(گرشتہ سے پیوستہ)
گورنمنٹ ہائوس (گورنر ہائوس )کے ارد گرد کے علاقے کو کبھی محلہ سادات بھی کہا جاتا تھا ، حضرت سید بدرالدین گیلانیؒ اور ان کے عزیز واقارب نے یہ محلہ آباد کیا تھا مگر جب سکھ حکومت آئی تو اس نے ان سید زاوں پر بڑا ظلم وستم کیا تو وہ یہ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے لاہور کا گورنر ہائوس یقیناً پاکستان کا واحد ہے جس کو پانچ سڑکیں لگتی ہیں ۔اس گورنر ہائوس کا مرکزی دروازہ مال روڈ پر ہے جبکہ کشمیر روڈ پر دوسرا ، ایمپرس روڈپر تیسرا ،کلب روڈ پر ایک اورایک دروازہ ڈیوس روڈ کی طرف ہے کبھی ایک دروازہ سنی ویو کے پاس تھا جو اب بند ہو چکا ہے ۔گورنر ہائوس کے دونوں اسکولوں کے بچے اب ڈیوس روڈ والے دروازے سے آتے جاتے ہیں جو کبھی مال روڈ والے دروازے سے آیا جایا کرتے تھے۔
ڈیوس روڈپر اسماعیلی فرقے کا جماعت خانہ ہے اب یہاں خاصی تعداد میں آغا خانی رہتے ہیں ہم نے پچھلی مرتبہ گورنر ہائوس میں آنے والی نہر کا ذکر کیا تھا دلچسپ بات یہ ہے یہ نہر جو کہ بی آر بی سے پانی لیتی ہے، بی آر بی وہ تاریخی نہر ہے جس نے 1965ء کی جنگ میں لاہور کو محفوظ رکھنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا بڑی خوبصورت ،چوڑی اور گہری نہر ہے شاید بہت ہی کم لاہوریوں کو معلوم ہوگا کہ بی آر بی نہر دریائے راوی کے نیچے سے گزرتی ہے۔اس نہر میں دریائے راوی کا پانی نہیں بلکہ چناب دریا کا پانی آتا ہے اس نہر کی بڑی تاریخ ہے پھر کبھی بیان کریں گے۔ بی آر بی سے پانی لینے والی یہ نہر کبھی مشرقی پنجاب سے بھی پانی لیا کرتی تھی ۔اس نہر کو لاہوریئے بے شمار ناموں سے یاد کرتے ہیں۔کوئی اس کو میاں میر والی نہر کہتا ہے، کوئی کیمپس والی ، کوئی مال روڈ والی،تو کوئی ٹھوکر والی نہر کہتا ہے مطلب یہ نہر لاہور کے جس کسی بھی علاقے اور سڑک سے گزرتی ہے اس کا وہ نام پڑ جاتا ہے۔
البتہ ایچیسن کالج اور میاں میرؒ والی سائیڈ سے اس نہر کا پانی گورنر ہائوس آتا ہے کبھی لارنس گارڈن بھی جایا کرتا تھا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پانی کسی کو نظر نہیں آتا زیر زمین آتا ہے۔ البتہ گورنر ہائوس کی زمین آج بھی اس تاریخی اور پرانی نہر سے سیراب ہوتی ہے ۔کبھی زمان پارک بھی یہ نہر آیا کرتی تھی جس کو کبھی کمپنی باغ بھی کہا جاتا تھا کلب روڈ پر پنجاب کلب کی بڑی خوبصورت اور تاریخی عمارت ہے پنجاب کلب اب جی او آر ون کے پچھلی طرف والے دروازے پر واقع ایک خوبصورت قدیم کوٹھی میں ہے جہاں اب ا سٹاف کالج ہے البتہ اس کلب روڈ پر اسکوائش کورٹس ہیں جہاں آپ کوسات سال سے لے کر ہر عمر تک کے بچے اور بڑے لڑکے اور لڑکیاں اسکوائش کھیلتے ہوئے ملیں گے۔کبھی آپ کو اس اسکوائش کورٹس کی بھی تاریخ بیان کریں گے۔گورنر ہائوس کو کبھی کوٹھی لاٹ صاحب بہادر بھی کہا جاتا تھا کچھ لوگ اس کو کوٹھی اور دفتر لاٹ صاحب بھی کہتے ہیں حالانکہ دفتر لاٹ صاحب (موجودہ لاہور سیکریٹریٹ کی عمارت ہے جہاں چیف سیکرٹری کا دفتر ہے اور انارکلی کا مقبرہ بھی ہے) ہمیں یاد ہے جب کرشن نگر کے آخری بس ا سٹاپ سے روٹ نمبر 1ڈبل ڈیکر روانہ ہوتی تھی تو دفتر لاٹ صاحب کے بس اسٹاپ پر آکر رکتی تھی وہاں کنڈیکٹر باقاعدہ آواز لگایا کرتا تھا کہ دفتر لاٹ صاحب والے اتر جائیں یہ لاہور میں کبھی ایک نمبربس کا سب سے طویل روٹ تھا جو کرشن نگر سے شروع ہو کر رائل آرٹلری بازار یعنی آراے بازار تک جاتاتھا۔ کیا لطف آتا تھا کہ آپ ڈبل ڈیکر کے اوپر والی منزل میں بیٹھ جائیں اور ٹھنڈی ہوا کھاتے ہوئے مال روڈ اور میاں میر چھائونی کی سیرکریں۔
بات ہو رہی تھی گورنر ہائوس کی تو جناب یہاں پر تنجا سنگھ کی کوٹھی ہوا کرتی تھی جس کا اب کوئی نام ونشان نہیں۔آج گورنر پنجاب کا دفتر اور رہائش دونوں گورنر ہائوس کے اندر ہی ہیں۔اب لاٹ صاحب کا گھر اور رہائش 77ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے یہیں پر گورنر کا سارا اسٹاف ملٹری سیکرٹری، اے ڈی سی، پی او آر، پرنسپل سیکرٹری اور سپیشل سیکرٹری ،ایڈیشنل سیکرٹری ،ڈپٹی سیکرٹری، کنٹرولر اور دیگر عملہ ہروقت موجود ہوتا ہے۔کبھی گورنر ہائوس میں فیل خانہ تھا اور گورا لیفٹیننٹ گورنر اوربعد میں گورنر ہاتھی پر سوار ہو کر شہر کا دورہ کیا کرتا تھا کیا خوبصورت سماں ہوتا ہو گا۔
قارئین کےلئے یہ بات دلچسپی کا باعث ہو گی کہ جب انگریز پنجاب کے حاکم بنے اور لاہور براہ راست انگریزوں کے زیر نگیں آیا تو گوروں نے پنجاب بورڈ آف ایڈمنسٹریشن قائم کیا جو براہ راست گورنر جنرل کے ماتحت کام کرتا تھا اس پہلے بورڈ کے صدر کرنل ہنری لارنس تھے جنہیں بعد میں سرکا خطاب دیا گیا تھا۔گورنر ہائوس کے اندر آج بھی پنجاب بورڈ آف ایڈمنسٹریشن کےلوگوں کے نام درج ہیں۔سرہنری لارنس کے ساتھیوں میں جان لارنس اور رابرٹ منٹگمری تھے ان دونوں کے نام پر لارنس گارڈن کے اندر لارنس ہال اور منٹگمری ہال ہے جہاں پہلے جمخانہ کلب تھی اور اب قائداعظم لائبریری ہے۔
گورنر ہائوس کو کبھی سکھوں کے عہد میں باغ چھائونی جمعدار خوشحال سنگھ بھی کہا جاتا تھا۔قیام پاکستان کے بعد اس سارے علاقے کا نقشہ ہی بدل گیا۔گورنر ہائوس کا جو دروازہ ایمپریس روڈ کی طرف ہے وہاں کئی تاریخی اور پرانی کوٹھیاں ہیں یہ علیحدہ بات ہے امریکی کونسل خانے والے اب ان کوٹھیوں کو خریدنےکی کوششں کر رہے ہیں۔یہیں ایمپریس روڈ پر شملہ پہاڑی اور پریس کلب کے قریب ریڈیو پاکستان کی پہلی تاریخی عمارت بھی ہے جو اب کسی شادی گھر وغیرہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ لاہور کا پہلا ریڈیو اسٹیشن اس عمارت میں قائم ہوا تھا اور ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے کئی اتوار ریڈیو پاکستان سے بچوں کے پروگرام ہونہار میں حصہ لیا تھا ۔ اس پروگرام کو موہنی حمید،( آپا شمیم)، نغمی بھائی جان پیش کیا کرتے تھے کیا پروگرام ہوتا تھا اسٹوڈیو کا فرش لال سیمنٹ کا چمکدار ہوتا تھا جس پر سفید چادریں ڈال کر بچوں کو بٹھایا جاتا کیا خوبصورت آواز تھی موہنی حمید کی (جو کہ پی ٹی کی پہلی انائونسر کنول سفیر کی والدہ تھیں) وہ تاریخی کوٹھی جو غالباً محمد فضل حسین کی تھی اس پر ریڈیو اسٹیشن کے دو گیٹ تھے (جاری ہے)