• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سماجی علوم کی اہمیت اور پاکستان میں ان کی صورتِ حال

دنیا کے مختلف ملکوں میں مروج تعلیمی نظاموں میں سماجی علوم کی اہمیت کا احساس گھٹتا بڑھتا رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں ایک لحاظ سے سماجی علوم کا احیاء ہورہا ہے۔اور موجودہ زمانے کے ’اسٹیٹ آف دی آرٹ‘ یا جدید اور کارآمد ترین مضامین کے پہلو بہ پہلو سماجی علوم کو بھی ناگزیرتصور کرتے ہوئے مناسب ترین جگہ دی جارہی ہے، چنانچہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، بزنس ایڈمنسٹریشن، اپلائڈ سائنسز کے شعبوں میں بہترین مہارت فراہم کرنے والی یونیورسٹیاں، معاشیات، تاریخ، عمرانیات اور فلسفے کو بھی شاملِ نصاب کررہی ہیں۔ اس رجحان کے اسباب کچھ تو تعلیم کے مقاصد کے بارے میں ارتقا پذیر سوچ میں دریافت کیے جاسکتے ہیں اور کچھ کا تعلق ہم عصر عالمی اقتصادی نظام سے ہے۔

جہاں تک تاریخی حقائق کا تعلق ہے، انیسویں صدی میں یورپ اور امریکہ کی تیز رفتار سائنسی ترقی اور صنعتی و کاروباری سرگرمیوں کے درمیان اس سوچ نے پرورش پائی کہ اب جبکہ اتنے علوم کے میدان کھل گئے ہیں، ضروری ہے کہ ہر علم میں اسپیشلائزیشن ہی کو کامیابی کے ذریعے کے طور پر قبول کرلیا جائے۔ اس مہارت کے کچھ فائدے بھی تھے کہ اس کا متمنی شخص اپنے ہی شعبے میں کُل وقتی توجہ صرف کرکے واقعی ایک مخصوص کام میں درجۂ کمال حاصل کرسکتا تھا۔ لیکن اس تگ و دو میں بہت امکان تھا کہ وہ زندگی کے دوسرے شعبوں سے، جو اپنی جگہ بڑے اہم تھے، لاتعلق رہ کر اپنی مجموعی شخصیت اور معاشرتی ذمہ داریوں کے حوالے سے کوتاہیوں کا شکار ہوجاتا۔

بیسویں صدی کے آغاز پر مذکورہ بالا احساس اہل فکر کی تحریروں میں نمایاں طور پر جگہ پانے لگا۔وائٹ ہیڈ اوربرٹرینڈرسل جیسے مفکرین نے یہ رائے قائم کی کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر علوم کے ارتباط کی طرف جانا چاہیے۔ایک کامیاب انسان کا تصور یہ قرار پایا کہ اُس کے پاس اپنا مخصوص علم بھی ہو، وہ سائنس داں ہو تو بھی اور ماہر نظم عامہ ہو تب بھی، اُس میں سماجی شعور بھی ہو، جمالیاتی حس بھی ہو، اور اخلاقی سطح پر وہ احترام آدمیت پر بھی کاربند ہو۔

دوسرے لفظوں میں ایک کامیاب ، مطمئن اورمعاشرے کے لیے فیض رساں شخص وہ ہے جو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے ذہنی اور عملی تعلق رکھتا ہو،اور جو صحیح معنوں میں ایک تہذیبی انسان ہو۔ اچھے نظام ہائے تعلیم وہی قرار پائے جنہوں نے اس نئے احساس کا خیر مقدم کیا اور خود کو اس کے تقاضوں کے مطابق ہموار کرنے کی کوشش کی۔

مختلف علوم کے ارتباط کا ایک سبب بڑھتی ہوئی عالمگیریت،بازار کی معیشت کے پھیلاؤ اور ان کے نتیجے میں مقابلہ آرائی کی اُس فضانے بھی فراہم کردیا جس میں ہر کوئی خود کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ بہتر امیدوار باور کرانے کی مشق میں مصروف رہتا ہے۔آج اگر بزنس ایڈ مینسٹریشن اور اطلاعات کی ٹیکنالوجی کے سرکردہ ترین غیر ملکی اور ملکی ادارے سماجی علوم کو شاملِ نصاب کررہے ہیں تو اس کا ایک سبب اپنے فارغ التحصیل طلبہ کو ملازمت کے بازار میں اضافی قدرکے ساتھ پہنچانا ہے۔

آج یورپ، امریکہ اور مشرقِ بعید کے بہت سے ملکوں کی جامعات میں ایک سے زیادہ زبانوں کے جاننے والوں اور ان کی تعلیم کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہے۔ یہ چیز صرف زبانوں کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ بڑی بڑی جامعات میں کسی ایک شعبے میں ڈگری حاصل کرنے والے طالبعلم کو دوسرے شعبوں سے بھی مضامین کو منتخب کرنا پڑتا ہے۔ یہ رجحان عام جامعات ہی میں نہیں بلکہ میڈیسن، انجینئرنگ، بزنس ایڈمنسٹریشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیے مخصوص جامعات میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ ترویج پارہا ہے۔

ہم عصر دنیا میں عالمگیریت اور گلوبلائزیشن کے زیر اثربازار کی معیشت جس طرح تیزی سے دنیا کے مختلف خطوں پر اپنی عملداری قائم کررہی ہے ، اس میں تعلیم کا مقصد بھی اس معیشت کی عالمگیریت کو پشت پناہی فراہم کرنا قرار پایا ہے۔ چنانچہ ایک اصطلاح’عِلم بردار معیشت‘ وضع کی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ علم ہو ہی معیشت کے لیے اور معیشت بھی اپنے ارتفاع کے لیے علم سے بھرپور استفادہ کرے۔ علم اور تعلیم کو معیشت برداری کے لیے مختص کرنے کے جو منفی پہلو ہوسکتے ہیں وہ اپنی جگہ،لیکن ارتباط کے پیچھے کارفرما ہوجانے والے ایک نئے اور ہم عصر رجحان کی طرف اشارہ کرنا تھا۔

سماجی علوم کی اہمیت کے ادراک اور ان علوم کے فروغ کے ضمن میں یہ بات بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ کسی ملک کی ریاست اور معاشرے کا رویہ ان کی طرف کیا ہے؟سماجی علوم زیادہ تر تعلیمی و تحقیقی اداروں کے وسیلے ہی سے ترقی پاتے ہیں چنانچہ ان اداروں خاص طور سے جامعات کا سماجی علوم کے فروغ میں بڑا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ہر سال سائنس کے مختلف شعبوں میں جو نوبل انعام دیے جاتے ہیں وہ کم و بیش سب ہی جامعات سے وابستہ اساتذہ ہی کے حصے میں آتے ہیں۔ دنیا کی بڑی جامعات اپنے سائنسدانوں، ماہرینِ معیشت ،مفکرینِ عمرانیات وغیرہ ہی کی نسبت سے پہچانی جاتی ہیں۔

گفتگو کا رخ پاکستان کی طرف موڑیں تو جو پہلا تاثر بلاخوفِ تردید پیش کیا جاسکتا ہے ،وہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں تعلیم اور علم کی پرداخت کی صورت حال انتہائی ناقص ہے۔ سماجی علوم اور بھی زیادہ پسماندگی کا مظہر نظر آتے ہیں، جس کے اسباب پر غور کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک ہمارے اداروں کا تعلق ہے یہ افسوس ناک صورت حال غور و فکر کے بعد سامنے آئی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری جامعات ،کالجوں کے مقام پر آگئی ہیں، ہمارے کالج اگر وہ محض عمارتیں نہیں رہ گئے ہیں اور وہاں کچھ پڑھایا بھی جاتا ہے تو بھی ان کی حیثیت اسکولوں کی توسیع سے زیادہ نہیں ہے۔

ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ ہمارے اسکول پسماندگی کی کون سی تصویر پیش کرتے ہوں گے۔ جامعات میں ،خاص طور سے سماجی علوم کے شعبوں میں بالعموم چند مخصوص نصابی کتابیں طالبعلوں کے علم میں لائی جاتی ہیں اور بیشتر اساتذہ برسوں سے پڑھائے جانے والے اپنے نوٹس کلاس روم میں آن کر دہرا دیتے ہیں۔

یونیورسٹیوں میں نئے علم کی تخلیق تو دور کی بات ، دنیا میں چھپنے والی نئی کتابوں اور تحقیقی جرائد میں جاری علمی مباحثوں تک سے مکمل لاعلمی کی فضا پائی جاتی ہے۔ چند ایک اساتذہ یقینا چند شعبوں میں نئی کتابوں اور جرائد سے واقفیت رکھتے ہوں گے لیکن یونیورسٹیوں کا عمومی ماحول نئے علم اور تحقیق سے لاتعلقی اور بے خبری کا ماحول بن چکا ہے۔

پچھلے پچھتّربرسوں میں علم پرور دانشوروں نے اس امر پر غور کیا کہ پاکستا ن میں سماجی علوم کی کیا صورت حال ہے، اور ہمارے یہاں اس قدر پس پشت کیوں ڈال دیے گئے ہیں؟ کئی سال پہلے ایس ایچ ہاشمی صاحب کی کتاب ’پاکستان میں سماجی علوم کی صورت حال‘(The State of Social Sciences in Pakistan) شایع ہوئی تھی۔اس کے بعد ایک اور کتاب ’پاکستان میں سماجی علومـ:ایک خاکہ شایع ہوئی جس کے مؤلفین ڈاکٹر عنایت اللہ، ڈاکٹر روبینہ سہگل اور ڈاکٹر پرویز طاہر تھے۔

ایک اور کتاب جو ڈاکٹر اکبر زیدی کی تصنیف تھی ’پاکستان میں سماجی علوم کی مایوس کن صورت حال ‘ تھی۔ ان سب تحقیقات سے یہ بات تو بالکل واضح ہوکر سامنے آگئی کہ اولاً سماجی علوم پاکستان میں کوئی قابل ذکر ترقی نہیں کرپائے۔ ایک دو کے سوائے ہماری جامعات سے نہ تو وہ کتابیں شایع ہوئیں جن پر دنیا کی دوسری جامعات میں گفتگو ہوتی، نہ ایسے سماجی علوم کے ماہر سامنے آئے جن کے خیالات نے کچھ علمی ارتعاش پیدا کیا ہوتا۔

آخر ایسا کیوں ہے؟ سماجی علوم ہمارے یہاں کیوں نمایاں نہیں ہوپارہے اور ہماری جامعات اس ضمن میں بڑی حد تک بنجر کیوں نظر آتی ہیں؟ اسباب پر غور کریں تو پہلی بات تو یہی سامنے آتی ہے کہ سائنس ،بزنس ایڈمنسٹریشن اور آئی ٹی کے لیے تو شاید یہ اتنا ناگزیر نہ ہو لیکن سماجی علوم کے لیے بالکل ناگزیر ہے کہ ملک کے اندر ایسی جمہوری فضا اور جمہوری کلچر ہو جس میں مختلف نقطہ ہائے نظر کو نہ صرف برداشت کیا جائے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔

مقید معاشرے، لگے بندھے راستوں پر چلتے ہیں، ان میں تقلید ہی کو پروان چڑھایا جاتا ہے، تنقید اور نئے راستوں کی تلاش کے راستے بند کردیے جاتے ہیں۔نئے خیالات اور افکارِ تازہ سے یہ بند معاشرے بھی خوف کھاتے ہیں اور ریاست، حکومتیں بھی ان کے آگے رکاوٹیں کھڑی کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتیں۔’ضربِ کلیم‘میں اقبالؔ نے کہا تھا ؎

جہانِ تازہ کے افکارِ تازہ سے ہے نمود

کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

بدقسمتی سے پاکستان میں ہم پچھلے ستر پچھتر برسوں سے سنگ و خشت سے جہاں پیدا کرنے کی بے کار مشق میں مصرو ف ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ہم نے اُس حقیقی آزاد فضا کا تجربہ نہیں کیا جو جمہوریت کی دین ہوتی ہے اور جس میں معاشرے عقل و خرد اور روشن خیالی کے وسیلے سے نت نئے راستے تلاش کرتے ہیں۔ علم کی پرورش اور پرداخت بھی ایسی جمہوری فضا ہی میں ممکن ہے۔

چونکہ ہمارے یہاں وہ فضا میسر نہیں رہی لہٰذا ہمارے سماجی علوم کے شعبے روایتی اور برسوں سے دہرائے جانے والے بیانیوں کی تکرار تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ کیا یہ بات قابلِ توجہ نہیں کہ پاکستان ہی سے باہر جانے والے اور باہر کی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے ، وہاں پی ایچ ڈی کرنے اور پھر وہیں سے اپنی تحقیقات کو شایع کرنے والے پاکستانی ماہرینِ سماجی علوم نے باہر جاکر وہ نمایاں کام کیے جن کا وزن علمی دنیا میں محسوس کیا گیا۔

کتنے ہی ایسے پاکستانی سینئر اسکالرز کا ذکر کیا جاسکتا ہے جن کی تحریریں برسوں سے باہر کی جامعات میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہیں۔ پروفیسر خالد بن سعید ،ڈاکٹر حفیظ ملک، ڈاکٹر انوار سید، پروفیسر حمزہ علوی ، ڈاکٹر فیروز احمد، پروفیسر حسن گردیزی، ڈاکٹر عائشہ جلال، ڈاکٹر افتخار ملک ،یہ اور ایسے ہی بیسیوں ماہرینِ سماجی علوم ہیں جن کے کام کی وقعت آج بھی باہر کی دنیا میں محسوس کی جاتی ہے۔

پاکستان میں جامعات کی تعلیم پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کا سخت کنٹرول ہے۔اٹھارہویں آئینی ترمیم میں تعلیم کا بیشتر کام صوبوں کی طرف منتقل کردیا گیا تھالیکن ترمیم کی منظوری کے ساتھ ہی مرکز میں بھی تعلیم کی ایک وزارت جس کے کئی نام بدل چکے ہیں، قائم کردی گئی تھی۔ ان دونوں مراکز میں اگر کچھ تعلیم کے حوالے سے حکمت سازی کی جاتی ہے تو اُس میں بھی سائنس اور دوسرے جدید تر، نیز معیشت نواز شعبوں ہی کو فوقیت دی جاتی ہے، سماجی علوم ان اداروں کی ترجیحات میں بہت نیچے کسی درجے میں جگہ پاتے ہیں۔

پھر سماجی علوم کے حوالے سے کبھی بیداری کی کیفیت پیدا ہوتی بھی ہے تو ایک ڈیڑھ سال میں وہ بھی مدھم پڑجاتی ہے۔کئی سال پہلے ایک ابال پیدا ہوا تھا ،ڈاکٹر منظور احمد ، پھر ڈاکٹر عشرت حسین ،ان کے بعد ڈاکٹر نظام الدین کی سرکردی میں سماجی علوم کی کمیٹیاں بنائی گئیں، طویل مشاورتیں ہوئیں، رپورٹیں بنیں، فیصلے ہوئے لیکن پھر ایک خاموشی سی خاموشی پھیلتی چلی گئی۔ میٹنگیں ہوتی ہیں ،فیصلے ہوتے ہیں، پھر مہینوں ان فیصلوں پر عملدرآمد کا جائز ہ لینے کے لیے اجلاس منعقد نہیں ہوتے ،اور جب ہوتے ہیں تو پچھلی میٹنگوں کے شرکاء میں سے بہت سے ریٹائر ہوچکے ہوتے ہیں، نئے آنے والے بہت سی چیزوں کو از سرِ نو کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔

سماجی علوم پر پڑنے والے عدم جمہوریت کے تازیانوں کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے اپنے اوپر خودساختہ پابندیاں لگالی ہیں۔وہ یہ سوچ کر محتاط ہوجاتے ہیں کہ وہ سب کچھ جو وہ جبراً پڑھارہے ہیں، اُس سے انحراف کہیں ان کے لیے عتاب کا سامان پیدا نہ کردے۔ اس چیز نے جامعات میں تحقیق کے کلچر کو پروان نہیں چڑھنے دیا۔ چنانچہ اساتذہ بالعموم معلوم چیزوں ہی کو معلوم کرتے رہنے کو تحقیق کے نام پر پیش کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔ ایچ ای سی نے اساتذہ کی ترقی کے لیے تحقیقی مقالوں کی تعداد مقرر کردی ہے چنانچہ اب دوڑ اس چیز کی لگ گئی ہے کہ کتنے جلد ایک مقررہ تعداد کا ہدف حاصل کرلیا جائے۔

پاکستان میں سماجی علوم کی اہمیت کو سمجھنے اور پھر ان کو نظام تعلیم میں بہترین طور پر سمونے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ تعلیم کے شعبے پر سرکاری تسلط کو ختم کیا جائے۔ جامعات کی خود مختاری کو یقینی بنایا جائے، مختلف علوم کے درمیان ارتباط کی راہیں تلاش کی جائیں اور جامعات میں تحقیق کے نام پر خانہ پری کے بجائے صحیح معنوں میں تحقیق کو پروان چڑھایا جائے۔