اکنامک سروے کے مطابق 2022ء میں پاکستان میں بجلی کی مجموعی پیداوار 41557میگاواٹ تک پہنچ گئی تھی جبکہ 2025ءتک بجلی کی کھپت 45000 میگاواٹ اور 2030ءتک توانائی کی طلب 44فیصد بڑھ کر 60000میگاواٹ تک پہنچ سکتی ہے۔ پاکستان میں فرنس آئل، قدرتی اور LNG گیس پر زیادہ انحصار نے انرجی بحران پیدا کیا ہے جس سے ہماری بجلی کی اوسطاً لاگت خطے میں سب سے زیادہ ہوگئی ہے اگر ہم نئے ڈیموں سے ہائیڈرو (پانی) اور سورج، ہوا، کوئلے اور نیوکلیئر توانائی سے سستی بجلی پیدا کرتے تو ہماری بجلی پیدا کرنے کی اوسطاً لاگت قابل برداشت ہوتی۔ 1994ءمیں بینظیر دور حکومت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پانے اور اضافی بجلی پیدا کرنے کیلئے سرمایہ کاری پر پرکشش مراعات دینے کا فیصلہ کیا گیا اور حکومت کی انڈی پینڈنٹ پاور پالیسی کے تحت آئی پی پیز (IPPs) نے بجلی پیدا کرنے کیلئے فرنس آئل اور قدرتی گیس سے بجلی بنانے کے منصوبے شروع کئے جسکے بعد بجلی کا بحران وقتی طور پر ختم ہوگیا بلکہ آئی پی پیز سے بجلی کی پیداوار طلب سے بھی زیادہ ہوگئی لیکن حکومت کی اضافی بجلی کی پیداوار پر کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی، عالمی مارکیٹ میں خام مال کی قیمتوں میں اضافے، ملک میں قدرتی گیس کے ذخائر میں کمی اور مہنگی LNG کی امپورٹ کے باعث آئی پی پیز سے پیدا کی جانیوالی بجلی کی قیمتیں عام صارفین اور صنعتی سیکٹر کی برداشت سے باہر ہوگئیں ۔ پاکستان میں بجلی کے موجودہ نرخ 50 روپے فی یونٹ تک پہنچ گئے ہیں جس میں 20فیصد بجلی کے فرسودہ تقسیم اور ترسیل کے نظام (T&D) کے نقصانات، بجلی کی چوری اور 10 فیصد بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی بھی شامل ہے جو صارفین سے وصول کئے جارہے ہیں۔
پاکستان 36000سے 37000میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ موسم گرما میں بجلی کی طلب زیادہ اور موسم سرما میں کم ہوجاتی ہے۔ 2018-19ءمیں ہم نے 14.5ارب ڈالر کا فرنس آئل اور 3ارب ڈالر کی LNG امپورٹ کی اور اس طرح ہم نے مہنگے ایندھن کی امپورٹ پر تقریباً 18ارب ڈالر خرچ کردیئے جس کی وجہ سے ہماری امپورٹ 80ارب ڈالر تک پہنچ گئی جبکہ ایکسپورٹ بمشکل 30ارب ڈالر رہی اور 50ارب ڈالر کے تجارتی خسارہ ملکی زرمبادلہ کوکم ترین سطح پر لے آیا۔ اس وقت پاکستان میں قدرتی گیس سے 32.3فیصد، ہائیڈرو سے 24.7فیصد، فرنس آئل سے 14.3 فیصد، کوئلے سے 12.8فیصد، نیوکلیئر سے 8.8فیصد، ہوا سے 4.8فیصد، سولر سے 1.4 فیصد اور بگاس (فضلے) سے 1فیصد بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی سب سے مہنگی 25.15روپے فی یونٹ ہوتی ہے جبکہ ہائیڈرو سے پیدا ہونے والی بجلی سب سے سستی 4روپے فی یونٹ، کوئلے سے 6.34روپے، LNG اور قدرتی گیس سے 7.58روپے فی یونٹ پڑتی ہے جبکہ حکومت گوادر میں ایران سے 9روپے فی یونٹ بجلی خرید رہی ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں ہوا، سورج اور پانی سے بجلی پیدا کرنے کے ذرائع مفت دستیاب ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے اور متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کیلئے 2003ءمیں آلٹرنیٹو انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ (AEDB) بنایا گیا تھا جس کا مقصد نیوکلیئر، شمسی، ہوا اور بائیو ڈیزل سے توانائی کے حصول کو ممکن بنانا تھا۔ حکومت کی نئی پالیسی کے مطابق مستقبل میں 55سے 60فیصد بجلی پانی اور کوئلے سے جبکہ 7سے 10فیصد بجلی ہوا، سورج اور دیگر متبادل ذرائع سے پیدا کی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو دنیا کے تیسرے بڑے 185ارب ٹن کوئلے کے ذخائر عطا کئے ہیں۔ چین اس وقت کوئلے سے اپنی 75فیصد اور بھارت 54 فیصد بجلی پیدا کررہا ہے جبکہ پولینڈ، جرمنی اور جنوبی افریقہ میں کوئلے سے 70سے 80 فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں کوئلے سے صرف 12.8فیصد بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ اسی طرح اللہ نے ہمیں پورے سال سورج کی روشنی سے نوازا ہے۔ سندھ کے علاقے گھارو اور جھمپیر میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کیلئے ہوا کی بہترین رفتار پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں انرجی بحران سے چھٹکارہ اور سستی بجلی کیلئے نیوکلیئر انرجی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے اور چین کے تعاون سے چشمہ I، II، III اور IV سے مجموعی 1200 میگاواٹ سول نیوکلیئر انرجی بجلی پیدا کررہا ہے جو ملک کی مجموعی بجلی کی پیداوار کا 8.8 فیصد ہے۔ وزیراعظم نے کراچی میں 1100میگاواٹ کے کینپ K-2 پروجیکٹ کا افتتاح کیا ہے اور چینی مالی امداد سے پنجاب میں 1200میگاواٹ کے چشمہ V بھی ایکنک سے منظور ہوچکا ہے جس کی مالی لاگت 3.5ارب ڈالر ہے اور یہ منصوبہ 7سے 8سال میں پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ ان منصوبوں کے مکمل ہونے کے بعد پاکستان 2500میگاواٹ بجلی سول نیوکلیئر انرجی پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہوجائیگا جس کا تمام تر سہرا چین، ہمارے سائنسدانوں اور فوجی قیادت کو جاتا ہے۔ملک میں بجلی کی قابل برداشت قیمتوں کیلئے ہمیں توانائی کے متبادل ذرائع سے مقامی فیول کے ذریعے سستی بجلی پیدا کرنا ہوگی تاکہ مہنگے درآمدی فرنس آئل اور LNG پر انحصار کم ہو۔