چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو عدالت عظمیٰ کی سربراہی اس حال میں ملی ہے کہ ہزاروں زیر التواء مقدمات کا انبار لگا ہے۔ تازہ ترین معلومات کے مطابق انکی تعداد تقریباً 57ہزار تک جاپہنچی ہے۔ تاہم نئے چیف جسٹس نے منصب سنبھالنے کے فوراً بعد زیر التواء مقدمات کے انبار کو تیز رفتاری سے نمٹانے کی حکمت عملی تشکیل دینے کیلئے عملی اقدامات شروع کردیے۔ بدھ کو انہوں نے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نمائندوں سے ملاقات کی تاکہ اعلیٰ عدلیہ میں زیر التوا ہزاروں مقدمات کی تعداد میں کمی لانے کیلئے حکمت عملی مرتب کی جاسکے۔ ماضی میں ’لا اینڈ جسٹس کمیشن‘ زیر التوا مقدمات کے اعدادوشمار کو باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کرتا تھا لیکن سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں جو لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے چیئرمین بھی تھے، زیرالتوا کیسز سے متعلق اعدادوشمار ویب سائٹ سے ہٹا دیئے گئے تھے۔ تاہم عدالت عظمیٰ کے نئے دور میں زیر التواء کیسوں کو نمٹانے پر بھرپور توجہ دی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ کے ذرائع کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پہلے تین دنوں میں سماعت کیلئے مقرر کئے جانیوالے 56فیصد کیس نمٹا دیے گئے۔ 19سے 21ستمبر تک 313 کیس سماعت کیلئے مقرر ہوئے اورپانچ بنچوں نے 313 میں سے 174 کیس نمٹادیے۔چیف جسٹس کے بنچ میں 49میں سے 23،جسٹس سردار طارق مسعود کے بنچ میں 87 میں سے 70،جسٹس اعجاز الاحسن کے بنچ میں 54 میں سے 25 ،جسٹس یحییٰ آفریدی کے بنچ میں 75میں سے 35اورجسٹس جمال مندوخیل کے بنچ میں 48میں سے 22مقدمات کے فیصلے ہوئے۔ سپریم کورٹ کی فعالیت اور عملی کارکردگی میں یہ بہتری نہایت خوش آئند ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اس دور میں عدالتی نظام میں وہ تمام ضروری اصلاحات عمل میں لے آنے کی ہر ممکن تدبیر کی جائیگی جن سے انصاف میں تاخیر کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ ہوجائے۔