ان کے ان رویوں میں نظر آتا ہے۔ 

ملک میں فرسودہ تعلیمی نظام، نامناسب منصوبہ بندی ، بجٹ کا فقدان اور کرپشن نے شعبئہ تعلیم کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ وہ عالمی تعلیم کے نظام سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ دنیا کے سب ہی ممالک تعلیم کے شعبے اور نسل نو کے مستقبل کے لئے جدید نصاب کو بروئے کار لارہے ہیں۔ اس کے لئے کثیربجٹ مختص کرتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں کر رہے اور نہ ہی سوچ رہے ہیں،پھرتکنیکی تعلیمی ادارے بھی بہت کم ہیں۔ 

دنیا بھرمیں ان کی اہمیت ہےاور اسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب کہ ہمارے ملک میں اسے دوسرے درجے کی تعلیم کا مقام دیا جاتا ہے۔ ضروری نہیں سب ہی نوجوان ڈاکٹریا انجینئر بنیں۔ وہ اس فیلڈ میں بھی اپنا مقام بنا سکتے ہیں۔ مایوس کن صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ آج کی نوجوان نسل کو اپنی قابلیت اورذہانت کے بل پرآگے بڑھنا اور اپنا مقام خود بنانا ہوگا۔