• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تجارانِ دل و خریداران ِ متاع ِ غم بچشم چھم چھم مسافرِ چہارم کی ڈائری بصورت سفر نامہ درویش بہ زبانِ درویش یوں سناتے ہیں کہ :
’’مسافر شب کو اٹھتا ہے جو جانا دور ہوتا ہے …آخرِ شب کا اُٹھا یہ آفت رسیدہ دشوار گزار گھاٹیوں اور پہاڑیوں کو عبور کرتا جنگل سے وادی مقصود پہنچا تو اس شہرِ پراسرار میں مسافرِ خوار کو کچھ سجھائی نہ دیوے تھا ۔ سبحان تیری قدرت کہ تیرے تِیرہ خاک داں میں کجا جنگل بیاباں اور کجا ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است کے مصداق دیدہ زیب مستورات کا جہاں مثلِ پرستاں ، لبادے جن کے بدنی نشیب و فراز کے ترجماں ۔ جنگل میں روش اندر روش اشجارِ شیشم و چنار اور یہاں دیو ہیکل عمارتیں و خود کش بمبار قطار اندر قطار ۔ یہ خاک زادہ ساکنانِ ملکِ عجیب و غریب سے مرعوب تھا ، جنہیں بنتِ حوا کے چہرے پر نقاب اور تیزاب ڈالنا مرغوب تھا ۔
درویشِ سادہ اس شہرِ عجوبہ کاسراپا اشتیاق نظارہ کرتاتھا اورآفریں آفریں کہتا تھا۔ ناگاہ ایک مردِ با کمال مانند ِ مادھو لال کو دیکھ کے صدا دی تاکہ اس سے دریافت کروں کہ اس شہرِ پُر فریب میں مسافروں سے کیا سلوک ہوتا ہے اور ان کے قیام و طعام کے واسطے کیا انتظام و انصرام ہے ؟ ولے وہ میری پکار پر نہ ٹھہرا۔ عقب سے جا کر اس کے کاندھے پر ہاتھ دھرا اور گویا ہوا کہ یا اخی ،اے برادرِ خوش سامع …ظالم نے یک لخت پلٹ کر ایک چمانٹ بندئہ عاجز کے رخسار پر جڑا اور ساتھ ہی زنانہ نوائے درشت پردہ سماعت سے ٹکرائی ’’ ابے او کلموہے ! تو نے کیا سمجھ کے اپنا دستِ بد ایک غیر عورت کے کاندھے پر دھرا؟ ‘‘ بصد شرمساری جرمِ دیدار و لمسِ بے اختیار پر معافی کا طلب گار ہوا اور روانہ بازار ہوا۔ پھر ایک رشکِ گلزار بی بی کو تاکا کہ اکیلی کھڑی اپنے موبائل پر انگشتِ شہادت ٹکا ٹک چلاوے تھی ۔ عجلت میں جا کے سلام جھاڑا اور خطاب کیا کہ اے بہن! اے نیک بخت … اس ستمگر نے سلام نہ دعا نہ تسلیمات ، گھما کے ایک لات ِ با کرامات اس مسکین زادے کی کمر پر جمائی اور پھر مردانہ نوائے کرخت ابھری کہ اے بینائی و دانائی کے اندھے ! تو ہے نظر نہ آوے ہے کہ اک گھبرو شیر کو بہن بلاوے ہے ، یہ جسارت کہاں سے پاوے ہے ؟ اس عنایتِ خسروانہ کے بعد فقیر کو مزید کسی خضر کی حاجت نہ رہی ۔ پس ایک حاملِ رکشہ سے عرض کیا ’’اے صاحبِ درد ! اگر خادم کو کسی گوشہ عافیت میں پہنچاوے گا توموافق اپنی مرضی و منشاء کے معاوضہ پاوے گا‘‘ اس نے فرمایا کہ مطلق غم نہ کھا اور رکشے میں بیٹھ جا۔بعد سفرِ جان لیوا بیرونِ شہر نزد کچی بستی اس نے اتارا تو مسکین زادے نے قبل مسیح کی اس کچی آبادی کا ایک چکر لگایا ، جس پر آسیبِ غربت کا مہیب سایہ ۔ پس خاکسار واپس سڑک کنارے آیا اور ٹاہلی کے نیچے گدڑی بچھا کے ڈیرہ جمایا۔
اگلے دن صبح دلنواز کا سمے تھا کہ اچانک ایک ماہ رخِ کنجاہ، مالکِ حسن بے پناہ ، مثل ِ ہیر وارث شاہ اپنی چمکتی موٹر سے اس ادائے دلربا کے ساتھ اتری کہ جیسے دل میں اتر رہی ہو۔ واللہ! اس کے عارض و رخسار سے شفق کے رنگ پھوٹتے تھے اور آفتاب ان سے روشنی مستعار لیوے تھا۔ وہ بادامی چشم قیامت کی چال چلتی میری پیوند لگی گدڑی پر آ کے بہ عجز و انکسار بیٹھ گئی تو ٹاٹ مخمل ہو گیا اور مغرور اس کا ہر کھٹمل ہو گیا ۔ جھگی فقیراں آباد ہو گئی اور طبیعت اس گناہگار کی شادہو گئی ۔ معلوم پڑا کہ وہ ودلِ ناداں کے جھانسے میں آوے تھی اور واسطے اپنے خاوندِ بادہ خوار و ناہنجار سے خلع لینے قاضی کی عدالت جاوے تھی تاکہ اپنے رانجھے کے عقد میں آ وے اور من کی مراد پاوے۔ دھت تیرے کی ! وہ اس حقیر کو کوئی اللہ والا اور پیر سمجھی تھی جو اسے تعویذ و دعا دیوے کہ قاضی کا دل پگھلا دیوے ۔ اس درویشِ نیم خواندہ نے عرض کیا کہ بی بی میں تو خود مجسمِ خطا ہوں اور محتاجِ دعا ہوں ۔ اس جاہل حسینہ نے اس سخنِ انکسارانہ کو اداے فقیر ی جانا اور آنکھوں سے جمنا بہائی تو عاجز کے دلِ نابکار میں پشیمانی اتر آئی ۔ پس واسطے اس کا دل رکھنے کہہ دیا کہ جا بی بی فقیر ابن فقیر نے تیرے لیے دعا کی ۔ وقتِ دوپہر یہ غریب زادہ بعد از آوارگی سستاتا تھا کہ وہ کافر ایسی شاداں و فرحاں لوٹی کہ اس کے پائوں زمین پر نہ پڑتے تھے ۔قاضی نے اس کے حق میں فیصلہ سنایا تھا اور اس بندئہ سادہ کو پھنسایا تھا ۔ وہ بے وقوف اپنے دودھیا ہاتھوں سے اس گناہگار کے پائوں دباوے تھی اور لوگوں کو اس کی کرامات سناوے تھی ۔ شرم سے خاکسار کی پیشانی کا پسینہ مثلِ چناب بہتا تھا مگر واللہ! بڑا دلفریب ماحول تھا اور بندے کا دل ڈانواں ڈول تھا ۔ سخت نفس کشی کا مرحلہ طے کر کے حسینہ گل بدن کو اپنے پائوں سے اٹھایا تو اس امیر زادی نے بھاری نذرانہ میری گدڑی کے نیچے دبایا۔
’’شامتِ اعمالِ ماصورتِ نادر گرفت‘‘ اس خطاکار کی شہرت شہر میں بکھرے گند کی طرح پھیل گئی کہ پہنچا ہوا بزرگ جنگل سے وارد ہو اہے ۔ پس جو بھی اس کے پاس جاوے ہے ،من کی مراد پاوے ہے ۔ عاجز بڑا چلایا کہ مَن آنم کہ من دانم ، مگر عقل کے اندھوں کو بجز میری کراماتِ نام نہاد و بے بنیاد کے کچھ سجھائی نہ دیوے تھا کہ پیر پوجا و شخصیت پرستی ان کی گھٹی میں پڑی تھی ۔بخدا! ضعیف الاعتقاد مرد و زن کا ہجومِ بے کراں اس ناتواں پر بل پڑا۔ کوئی کسی لڑکی سے چکر چلاوے تھا مگر اس کا باپ روڑے اٹکاوے تھا تو کوئی اس بے نواسے اپنے محبوب کو قدموں میں ڈھیر کراوے تھا ۔ کوئی اپنی ساس کا میرے تعویذ سے دھڑن تختہ کراوے تھی تو کوئی مجھ سے اپنے ٹھرکی مجازی خدا کو تارک العورات بنواوے تھی ۔ کسی کم عقل کے بھیجے میں یہ بات نہ آوے تھی کہ اگر یہ کم بخت اتنا ہی پہنچا ہوا ہوتا تو ٹاہلی کے نیچے پھٹی گدڑی میں پڑا ہوتا ؟
پھر ایک ملگجی شام سیاست کی عقربی کہکشاں کا ایک ستارہ آدھمکا ، جو عوام کے لیے کھوٹا تھا مگر اقتدار کے لیے لوٹا تھا۔ وہ بد عنوانی کا بحرِ بے کراں تھا مگر بتوسط میری دعا کے وزارت کا خواہاں تھا ۔ سخت غصے کے عالم میں اپنا عصا اس کی کمر پر جمایا تو اس بے حیا نے ضربِ ڈنڈا کو اس جعلی پیر کے مریدوں میں اپنا شمار جانا اور بیڑا پار جانا ۔ تیسرے دن کیا دیکھتا ہوں کہ پولیس کا چھکڑاہوٹر بجاتاتھا اور اس دو نمبرئیے کی موٹر پر جھنڈا لہراتا تھا ۔اس کے کارندوں نے مسکین زادے کو اٹھا کے موٹر میں ڈالا اور شہر سے باہر اس خزانہ چور کی ایک خالی حویلی میں پہنچایا ، جو درویش کا آستانہ قرار پایا ۔
واللہ! آستانے میں آباد ہو کے یہ حقیر بے ضمیر ہوا اور سب کا پیر ہوا ۔ یہ جھوٹا ’’سائیں سچی سرکار‘‘ مشہور تھا اور بڑا ہی مسرور تھا ۔ خرقہ پوش اب ریشم و کمخواب ہنڈاوے تھا اور من و سلویٰ اڑاوے تھا ۔ فاقہ کش چٹخورہ ہوا اور پرلے درجے کا مفت خورہ ہوا ۔ اس جاہلِ مطلق کے وارے نیارے ہوئے اور عقل کے کورے اس کے مرید سارے ہوئے ۔ میرے مصاحب و چیلے ساون میں مانندِ حشرات الارض نکل آئے ،جو دن رات چرس کے سُوٹے لگاتے تھے اور اس فراڈیے کے گن گاتے تھے ۔ آستانے میں کالا جادو اور تعویذ گنڈوں کی ریل پیل ہوئی اور دولت میری رکھیل ہوئی ۔ اس ریاکار کی عیاری بصد ہوشیاری سب پہ بھاری ہوئی اوررفع عاجزی و شرمساری ہوئی ۔ آستانہ کوچہ ماہ رخاں ہوا اور دلِ بے ایماں فرحاں ہوا۔ پس اب ہجومِ جاہلاں میں شیطان کی حکمرانی ہے اور شادماں اس مچھندر کی زندگانی ہے ۔
قصہ مختصر دوستو! اب رخصت درویشی کا قرینہ ہوا اور ساتھ ہمارا قصہ پارینہ ہوا۔ یہ ریاکار اب درویش نہیں ،بندئہ مکار ہے اور واسطے تم سہ درویشوں کی مصاحبت کے بے کار ہے ۔جنگل کی زندگی پر صد حیف ہے اور آستانے کے بغیر جادئہ زیست بے کیف ہے ۔ پس ’’سائیں سچی سرکار‘‘ تمہیں الوداع کہنے کے واسطے آئے تھے ، جو اب واپس آستانے کو جاویں ہیں کہ مریدانِ با صفا واسطے ان کی راہ دیکھنے کے ایڑیاں اٹھاویں ہیں ۔ اے رفیقانِ گزشتہ! اگر کبھی ضمیر اجازت دیوے تو ’’آستانہ عالیہ سائیں سچی سرکار‘‘ کا چکر ضرور لگانا کہ
کبھی تم اِدھر سے گزر کے تو دیکھو
بڑی رونقیں ہیں فقیروں کے ڈیرے‘‘
تازہ ترین