سائفر کیس میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو 2 دن مزید جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا گیا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے 3 روز کا جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر شاہ محمود کو سیکرٹ ایکٹ عدالت میں پیش کیا گیا۔
سماعت کا آغاز ہوا تو جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی عدالت کے باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے جبکہ غیر متعلقہ افراد کو کمرۂ عدالت سے باہر نکال دیا گیا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی، پی ٹی آئی وکلاء بابر اعوان اور شعیب شاہین سیکرٹ ایکٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت ایف آئی اے نے شاہ محمود قریشی کا مزید 5 روزہ جسمانی ریمانڈ مانگ لیا۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے بھی شاہ محمود کے مزیدجسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے بھی شاہ محمود قریشی کا موبائل برآمد کرنے کیلئے مزیدجسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔
وکیل صفائی بابراعوان نے ایف آئی اے کے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے مختلف اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔
وکیل صفائی بابراعوان نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کا سائفرکیس سے کوئی تعلق نہیں۔
بابراعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل90 ،91 کے تحت شاہ محمود قریشی کا سائفر سےکوئی لینا دینا نہیں۔
وکیل صفائی بابراعوان نے آئین کے آرٹیکل 90،91 کو سیکرٹ ایکٹ عدالت میں پڑھ کر سنایا۔
شاہ محمود قریشی نے دوران سماعت بتایا کہ ان کا موبائل پہلے سے ایف آئی اے کے پاس ہے جبکہ سائفردستاویز وزارت خارجہ کے پاس ہے۔
اس سے قبل سیکرٹ ایکٹ عدالت اسلام آباد نے شاہ محمود قریشی کے آنے تک سائفر کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا گیا تھا۔
سماعت کے آغاز میں وکیل صفائی بابر اعوان نے استدعا کی کہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی اجازت چاہیے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا وائس چیئرمین پی ٹی آئی سے ملنے سے نہیں روکا جاسکتا، ان سے تاحال ملنے نہیں دیا گیا۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کا کیس ساڑھے 11 بجے مقرر کر دیں، جس پر جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ ساڑھے11 تو بہت تاخیر ہو جائے گی۔
وکیل صفائی نے کہا کہ ممکن ہے تو شاہ محمود قریشی کو جلد پیش کرا دیں، میرے لیے آسان ہو جائے گا۔