• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افواج پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں ۔پچھلے چند ماہ میں شہید ہونے والے سپاہیوں کی تعداد کسی طرح بھی کم نہیں ۔اس وقت دہشت گردی کا شکار دنیا بھر کے مسلمان ہیں اور مجھے افسوس سےکہنا پڑتا ہے کہ دہشت گرد بھی غیر مسلم نہیں ۔ ہاں غیر مسلموں کے آلہ کار ضرور ہیں ۔آئیے دہشت گردی کی تاریخ پر دستِ تحقیق رکھتے ہیں ۔

دہشت گردی کے فریم میں زمانہ قدیم سے آج تک ہر دورکے سنہرے اور سیاہ دِن موجود ہیں مگر ہم تاریخ کے گہرے اور اندھے کنوئیں میں اُتر کر ماضی کے قرطاس پلٹنے پر زیادہ دھیان نہیں دیتے ۔ اُن پر جمی ہوئی گرد جھاڑ کر بغور مطالعہ کیا جائے تو مسلط جابرحکمراں یا غالب ظالم کی آستین پر جمے ہوئے لہو کے دھبوں سے حنوط مِلے گا ۔ کیا کیا نہیں کیا گیا مظلوموں کے ساتھ ا ور کب ایسا نہیں ہوچکا ؟یہ سوال نہایت بچگانہ ہے۔

قدیم یونان کے مئورّخ زینوفون (431 - 350 BC ) کی تحریروں میں بھی دشمن آبادی پر نفسیاتی جنگ کے موثر ہونے کے موضوع پر بھی حوالے موجود ہیں ۔ تاریخ روم بھی حکمرانوں کے دہشت گردی کے مختلف حربوں کے عام استعمال سے اٹی ہوئی ہے ۔ مثال کے طور پر ٹیبیریئس اور کیلیگولاجِن کی حکمرانی کا دور علی التّرتیب AD14 - 37 اور AD 37 - 41 تھا ۔ دونوں حکمرانوں نے حکومت کے مخالفین کی حوصلہ شکنی کیلئے جلا وطنی ، جائیداد سے بے دخلی اور گردن زدنی یا پھانسی جیسی سزائوں سے کام لیا تھا۔ مذہبی افواہوں سے متعلق ہسپانوی عدالتی کارروائیوں کے دوران ظالمانہ اور من مانی گرفتاریاں ، تشّدد ، اذّیت اور قتل روز کا معمول تھا ۔ فرانسیسی اِنقلاب کے دوران انقلابی تحریک کی حوصلہ افزائی کے سلسلہ میں روبزپیئرکے دہشت کے مظاہروں اور پیروی کو کون بھول سکتا ہے جِس کے نتیجہ میں اُسے سیاسی غلبہ حاصل ہوا تھا اور جِسے’’ دہشت یا خوف کی سلطنت‘‘ (1793 - 94)کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ امریکی سِول وار 1861-65) تو ابھی کل ہی کی بات ہے جِس کے نتیجہ میں جنوبی علاقہ میں حکومت کی اطاعت نہ کرنے والوں نے از سرِ نو تجدید کے حامیوں کودھمکانے کی خاطر’’ کو کلکس کلین‘‘نامی دہشت گرد تنظیم قائم کی تھی۔

علاوہ ازیں انیسویں صدی کے نصف آخر میں مغربی یورپ ، روس اور یونائیٹِڈ اسٹیٹس میں طوائِف الملوکی اور بد نظمی کے وارث اِس اعتماد پر دہشت گردبن گئے تھے کہ انقلاب سے وابستہ سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کیلئے یہی بہترین طریقہ ہے کہ طاقتور مخالفین کو قتل کردیا جائے ۔ 1865 سے 1905 تک لا تعداد بادشاہ ، صدر ، وزیرِ اعظم اورحکومت کے اعلیٰ افسران اِنہی دہشت گردوں کی بندوقوں اور بموں کا نشانہ بنے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی اگر تعریف کی جائے تو اِسے کِن الفاظ میں اور کِس طرح بیان کیا جائے کہ ایک لحاظ اور ہر اعتبار سے شناخت کیا جاسکے ؟ عام طور سے تو دہشت گردی کی پہچان کیلئے کسی افلاطون یا ارسطو کو تکلیف دیئے بغیر ہم جیسے معمولی خرد رکھنے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی سیاسی مقصد کے حصول کے سلسلہ میں حکومت ، عوام یا انفرادی طور پر کسی شخص کے خلاف دہشت یا غیر متوقع تشّدد کا کوئی بھی باقاعدہ اورمنظم استعمال دہشت گردی یا ٹیررازم کے دائرے میں آتا ہے ۔ اِس زاویے سے دیکھا جائے تو بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی حوالہ سے وہ سب بھی دہشت گرد شمار کئے جاسکتے ہیں جو خود کو امن کا سب سے بڑا پیشوا ثابت کرنے کی سعی میں ہیں ۔ دائیں بازو اور بائیں بازو والے اپنے مقاصد کے حصول کے سلسلہ میں سیاسی ادارے اور تنظیمیں ، وطن پرست اور نسلی گروہ ، انقلابی ، فوجی اور خود حکومتوں کے اپنے جاسوس ادارے دہشت گردی کے حربے استعمال کرتے رہتے ہیں ۔ لہٰذا یہ سوال حقیقت میں اوربھی پیچیدہ ہوجاتا ہے کہ ٹیررازم یا دہشت گردی آخر کِس عمل کو کہا جائے ؟ دور کیوں جائیں یونائیٹِڈ اسٹیٹس میں کوڈ آف فیڈرل ریگولیشنز کو ہی کیوں نہ دیکھیں جِس کے تحت دہشت گردی کی تعریف دراصل’’سیاسی یا سماجی مقاصد کے فروغ کی خاطرحکومت ، عام عوام یا اس کے کسی بھی حصہ کو دھمکانے ، ڈرانے یا اس پر دبائو اور جبر کیلئے لوگوں یا اثاثوں کے خلاف طاقت یا تشّدد کا غیر قانونی استعمال" (28 C.F.RR.Section 0.85) ہے ۔ ایف بی آئی کی جانب سے اسے مزید مفصل کیا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے اصل خاندان یا نقطہ آغاز ، بنیاد اور مقاصد کے حوالہ سے دہشت گردی کو گھریلو یعنی ملکی اور بین الاقوامی یعنی ہر دو یا دو مختلف پیمانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

ملکی یا گھریلو پیمانہ پر دہشت گردی دراصل ’’بیرونی رہنمائی کے بغیر یونائیٹڈا سٹیٹس یا اِس کے علاقوں میں قائم اور عمل پیراکسی بھی گروپ یا فرد کاسیاسی یاسماجی مقاصد کے فروغ کی خاطرحکومت ، عوام الناس یا اس کے کسی بھی حصہ کو دھمکانے ، ڈرانے یا اس پر دبائو اور جبر کیلئے لوگوں یا اثاثوں کے خلاف طاقت یا تشّدد کا غیر قانونی استعمال‘‘ہے ، اور بین الاقوامی دہشت گردی میں شامل بہت سی باتیں ہیں۔ اختصار سے کام لیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یونائیٹِڈا سٹیٹس یا اِس کی کسی بھی ریاست میں کئے گئے جرائم سے متعلق یونائیٹِڈ اسٹیٹس یا اِس کی کسی بھی ریاست کے قوانین کے خلاف تشّدد کے ایسے عوامل جو انسانی زندگی کیلئے خطرناک ہیں ۔ یہ عوامل بظاہرعوام الناس کو ڈرانے، دھمکانے یا اُن پر دبائو اور جبرکے مقصد سے یا قتل و غارت اور اغوا کے ذریعہ حکومت کے اقدامات یا پالیسی پر اثر اندازی کی خاطر ہوتے ہیں ۔ تکمیل کے حوالے سے اپنے ذرائع کے اعتبار سے ایسے عمل یونائیٹڈ اسٹیٹس کی حدود سے باہر کہیں اور کسی مقام پر بھی ہوسکتے ہیں۔ بہر حال یہ طے ہے کہ جہاں کوئی حق کیلئے بھی کسی کا خون بہائے تو وہ مذہب کی رو سے دہشت گرد ہے۔ کیونکہ حق کیلئے آئین اور قانون ہیں اور قاضی فائز عیسیٰ بھی چیف جسٹس آف پاکستان بن چکے ہیں۔ دیکھتےہیں بلوچستان کے دہشت گردوں کے معاملات وہ کس انداز میں حل کرتے ہیں۔

تازہ ترین