• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دشمن آپ کی زندگی کو چار چاند لگا دیتے ہیں

بات بہت چھوٹی سی ہے مگر غور طلب ہے۔ بات بیان کرنے سے پہلے ایک چھوٹی سی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ بات ایٹم بم بنانے اور ایٹم بم کا دھماکہ کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایٹم بم بہت چھوٹی سی بات ہے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ ایٹم بم بہت بڑی بات ہے مگر کیا، کیا جائے کہ برسوں پہلے ہم نے ایٹم بم بنایا اور ایک پہاڑ پر چلاکر دیکھا تھا۔ پہاڑ کے پرخچے اڑ گئے تھے اور پہاڑ رائی کا دانہ بن گیا تھا۔ ایٹم بم چلانے سے پہلے ہم نے اطراف کےچھوٹے بڑے گائوں خالی کرالیے تھے۔ وہ گائوں اب تک خالی پڑے ہوئے ہیں۔ لوگوں کو اب خالی پڑے ہوئے گائوں میں پراسرار پرچھائیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اگست انیس سو پینتالیس میں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے تھے۔ میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ دونوں شہروں پر ایٹم بم گرانے سے پہلے شہر میں آباد بچوں، بوڑھوں، جوانوں، عورتوں و مردوں کو شہر خالی کرکے جانے کی اطلاع امریکہ نے نہیں دی تھی۔ اس لحاظ سے ہم امریکہ سے سماجی سوجھ بوجھ میں کوسوں آگے ہیں۔ پہاڑ پر ایٹم بم گرانے سے پہلے ہم نے سینکڑوں گائوں اور قصبے خالی کرادیے تھے۔ ہم نے جب بم چلایا تھا تب ایک بھی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ پرند اور چرند تک محفوظ رہے تھے۔ اس کے برعکس ایٹم بم گرانے کے بعد ہیروشیما اور ناگاساکی تباہ و برباد ہوگئے تھے۔ دنیا بھر میں اعدادو شمار کے ماہرین آج تک کھوجنے میں لگے ہوئے ہیں کہ ہیروشیما اور ناگا ساکی میں مرنے والوں کی تعداد آخر کتنی تھی؟ تاریخ کے ملبے سے ملنے والی لاشیں آخر ختم کیوں نہیں ہوتیں؟ مگر ہم نے جب ایٹم بم چلایا تھا تب ایسا نہیں ہوا، چونکہ ہم نے گائوں کے گائوں خالی کرادیے تھے، ا س لیے ریزہ ریزہ ہوجانے والے پہاڑ کے ملبے سے کسی انسان، چرند یا پرند کی ایک بھی لاش نہیں ملی تھی۔ ایک غیر ملکی صحافی کو سڑے ہوئے گھونسلے کے قریب ایک چڑیا کی پڑی ہوئی لاش ملی تھی۔ پوسٹ مارٹم کے بعد پتہ چلا کہ چڑیا کی موت ایٹم بم کی تباہ کاری کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی۔ ایٹم بم کا دل دوز دھماکہ سن کر چڑیا کو دل کا دورہ پڑا تھا اور وہ اللہ سائیں کو پیاری ہوگئی، یعنی مرکھپ گئی تھی۔ اس میں ایٹم بم کا کوئی قصور نہیں تھا۔

اب آپ فقیر کو بے فائدہ اور بیکار بحث میں الجھانے کی کوشش مت کیجئے کہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم دوسری جنگ عظیم کے دوران پھینکا گیا تھا اور یہ کہ ہم نے امن و امان کے دوران ایٹم بم چلایا تھا۔ فقیر کا سادہ سا جواب سن لیجئے کہ جنگ ہو یا امن، آپ جب بھی مہلک ہتھیار ہتھیا لیتے ہیں تب آپ اپنے دشمن کو اپنی طاقت سے آگاہ کرتے ہیں۔ اسے متنبہ کرتے ہیں کہ آپ اسے نیست و نابود کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ویسے بھی بھائی، آپ ایٹم بم جیسے مہلک بم دوستوں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کے لیے نہیں بناتے۔ آپ اپنے دشمن کو تباہ و برباد کرنے کے لیے مہلک ہتھیار ہتھیاتے ہیں۔ اگر آپ کا کوئی دشمن نہ ہوتا تو پھر ایٹم بم تو دور کی بات ہے آپ ایک غلیل خریدنے کے لیے دھیلہ خرچ نہیں کرتے۔ آپ ہتھیار وغیرہ تب خریدتے ہیں جب آپ کا کوئی دشمن ہو۔

یہی وہ چھوٹی سی بات ہے جو آج میں آپ سے ڈسکس کرنا چاہتا ہوں۔ آج تک آپ نے نیک اور صالح لوگوں سے دشمن اور دشمنی کے بارے میں صرف غیبت سنی ہوگی۔ مثلاً دشمنی بہت بری بلا ہے۔ دشمنی آگ کی مانند ہوتی ہے اور دشمنی کی آگ آپ کے وجود میں جلتی رہتی ہے۔ دشمن کی آگ دشمن کو جلانے سے پہلے آپ کو جلاتی ہے۔ جب ذہن میں دشمنی پنپنے لگتی ہے تب تخلیقی عمل بانجھ پڑ جاتا ہے۔ آپ کچھ تخلیق نہیں کرسکتے۔ شعرو شاعری آپ سے روٹھ جاتی ہے۔ قصے کہانیاں افسانے ناول آپ کے اندر جھلس جاتے ہیں۔ آپ تھکے ماندے اور بے چین رہنے لگتے ہیں۔ دشمن سے دشمنی کے حربے استعمال کرنے کے علاوہ کوئی تخلیقی عمل آپ کے ذہن کو نہیں جھنجھوڑتا۔ آپ کی صحت گرنے لگتی ہے۔ آپ کو بھوک نہیں لگتی۔ آپ کو پیاس نہیں لگتی۔ نیند آپ سے روٹھ جاتی ہے۔ اگر بھولے سے نیند آ بھی جائے مگر پھر بھی آپ سکون کی نیند نہیں سو سکتے۔

میرے بھائیو ، بہنو اور میرے بچو! بزرگ جس سکون کی نیند کی باتیں کرتے ہیں وہ نیند دراصل غفلت کی نیند ہوتی ہے۔ ایسی نیند آپ کو تب آتی ہے جب آپ سب کچھ بیچنے کے بعد آخرکار اپنے گھوڑے بیچ دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے اگر آپ کے پاس بیچنے کے لیے گھوڑے نہیں ہیں تو پھر آپ زندگی بھر سکون کی نیند نہیں سو سکتے۔ گھوڑے بیچ کر سکون کی نیند سونے والا محاورہ بہت پرانا ہے۔ یہ اس دور کا محاورہ ہے جب جنگیں گھوڑوں پر سوار ہوکر لڑی جاتی تھیں۔ یاد رہے کہ جنگ آپ دشمن سے لڑتے ہیں، جنگ آپ دوست سے نہیں لڑتے، صلح صفائی کے باوجود آپ گھوڑے نہیں بیچتے۔ آپ گھوڑے تب بیچتے ہیں جب آپ دشمن کو نیست و نابود کردیتے ہیں۔ اگر آپ دشمن کے ساتھ صلح و صفائی سے ر ہنا چاہتے ہیں تب آپ گھوڑے نہیں بیچتے، کیوں کہ جنگ کبھی بھی چھڑ سکتی ہے اور جب تک آپ گھوڑے نہیں بیچتے تب تک آپ گہری نیند نہیں سو سکتے۔ آپ جاگتے رہتے ہیں۔ لیٹے ہوئے ہوتے ہیں تو اچانک چونک کر اٹھ بیٹھتے ہیں۔ دشمن آپ کو غفلت کی نیند سونے نہیں دیتا۔ دیکھنے والے اندازہ نہیں لگا سکتے کہ آپ جاگ رہے ہیں یا سو رہے ہیں۔ بزرگوں اور دانشوروں کی باتیں سر آنکھوں پر مگر تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ دشمن کا ہونا زندگی کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ دشمن آپ کو چوکنا رکھتا ہے۔

دشمن آپ کو غفلت کی نیند سونے نہیں دیتا چونکہ دشمن کو نیچا دکھانا اسے ذلیل و خوار کرنا آپ کی زندگی کا نصب العین ہوتا ہے، اس لیے ہر شعبہ میں آپ اپنے دشمن سے آگے نکل جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ دشمن اگر دس یونیورسٹیاں بنا ڈالتا ہے، آپ اس کے مقابلہ میں بیس یونیورسٹیاں بنا ڈالتے ہیں۔ دشمن نے اگر بڑھ چڑھ کر صنعتیں لگائی ہیں تو پھر آپ اپنے ملک میں صنعتوں کا جال بچھا دیتے ہیں۔ رقابت آپ کو دشمن سے کبھی بھی پیچھے رہنے نہیں دیتی۔ دشمن اگر ایٹم بم بناتا ہے تو پھر جواباً آپ ہائیڈروجن بم بناتے ہیں۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ دشمن کنویں میں چھلانگ لگاتا ہے، تب آپ بھی کنویں میں چھلانگ لگانے سے گریز نہیں کرتے۔

تازہ ترین