صدر ایّوب خان کو سب سے پہلے یہ اطلاع دینے والے کہ’’ بھارت نے لاہور کے محاذ پر حملہ کردیا ہے‘‘، ائیر کموڈور اختر تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ موبائل آبزرور یونٹ (MOU) کا ایک ائیر مین، جسے لاہور کی سرحد پر سب سے اگلی پوزیشن پر تعیّنات کیا گیا تھا، پہلا شخص تھا، جس نے6 ستمبر کی صبح سب سے پہلے پاکستان کی مقدّس سرزمین پر بھارتی فوجیوں کو اپنے ناپاک قدم رکھتے دیکھا اور فوراً اسٹیشن کمانڈر، لاہور کو خبر پہنچائی۔ اسٹیشن کمانڈر نے ائیر مین کو واپس چیک پوسٹ پر بھیج دیا اور عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ائیر کموڈور اختر کو اطلاع دی، جو ائیر چیف کی جانب سے کمانڈ آپریشن سینٹر میں فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ اُنھوں نے صبح4:30 پر صدر ایوب کو فون کر کے جگایا اور یہ خبر سُنائی کہ دشمن نے لاہور کے محاذ پر حملہ کردیا ہے اور ساتھ ہی ائیر چیف مارشل، نورخان کو بھی یہ اطلاع پہنچا دی۔
زینبو فارمیشن کے لیڈر، اسکواڈرن لیڈر سجّاد حیدر نوری بیان کرتے ہیں کہ’’ ہم نے دن طلوع ہوتے ہی پشاور سے دشمن پر جارحانہ حملے کے لیے پرواز کا آغاز کیا۔ ہمارا بنیادی ہدف سیال کوٹ کے قریب دشمن کی آرٹلری توپیں تھیں، جو پشاور سے ہماری جنگی حدود کا آخری سرا بنتا تھا۔‘‘اُنھوں نے پرواز کی رینج بڑھانے کے لیے اپنی پروفائل Hi Lo Hi منتخب کی،اس کا مطلب ہے، ہدف کی طرف جاتے ہوئے دشمن کے ریڈار کی نظر میں آنے کے باوجود بلندی پر اُڑا جائے تاکہ ایندھن بچ سکے، پھر کم بلندی پر آکر ہدف کو نشانہ بنایا جائے اور واپسی پر کم بلندی پر رہتے ہوئے اپنی فضائی حدود میں داخل ہوکر دوبارہ جہازوں کو بلندی پر اُڑایا جائے۔
اُن کا مزید کہنا ہے کہ’’ ہم نے دشمن کے ریڈار کو دھوکا دینے کے لیے گوجرانوالہ کے قریب کم بلندی پر آنے کی ابتدا کی اور جَسر کے قریب اپنے ہدف سے سطحِ زمین سے صرف 50فِٹ کی بلندی پر آگئے۔ خوبیٔ قسمت، اُس روز تقدیر نے ہم خوش نصیب ہوا بازوں کے لیے ستمبر 65ء کی جنگ کا سب سے بڑا فضائی معرکہ لکھ رکھا تھا۔ اچانک ریڈیو پر اُبھرنے والی آواز نے ہم6 عقابوں کو چونکا دیا۔ ائیر ڈیفینس ہیڈ کوارٹر سے سینئر ائیر اسٹاف آفیسر، ائیر کموڈور، مسرور حسین اعلان کر رہے تھے کہ”سجّاد حیدر فوراً اپنا ہدف تبدیل کرلو اور لاہور کے نواح میں اٹاری گائوں کی جانب بڑھو،جہاں سے بھارتی ٹینک سرحد پار کرکے پاکستانی حدود میں داخل ہو چُکے ہیں اور اب لاہور میں داخل ہونے والے ہیں۔“
اِس اعلان نے ہوا بازوں کے لہو کی گردش انتہائی تیز کردی کہ’’دشمن، پاکستان کے دل، لاہور پر حملہ کرنے والا ہے۔‘‘بھارتی منصوبہ سازوں کو اپنے حملے کی کام یابی کا اِتنا یقین تھا کہ5ستمبر کو نئی دہلی میں آرمی چیف نے آدھی رات کو ایک بڑی پریس کانفرنس طلب کی، جس میں مَن پسند بھارتی صحافیوں اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں میں شائع شدہ دعوت نامے تقسیم کیے گئے، جس میں اُنہیں لاہور پر قبضے کا جشن منانے کے لیے لاہور جم خانہ کلب میں وہسکی کے جام پلانے کی دعوت دی گئی تھی، لیکن ان منصوبہ سازوں نے اپنے منصوبے میں جس اہم عُنصر کو بُھلا دیا تھا، وہ پاکستانی فوجی جوانوں اور افسران کا شوقِ شہادت تھا۔
بھارتیوں کے منصوبے کے مطابق ،لاہور اور قصور پر باری باری قبضہ کیا جانا تھا۔ حملے کا آغاز عین منصوبہ بندی کے تحت صبحِ کاذب سے پہلے کر دیا گیا۔ واہگہ سرحد پر موجود مُٹھی بَھر پاکستانی افسروں اور جوانوں نے اُنھیں کئی گھنٹے روکے رکھا، خصوصاً تھرڈ بلوچ،17 پنجاب اور ایک دوسری کمپنی نے ، جس کے ہر فوجی نے جامِ شہادت نوش فرمایا، بے مثال کارنامہ سرانجام دیا، یہاں تک کہ پاک فضائیہ نمبر 19 اسکوارڈن کے6 سیبر طیارےF-86 اُن کی مدد کے لیے پہنچ گئے۔اِن واقعات کی تفصیلات بھارت سے تعلق رکھنے والے مصنّفین، جگن موہن اور سمیرا چوپڑا نے : Indo-Pak war of 1965مطبوعہ 2005، صفحہ نمبر 102 میں بیان کی ہیں۔
پشپندر سنگھ اور روی رائیکی صفحہ33 پر یہی کچھ لکھتے ہیں کہ ’’جب پاک فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کی چوکیوں (ائیر بیسز) کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا، تو عین اُسی وقت لاہور جی ٹی روڈ کے ساتھ پیش قدمی کرتی بھارتی فوج پر صبح ساڑھے 9 بجے نمبر19 سکواڈرن کے چھے طیاروں نے حملہ کر دیا۔Jat 3ڈویژن کی ہر اول بٹالین پر، جس کی سربراہی لیفٹیننٹ ڈیمسنڈ ہائیڈ کر رہے تھے، پاک فضائیہ کے سیبر طیاروں نے فضا سے فائرنگ کی اور راکٹ برسائے۔
یونٹ کی تمام آر سی ایل توپیں اس حملے میں تباہ ہو گئیں۔ ہائیڈ کی بٹالین کی مدد کے لیے بھیجے گئے شرمن ٹینکس کے ایک گروپ کو فضا سے حملہ کر کے ناکارہ بنا دیا گیا۔ Jat 3کی واپسی ایک بڑی ناکامی تھی۔‘‘بھارتی میجر جنرل، لچھمن سنگھ نے اپنی کتاب ’’Missed Opportunities‘‘ میں 6 ستمبر کے واقعات کی تصویر کشی اِس انداز سے کی ہے کہ’’ہائیڈ نے پیش قدمی کے احکامات جاری کرنے کے لیے اپنے گروپ کو جمع کیا (ہائیڈ۔ آئر لینڈ یا اسکاٹ لینڈ نژاد بھارتی تھا)، اُس کی اسلحہ بردار گاڑیاں سڑک پر رُکی ہوئی تھیں اور وہ جیپوں پر نصب آر سی ایل گنز، بٹالین کی توپوں اور اوزاروں پر مشتمل تھیں، لیکن اِس سے پہلے کہ وہ پھیل کر خود کو کیموفلاج کرتے، آسمان پر چھے F-86 طیارے نمودار ہوئے اور اُنہوں نے 15 منٹ تک آرام سے ہر گاڑی کو نشانہ بنا کر تباہ کر دیا۔ آرٹلری او آر پی آفیسرز بھی ہلاک ہو گئے اور ایک بھی باقی نہ بچا۔‘‘ جنرل سخونت سنگھ اپنی تصنیف’’Defence of Western Border‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ بٹالین کے سی او (کمانڈنگ آفیسر )اپنی بٹالین کو چھوڑ کر ایک جراب اور ایک جوتا پہنے واپس بھاگ گئے تھے۔ اُن کے سکینڈ اِن کمانڈ (ماتحت) بھی سائیکل پر بھاگے اور امرتسر کے قلعے میں پناہ لی۔ بعد ازاں، ان دونوں کو کورٹ مارشل کرکے عُہدوں سے برطرف کر دیا گیا۔
سجّاد حیدر بیان کرتے ہیں کہ’’ صُورتِ حال انتہائی خراب تھی کہ ہم زمین سے بہت قریب پرواز کر رہے تھے اور ہر ہوا باز کو نشانہ بنائے گئے ہدف کے پَھٹتے اور جلتے ملبے کے اوپر سے گزرنا پڑتا تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے طیارہ شکن توپوں کی گولا باری میں پرواز جاری ہو۔ اور ساتھ ہی اِس بات کا بھی اندیشہ تھا کہ کہیں بھارتی جہاز اپنے ٹروپس کی مدد کے لیے نہ آجائیں۔ لہٰذا، مَیں نے نمبر 5 اور 6 کو کال کر کے سات ہزار فِٹ کی بلندی سے دشمن کے جہازوں کو فضا میں تلاش کرنے کو کہا کہ اگر کوئی ہمارے حملوں میں مداخلت کرے، تو اُس سے مقابلہ کرسکیں۔
دوسرے حملے کے دَوران معلوم ہوا کہ اسکواڈرن لیڈر، مارون مڈل کوٹ اپنے F-104 لڑاکا طیارے کے ہم راہ لڑائی میں داخل ہو چُکے ہیں، یہ ایک خدائی مدد تھی اور ہمارے لیے نیک شگون تھا۔ مَیں نے نمبر 5 اور 6 کو حملے جاری رکھنے کے لیے واپس بُلا لیا، کیوں کہ اب F-104 ہمیں ضروری آڑ مہیّا کر رہا تھا۔ ایک مال بردار گاڑی دِکھائی دی، جس پر توپ خانہ نصب تھا۔ وہ میرا اگلا ہدف تھا۔ چوتھے حملے میں میرے راکٹ ختم ہو چُکے تھے۔ نمبر 6 نے بتایا کہ بیرونی ایندھن ختم ہو چُکا ہے اور اندرونی ایندھن بھی صرف اِتنا ہی ہے کہ ہم پشاور تک پہنچ سکیں۔ مَیں نے اُسے حکم دیا کہ حملے جاری رکھو، واپسی پر ہم سرگودھا لینڈ کریں گے اور وہاں سے یہ کمی پوری کر لیں گے۔
یوں ہم نے دشمن کے لاہور پر حملے کے جواب میں واہگہ کے قریب اُسے آگ کے شعلوں کے حوالے کر دیا۔‘‘ اٹاری میں ایک فوجی قبرستان ہے، جہاں شہداء کی قبروں کے درمیان ایک چھوٹی سی یادگار بھی موجود ہے، جس پر نمبر19 اسکوارڈرن کے ہوا بازوں کے معرکے کی کہانی زرّیں الفاظ میں تحریر ہے۔ اِس دفاعی جنگ کی بھرپور طریقے سے یاد دہانی بہت ضروری ہے، جو عزیز بھٹّی، شفقت بلوچ، تجمّل حسین اور چند دوسرے دلیر جوانوں نے لڑی اور لاہور کا دفاع کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔
ستمبر 65ء کی جنگ میں بھارتی فضائیہ گکھڑ ریلوے اسٹیشن پر ایک مسافر ٹرین پر حملے میں مصروف تھی اور پھر مایوسی کے عالم میں چار Mysteres طیاروں نے جب کچھ نہ پایا، تو قصور ریلوے اسٹیشن پر کھڑے ایک تانگے پر حملہ کر دیا ۔ اس کے علاوہ، اکھنور سیکٹر میں کیے جانے والے بھارت کے کلوز ائیر سپورٹ کے مشن، ایک ایسی فضائیہ کی نشان دہی کر رہے تھے، جو بُری تربیت اور بدتر قیادت کی حامل ہونے کی وجہ سے غیر اہم جگہوں پر اپنا وقت ضائع کر رہی ہو۔ جب کہ ان کی آنکھوں کے سامنے بھارت کی حملہ آور برّی فوج کو پاک فضائیہ تباہ کر رہی تھی۔ اچھو گل نہر پر اِس قدر بڑا آپریشن بھارتی فضائیہ کی نظروں سے اوجھل رہا۔ حیرت ہے، بھارتی مصنّفین نے اِس ناقص کارکردگی پر کوئی تنقید نہیں کہ جو بالآخر پاک فضائیہ کی کام یابیوں کا حصّہ بن گئی۔
7 ستمبر کی صبح بھارتی فضائیہ کے10 اسکواڈرنز ڈھاکا میں ہمارے اکیلے اسکواڈرن کا نام و نشان مِٹا چُکے ہوتے، اگر ائیر چیف مارشل، نور خان نے پیش قدمی نہ کی ہوتی۔مشرقی سیکٹر میں اسکواڈرن نمبر 14 نے پیشگی حملوں کی وجہ سے خود کو محفوظ رکھا۔ ایسے ہی سرفراز رفیقی کا ہلواڑہ پر حملہ، نمبر19 اسکوارڈن کا پٹھان کوٹ، جمّوں اور سری نگر ریڈار پر حملہ، نمبر32 اور 33 فلائنگ ونگز کا امرتسر ریڈار پر حملہ 1965ء کی جنگ میں بھارت کے خلاف ہونے والے جارحانہ پیشگی آپریشنز کی نمایاں مثالیں ہیں۔1300 میل کے فاصلے پر دشمن کے9 سے دس اسکوارڈرن میں گِھرے ڈھاکا کے نمبر 14 اسکواڈرن کے پاس صرف دس عدد F-86لڑاکا طیارے تھے، لیکن ان میں کچھ کر گزرنے کا عزم تھا۔
ان کے اسٹیشن کمانڈر، گروپ کیپٹن غلام حیدر بھی لڑنے مرنے کا فیصلہ کیے بیٹھے تھے، اِس لیے اُنہوں نے جام نگر جیسے دُور افتادہ ہدف کے خلاف 7ستمبر کو تین حملے کر کے اُنہیں حیران کر دیا اور بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ نمبر14 اسکواڈرن کے کلائی کنڈہ اور باغ ڈوگرا کے حملے بھی قابلِ ذکر ہیں۔ 7 ستمبرکی صبح چھے بج کر پانچ منٹ پر پاک فضائیہ کے گشتی دیدبانوں نے سرگودھا کی جانب بڑھتے چھے ہنٹر طیاروں کی نشان دہی کی۔ فضائی حربی گشت پر مامور چار ایف 86 اور ایک ایف 104 طیاروں کا دشمن سے بصری رابطہ اُس وقت ہوا، جب دشمن کے طیارے فضائی مستقر ،سرگودھا کو نشانہ بنانے کے لیے لپکنے والے تھے۔
ہمارے طیارے نیچی پرواز کے ساتھ دشمن کے طیاروں کے تعاقب میں تھے، جو120 درجے کے زاویے سے واپسی اختیار کر رہے تھے، بالآخر ایک ایف104 اور چار ایف86 طیارے دشمن کے ہنٹر طیاروں کے پیچھے لگ گئے۔ دشمن کے طیارے چار چار کی ترتیب میں پرواز کر رہے تھے، جب کہ ایک ہنٹر آزادانہ پرواز کرتا دِکھائی دیا۔ ایف86طیاروں کی اگلی فارمیشن کے قائد، اسکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے سب سے پہلے ایک ہنٹر طیارے کو اپنے میزائل سے نشانہ بنانے کی کوشش کی، مگر پہلا میزائل نشانے پر نہ بیٹھ سکا اور زمین میں پیوست ہو گیا، البتہ دوسرا میزائل نشانے پر لگا اور دشمن کا طیارہ فضا میں بکھر گیا۔
بعدازاں اُنھوں نے دشمن کے مزید چار ہنٹر طیاروں کی صف کا رُخ کیا۔ بھارتی ہوا بازوں نے ایف-86 کو جُل دینے کے لیے تیزی سے اپنا رُخ بدلا، لیکن ایم ایم عالم نے اُن کا پیچھا نہ چھوڑا اور یکے بعد دیگرے چاروں ہنٹر طیارے زمین بوس کر دئیے۔ دشمن کا پہلا ہنٹر طیارہ دریائے چناب کے قریب نشانہ بنا، جب کہ دیگر چار ہنٹر طیارے عین مشرق کی سمت ڈھیر ہوئے اور ہمارے سب طیارے بخیریت واپس لینڈ کر گئے۔
اسکوارڈن لیڈر، سرفراز رفیقی کو خاصی دیر انتظار کے بعد بھی آٹھ سیبر طیاروں کی جگہ صرف تینF-86 فراہم کیے گئے۔ جب اُن کی فارمیشن فضا میں بلند ہوئی، تو سرحد پار ہدف بنائے جانے والے متوقّع علاقوں میں دن کی روشنی تیزی سے کم ہو چُکی تھی۔ اِس سے پہلے پاک فضائیہ کے جہاز پٹھان کوٹ اور آدم پور پر حملے کے بعد واپس آرہے تھے۔ رفیقی کو بقول نمبر2 سیسل چوہدری، آنے والے وقت کا ادراک ہو چکا تھا اور وہ مبیّنہ طور پر کہہ چُکے تھے کہ یہ’’وَن وے مشن‘‘ بنتا جارہا ہے۔
بھارتی فضائیہ اپنی دوسری چوکیوں پر حملے سے نبٹنے کے لیے پہلے سے تیار کیپ (سی اے پی)مشن بلواڑہ بیس کی حفاظت کے لیے اُڑا چکی تھی۔بُچ احمد کی فارمیشن کا ٹکرائو دشمن کے ہنٹر طیاروں سے ہو چُکا تھا، اِسی لیے اُنہوں نے رفیقی سے رابطہ کر کے محتاط رہنے کا کہہ دیا تھا، یہاں تک کے رفیقی کے جہاز ہلواڑہ کے قریب پہنچ گئے۔ ونگ مین نمبر 2 سیسل کے مطابق، دیر ہو جانے کی وجہ سے حدِ بصارت بہت کم ہو چُکی تھی اور1500 فٹ کی بلندی سے زمینی خدّوخال بہت دھندلے دِکھائی دے رہے تھے، یہاں تک کہ انہیں200 فٹ کی بلندی پر آنا پڑا۔
اگلے پانچ منٹ تک بھی تلاش کے باوجود ائیر فیلڈ دیکھنے میں ناکام رہے۔ رفیقی ہدف کو نہ پہچاننے میں ناکامی کے بعد بجا طور پر باحفاظت واپسی کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ اُنھیں جنوبی آخری سرے پر’’ سی اے پی‘‘ جہاز دِکھائی دئیے۔ رفیقی نے جن پہلے دو ہنٹر طیاروں کو دیکھا، اُن کے لیڈر کو کام یابی سے نشانہ بنایا اور نمبر3 یونس دوسرے ہنٹر طیارے کے، جسے فلائنگ آفیسر گاندھی اُڑا رہے تھے، تعاقب میں گئے اور اُسے مار گرایا۔ تیسرے اور چوتھے ہنٹر نے رفیقی اور یونس کو نشانہ بنایا۔ چوں کہ رفیقی کی گنز جام ہو چُکی تھیں اور سیسل فارمیشن سے بچھڑ کر واپسی کا رُخ اختیار کر چُکے تھے، اِس طرح ہمارے دو با کمال ہوا باز شہید ہو گئے۔
ان کے جہاز ہلواڑہ کے مغرب میں چھے میل کے فاصلے پر’’ ہرن‘‘ نامی گائوں کے قریب کریش ہوئے۔ سرفراز رفیقی اور یونس کی اعلیٰ کارکردگی اور معرکہ آرائی اِس قابل تھی کہ اُنہیں شجاعت کا اعلیٰ ترین اعزاز، نشانِ حیدر دیا جاتا، اِسی طرح بقول ریٹائرڈ ائیر کموڈور سیّد سجّاد حیدر نوزی، پاکستانی حکومت کو نئی دہلی میں موجود ڈیفینس اور ملٹری اتاشی کے ذریعے کوشش کرنی چاہیے تھی کہ سرفراز رفیقی اور یونس جیسے شہداء کی لاشیں پاکستان واپس لائی جاتیں تاکہ قوم اپنے ہیروز کی یادگاروں پر حاضر ہو کر فاتحہ پڑھتی اور اُنھیں خراجِ عقیدت پیش کرسکتی، جیسا کہ بنگلا دیش نے اپنے فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمٰن کی باقیات حاصل کرنے میں کام یابی حاصل کی تھی۔