(گزشتہ سے پیوستہ)
گزشتہ دو تین کالموں میں ملک میں کی جانے والی ڈیجیٹل مردم شماری کے بارے میں سندھ کے متعدد خدشات اور اعتراضات کا ذکر کرچکا ہوں مگر وفاقی حکومت اور نہ ہی کسی اور ادارے نے ان خدشات کا نوٹس لیا،ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت مردم شماری کرانے کے بارے میں وفاقی حکومت نے احکامات جاری کردیئے ہیں حالانکہ سندھ کی ساری قوم پرست پارٹیوں اور سندھ کی حکمراں پیپلز پارٹی نے ڈیجیٹل مردم شماری کے خلاف سندھ میں احتجاجی مارچ اور احتجاجی جلسے بھی کئے اور یہ اعلان تک کیا گیا کہ اس مردم شماری کو اگر نہ روکا گیا تو وہ نہ صرف اس کے نتائج کو قبول نہیں کریں گے بلکہ وہ اس کے خلاف سارے صوبے میں تحریک چلانے پر بھی مجبور ہوجائیں گے۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے سندھ کی مختلف سیاسی جماعتیں حتیٰ کہ کچھ بار ایسوسی ایشنز بھی اس مردم شماری کو آئین کے خلاف دے رہی تھیں جو لوگ اس سلسلے میں تفصیلی حقائق بیان کررہے تھے ان میں خاص طور پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے بڑی تحقیقات کے بعد سینیٹ میں حقائق کے ساتھ تقریر کی اور اس ایشو پر ’’سندھ کا مقدمہ‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ بھی شائع کیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں حکومت اور ملک کے عوام کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ پنجاب، کے پی، بلوچستان اورگلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے بھی کئی سال سے لوگ معاشی ضروریات کی وجہ سے سندھ صوبے میں آباد ہوتے رہے ہیں، اس وقت نہ صرف کراچی بلکہ سندھ کے باقی اضلاع میں بھی ان علاقوں کے لوگوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔ سینیٹر تاج حیدر کی یہ بات تو درست ہے اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ سندھ اور خاص طور پر اس کے بڑے شہر کراچی میں غیر قانونی غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، اس مرحلے پر میں خاص طور پر اس طرف توجہ مبذول کرائوں گا کہ مشرف کے دور میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ’’کراچی بدامنی‘‘ کیس کاجو فیصلہ جاری کیا اس میں خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ کراچی میں لاکھوں غیر قانونی غیر ملکی آباد ہیں لہٰذا انہوں نے اپنے فیصلے میں وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ فوری طور پر ان غیر قانونی غیر ملکیوں کو کیمپوں میں منتقل کیا جائے اور پھر ان سب کو اپنے اپنے ملکوں میں واپس بھیجا جائے۔ عدالت نے یہ آرڈر جاری کیا مگر اس پر عمل نہیں کیا گیا ، وفاقی اور سندھ حکومت نے بھی اب تک کوئی نوٹس نہیں لیا۔ عام تاثر یہ ہے کہ یہ غیر قانونی غیر ملکی نہ صرف یہاں کے شہری ہوگئے ہیںاور ان کو شناختی کارڈ بھی جاری ہوچکے ہیں، یہ سب ہماری مردم شماری میں گنے جاتے ہیںبلکہ یہ انتخابات میں بھی حصہ لیتے ہیں، ان میں سب سے بڑی تعداد افغانیوں کی ہے۔ افغانیوں کے علاوہ ان غیر ملکیوں میں برمی، بنگالی، ایرانی اور کچھ دیگر ملکوں کے شہری بھی شامل ہیں، ایک طرف تو یہ صورتحال ہے جبکہ دوسری طرف گزشتہ 10،15سال سے خاص طور پر سیلابوں کے بعد اندرون سندھ کے ہزاروں لوگ اپنے علاقے چھوڑکے کراچی اور حیدرآباد شہر میں آکر آباد ہوگئے ہیں، ان شہروں میں ان لوگوں کے گھر نہیں ، وہ بڑی تعداد میں خیموں میں خاندان کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ اس مرحلے پر میں خاص طور پر اس طرف بھی توجہ مبذول کراتا چلوں کہ اس وقت سے اب تک ملک میں جو بھی مردم شماری کرائی گئی اور جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں وہ نہ حصہ لے سکے، ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا رہا ہے اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس عرصے میں جو بھی حکومتیں آئیں انہوں نے ان کو اس ملک کا شہری ہی تصور نہیں کیا۔ سینیٹر تاج حیدر نے اپنے ان بیانات میں خاص طور پر اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی ہے کہ اس بار ہونے والی مردم شماری میں سندھ میں خاندانوں کا اوسط 5.84 کے بجائے 5.64ظاہر کیا گیا ہے جبکہ پنجاب میں یہ اوسط 6.43،بلوچستان میں 6.76اور پختونخوا میں 6.94 ظاہر کیا گیا، سمجھ میں نہیں آتی کہ سندھ کے ساتھ اتنی زیادتی کیوں کی گئی۔ سینیٹر تاج حیدر کی ان اعداد و شمار کی طرف توجہ مبذول کرانے کے باوجود آج تک حکومت نےسندھ کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا نوٹس نہیں لیا۔ سینیٹر تاج حیدر نے سندھ کے ساتھ ہونے والی ایک اور ناانصافی کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی اور کہا کہ سندھ کی آبادی 7 کروڑ ظاہر کی گئی ہے جبکہ سندھ کی آبادی 8کروڑ 50لاکھ سے کم نہیں۔ اس کو بڑی آسانی سے اس طرح گنا جاسکتا ہے کہ سندھ میں گنے گئے آبادی کے 43841بلاکوں کو یونیسیف کے ریکارڈ کے مطابق فی بلاک 300خاندانوں کے حساب سے ضرب دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے مطابق سندھ کے کسی بھی بلاک میں 300سے کم خاندان رہائش پذیر نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں ایسے بلاکوں کی تعداد 800 سے 1000 تک ہے جہاں فی بلاک کم سے کم 300 خاندان رہائش پذیر ہیں۔ ان کے مطابق سندھ کے تھر والے علاقے عمر کوٹ ضلع کے دو بلاکوں میں 2500سے زیادہ خاندان رہائش پذیر ہیں۔ سینیٹر تاج حیدر نے دعویٰ کیا کہ سندھ میں مردم شماری کے نتائج کے تحت سندھ کی آبادی 3کروڑ کم دکھائی گئی ہے۔ یہ بھی کم افسوسناک بات نہیں ہے کہ گھروں کی گنتی کے بعد آبادی کی گنتی کرنے کے بجائے اس بار گھروں اور آبادی کی گنتی ایک ساتھ کی گئی ۔یہ مردم شماری ساری قوم اور خاص طور پر ان صوبوں کے ساتھ ایک ظالمانہ مذاق بن گئی ہے جن کی گنتی کم کی گئی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)