• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنانے کیلئے دنیا میں کسی کے پاس کوئی نئی کہانی نہیں ہے۔ ہر کہانی صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ کہانی سنانے والے بدل جاتے ہیں۔ کہانی سننے والے بدل جاتے ہیں۔ کہانی وہی رہتی ہے۔ کہانیوں کے کردار بدل جاتے ہیں۔ کہانیوں کے کرداروں کے نام بدل جاتے ہیں۔ مگر کہانی نہیں بدلتی۔ اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا ۔کہانی وہی گھسی پٹی، اور پرانی ہوگی۔ کہانی سنانے والے اور کہانی سننے والے بدل چکے ہونگے۔ ماضی کی ہزاروں برس پرانی روایتوں کو مدنظررکھتے ہوئے ہم آنے والے وقتوں یعنی مستقبل میں تھوڑی بہت تانک جھانک کا حق رکھتے ہیں۔ آثار نہیں دکھتے کہ آئندہ یعنی مستقبل میں سننے والوں کو نئی کہانی سننے کو ملے گی۔ ہماری طرح آنے والی نسلوں کوبھی سننے کے لیے پرانی کہانیاں ملیں گی۔آپ بیزار ہوکر پوچھ سکتے ہیں کہ سننے کیلئے ہمیں آخر نئی کہانی کیوں نہیں ملتی؟ اس کے کئی اسباب ہیں۔ مگر سب سے اہم سبب ایک ہے۔ صدیوں پرانے انسانوں کی بنیادی جبلتیں نہیں بدلتیں۔ گزرے ہوئے زمانوں اور آج کے دور کے انسانوں کے رویوں کی مماثلت دیکھ کرلگتا ہے جیسے ان میں ردعمل کی ایک جیسی ایپلی کیشن لگی ہوئی ہے۔ انسان چاہے قدیم دور کا ہو یا آج کے دورکا وہ محبت کرسکتا ہے، وہ آگ بجھا سکتا ہے۔ وہ تخلیق کرسکتا ہے، وہ تخریب کاری کرسکتا ہے۔ وہ درگزر کرسکتا ہے، وہ انتقام لے سکتا ہے۔ وہ نیکی کرسکتا ہے، وہ بدی کرسکتا ہے۔ وہ صبر کرسکتا ہے، وہ طیش میں آسکتا ہے۔ وہ ہار سکتا ہے، وہ جیت سکتا ہے۔ وہ گھمنڈی بن کر گھوم سکتا ہے، وہ عاجز اور ادنیٰ ہوسکتا ہے۔ انسانی ذات کی تاریخ میں آج تک ایک شخص ایسا پیدا نہیں ہوا ہے، جس میں کوٹ کوٹ کر خوبیاں بھری ہوئی ہوں اور اس میں کوئی خامی نہ ہو۔ نا معلوم صدیوں سے انسان اپنی اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ سفر کرتا رہا ہے۔ یہ دنیا انسان کی اچھائیوں اور برائیوں کیساتھ بنتی اور بگڑتی رہی ہے۔

کہانیاں لکھنے والے انہی لوگوں کی کہانیاں لکھتے ہیں۔ ان کی محبتوں اور ان کی نفرتوں کی کہانیاں لکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے عروج اور ان لوگوں کے زوال کی کہانیاں لکھتے ہیں۔ لکھنے والے ان لوگوں کے صبروتحمل اور ان کے خونخوار جنون کی کہانیاں لکھتے ہیں۔ انسان اپنی بنیادی جبلتوں کے ساتھ زندہ رہتا ہے، اور مرتے دم تک لکھنے والوں کو لکھنے کے لیے مواد مہیا کرتا ہے۔ انسان زندگی بھر اپنی جبلتوں سے الجھتا رہا ہے۔ کچھ جبلتوں کو قبول کرتا ہے، اور کچھ جبلتوں کا منکر بن جاتا ہے۔ چپقلش سے انکار کردیتے ہیں۔ وہ کسی سے ٹکرائو میں نہیں آتے اور احترام سے جینے دیتے ہیں۔ وہ کشمکش سے کبھی نہیں گھبراتے لکھنے والوں کو ان پیچیدہ کرداروں کے ردعمل کے لیے اتنا مواد ملتا ہے کہ وہ برسوں سے لگاتار ان کہانیوں پر افسانے، ناول اورڈرامے لکھتے رہے ہیں۔ صدیوں پرانا آدمی وہی، اس کے رویے وہی، اس کے عادات اطوار وہی، اس کی بنیادی جبلتیں وہی ۔یہی وجہ ہے ہر افسانہ،ہر ناول، ہر ڈرامہ پڑھا ہوا، سنا ہوا اور گھسا ہوا لگتا ہے۔ آپ کا عقیدہ کچھ بھی ہو، آپ کا تعلق چاہے کسی بھی مسلک سے ہو، آپ ان بنیادی جبلتوں سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ کچھ جبلتوں کے خلاف آپ لڑتے ہیں، حتیٰ الامکان کوشش کرکے آپ کچھ جبلتوں سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی کوششوں میں کبھی آپ کامیاب ہوتے ہیں اور کبھی ناکام ہوجاتے ہیں۔ مگر آپ کسی بھی صورت میں جبلتوں سے مکمل طور پر پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ جبلتوں میں تبدیلی نہیں آتی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو پڑھنے کے لیے نیا افسانہ نیا ناول نیا ڈرامہ نہیں ملتا۔

کچھ نیاکچھ مختلف لکھنے کاجنون اکثر لکھنے والوں کودامن گیر رہتا ہے۔ تب لکھنے میں آتی ہیںمافوق الفطرت کہانیاں، قصے ، حکایتیں، افسانے، ناول اور ڈرامے۔مافوق الفطرت قصے اور کہانیاں کسی ایک عقیدہ کے پیروکاروں تک محدود نہیں ہیں۔ ہر عقیدہ اور اعتقاد سے وابستہ لوگوں نے مافوق الفطرت قصے کہانیاں یاد رکھی ہیں اور احتمام سے شائع کروائی ہیں اور ڈراموں میں پیش کی ہیں۔ میں فقیر حیران ہوتا ہوں کہ عقیدے اوراعتقاد مختلف ہونے کے باوجود ان کی کئی ایک مافوق الفطرت قصے کہانیوں میں اسقدر مماثلت کیوں ہے؟ ان سب کی کہانیاں اور قصے اس قدر ملتے جلتے کیوں ہیں؟ میں تمام عقائد کا احترام کرتا ہوں۔ ہم مطلقاً ادب کے حوالے سے کھوج لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اشارتاً گستاخی ہوجائے تو اس کے لیے پیشگی معافی کا طلب گار ہوں۔سندھ کی ایک لوک کہانی جگ مشہور ہے۔ تھرپاکرکے فرمانروا عمرغریب مسکین دیہاتی لڑکی مارئی کی بے پناہ خوبصورتی اور عاجزی کے قصے سنتے سنتے اس پرفریفتہ ہوگیاتھا۔ایک روز وہ تن تنہا مارئی کے گائوں چلاگیا۔ مارئی دوسری عورتوں کے ساتھ ملکر کنوئیں سے پانی بھررہی تھی۔ مارئی کے بارے میں عمر نےجو سنا تھا وہ اس سے زیادہ خوبصورت تھی۔اس نے مارئی کو اٹھالیا، آج کل کے مروجہ انداز بیان کے مطابق مارئی کوعمر نے اغوا کرلیا اور اپنے محل عمر کوٹ لے آیا۔ ایک لمبے عرصہ تک ایک حاکم غریب لڑکی کی منت سماجت کرتارہا کہ وہ یعنی مارئی اس کے ساتھ شادی پررضا مند ہوجائے اور تھرپارکر پررانی بن کر راج کرے۔ مسکین اور عاجز مارئی نے اس کی ایک نہ سنی۔ وہ اپنے گائوں اور والدین اور رشتہ داروں کو یاد کرکے روتی رہی۔ فرمانروا عمرنےمارئی کی عاجزی اور وطن کے لیے لامحدود محبت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ عمر نے مارئی کے سر پر اجرک رکھی، اسے اپنی بہن کا درجہ دیا اور اسے اسکے گائوں چھوڑا ٓیا۔اس نوعیت کی کہانیاں ہمیں پڑھنے اور سننے کے لیے ہر عقیدہ اور اعتقاد کے معتقد اور پیروکاروں کے حوالے سے ملتی ہیں۔ کہانی یہاں تک آنے کے بعد ختم نہیں ہوتی۔مارئی جیسی لڑکیوں کو اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے اگنی پریکشا جیسی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگلے منگل کے روز ہم ان کہانیوں میں جھانک کر دیکھیں گے اور بنیادی سوال اٹھائیں گے۔

تازہ ترین