• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی و معاشی و انتظامی ابتری سے مغلوب وطن عزیز میں مطلوب بہتری کی چونکا دینے والی خبر نے ملک کے سنگین بحران سے نکلنے کی کچھ امید باندھی توہے کہ الیکشن کمیشن نےجنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کے انعقاد کا باقاعدہ اعلان کر دیاہے ۔مئی 22میں عمران حکومت متروک ہارس ٹریڈنگ کی بحالی اور جملہ غیر آئینی ہتھکنڈوں سے اکھاڑنے اور آئین کی تنگ گلی سے نکل کر پندرہ جماعتی پی ڈی ایم اتحاد قائم کرنے کےبعد ملک میں جو کچھ ہوا وہ اتنا بڑا اور مکمل ثابت شدہ قومی خسارہ ہے کہ اب ملک میں ناممکن لگتا کہ اس کا ازالہ ہو جائے۔ خلافِ امید شفاف عام انتخاب ہو بھی جائیں تو یقیناً اس سے شدت سے مطلوب اولین قومی ضرورت، سیاسی استحکام کا پائیدار عمل تو شروع ہونے کی امید تو بندھ جائے گی لیکن معاشی تباہی کا ازالہ ہونے کا راستہ مکمل آئینی راہ اختیار کرنے پر بھی برسوں میں ہی ہو گا۔وہ بھی تب جبکہ سیاسی جماعتوں، حکومتوں اور ریاستی اداروں کی جانب سے آئین سے کھلواڑ کا سخت غیر ذمہ دارانہ اور انتقامی سیاسی و حکومت کا سلسلہ مکمل بند کیا گیا۔ مزید یہ بھی کہ اقتدار میں آنے والی حکومت بالائی سطح کی کرپشن کی بیخ کنی اورانتظامی اختیارات کے ناجائز استعمال سے مکمل گریز اور ریاستی مالی مینجمنٹ معاشی نازک صورتحال کے مطابق کرنے میں کامیاب ہوسکی ۔ایک ناگزیر قومی ضرورت جس پر تمام ہی الیکشن میں حصہ لینے و الی جماعتوں کو کسی رسمی اتفاق سے نہ بھی سہی (کہ اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ) تو اپنے تئیں اپنی اپنی انفرادی حیثیت میں الیکشن کمیشن سے تحریر اً یہ مطالبہ جلد از جلد کر دینا ہوگا کہ وہ خود آئین کی بڑی بڑی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہی نہیں بلکہ کھلم کھلا آئین شکنی کی مرتکب ہو چکی ہیںتو اس کا کم از کم ازالہ اتنا تو لازماً کرے کہ انتخابی عمل کو آلودہ اور مشکوک بنانے والی وہ بے قاعدگیاں جو پولنگ ڈے سے ایک ڈیڑھ ہفتہ پہلے بے نقاب ہونا شروع ہوتی ہیں اور عین پولنگ ڈے اور اس کے بعد شدت سے ان کی نشاندہی ہوتی ہے ،انہیں مکمل ختم کرکے اپنے بنیادی آئینی فریضے کی ادائیگی ’’شفاف انتخابات ‘‘ کو یقینی بنائے۔

واضح رہے ماضی کے انتخابات میں بڑی تعداد میں ایسے ووٹرز کی نشاندہی ہوتی رہی ہے جن کے ووٹ ان کے قریبی یا سرکاری طور پر بتائے گئے پولنگ اسٹیشن کی بجائے کسی دور دراز کے پولنگ اسٹیشنز کی ووٹرز فہرستوں میں درج ہوتے ہیں اس دھاندلی سے اصل ووٹرز اپنے حق رائے دہی سے ہی محروم نہیں ہوتے، ان کے ووٹ کہیں اور پڑ جانے کی بھی بڑی دھاندلی ہوتی ہے، ایسے حربوں اور ہتھکنڈوں کی ایک مکمل فہرست بنتی ہے جو روایتی عام انتخابات میں استعمال ہوتے رہے ۔الیکشن کمیشن کے اپنے ذمے داران اور ماضی میں اس حربے میں ان کے بنے معاونین یہ ذہن نشین کرلیں کہ ماضی میں جو ہوتا رہا سو ہوتا رہاآنے والے انتخابات میں یہ روایتی دھاندلی دہرائی گئی ،سخت حساس موجودہ صورتحال میں تو یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہوگی۔ کہیں 1977ءکی تاریخ نہ دہرائی جائے۔ مہنگائی سے ادھ موئے ووٹر کے پاس خود کو کچھ ریلیف حاصل کرنے کی واحد امید یہ ہی رہ گئی ہے،وہ شدت سے منتظر ہے کہ اپنی پسند سے اک بار اور اپنی پسند کے امیدوار اور پارٹی کو ووٹ دے کر دیکھ لے شاید اتنے ظلم و استحصال کا اب کوئی ازالہ ہو جائے اس حوالے سے نوخیز ووٹرز کے غور طلب اپنے حق کے استعمال کے خاموش جذباتی جذبے کا تو اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہے کہ یہ کس بلند درجے پر ہے اور اب تک کے ’ٹیلر میڈ‘ الیکشن کے ڈیزاسٹر،خدارا ایسا کوئی خطرہ مول لینے کا سوچیں بھی نہ کہ وہ ہر حال میں اپنی مرضی منشا کے نتائج حاصل کرنے کی مہم جوئی پر تل جائیں ذہن نشین رہے کہ موبائل فون کی ٹیکنالوجی اس الیکشن میں بہت شدت اور سمارٹلی استعمال کی جائے گی۔

واضح رہے 90روز کی آئینی مدت میں عام انتخابات نہ ہونے پر جیسا کہ الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق اب الیکشن کا انعقاد جنوری کے آخری ہفتے میں ہوگا جبکہ آئین تقاضا کرتا ہے کہ انتخاب 90روز میں یعنی لازماً 6نومبر تک ہو جانے چاہئیں۔ مسلمہ پاپولر جماعت پی ٹی آئی کا یہ اعتراض ہے تو درست کہ کمیشن کا اعلان غیر آئینی ہے اور وہ اسے عدالت میں چیلنج کرے گی، پی پی اور اے این پی بھی یہ ہی جائز مطالبہ کر رہی ہیں، کر تو جمعیت علماء اسلام (فضل) بھی رہی تھی لیکن اب اس نے کمیشن کا اعلان ہوتے ہی خیر مقدم کرکے دستبرداری اختیار کر لی گویا مولانا صاحب کی جماعت اور استحکام پاکستان پارٹی نے عملی سوچ اختیار کرکے اعلان میں آئینی مدت کا غیر آئینی پہلو ہضم کر لیا ہے۔تحریک انصاف اس کا شور شرابہ مچا کر جتنا اس سے موجود اور آنے والی صورت میں مچایا گیا اور شاید عدالت میں بھی چیلنج کرکے پورے ملکی ریاستی سیٹ اپ کو غیر آئینی ثابت کرکے اپنی غیر آئینی سی جکڑی پوزیشن سے نجات کیلئے الیکشن کمیشن کے اعلان کو غیر اعلامیہ اور ملک بھر کے کیئر ٹیکرز کی غیر آئینی حیثیت کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرکے اپنے لئے آزادانہ الیکشن کی مطلوب سپیس بنانے کی تگ ودو کرے گی، یہ اس کی سیاست کا تقاضا ہی نہیں اس کی قانونی اور آئینی پوزیشن بھی اس حوالےسے بہت مضبوط ہو گی۔ ایم کیو ایم تادم حلقہ بندیوں کی علت میں پھنسی ہوئی ہے، امکان یہ ہی ہے کہ بالآخر اسے جنوری میں ہی اور جیسے بھی ہوئے الیکشن کو ہضم کرنا ہو گا۔

سب سے غیر معمولی اور نرالی پوزیشن مسلم لیگ ن نے اختیار کی ہوئی ہے جس کیلئے وہ آئین و قانون کی حکمرانی کے مقابل ملکی اور دنیا میں کہیں کے بھی سیاسی ابلاغ میں استعمال نہ ہونے والی اصطلاح لیول پلیئنگ فیلڈ کے گمراہ کن استعمال سے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی مراعات پیکیج بنا کر بیٹھی ہوئی ہے ،واضح رہے ’’لیول پلیئنگ فیلڈ‘‘ ایک شرانگیز اور مکمل غیر سیاسی و غیرجمہوری اصطلاح ہے جو آئین و قانون کی حکمرانی کے متبادل پیش کی جا رہی ہے ۔تیس چالیس سال تک آئین و قانون کو روندنے والے تھانہ کلچر کو سیمنٹ لگا کر عشروں سے آئینی لازمے بلدیاتی نظام کو کچل کر رکھنے والوں، عوام کی بجائے پٹواریوں کو ایمپاورڈ کرنے والے، منی لانڈرنگ پر سزائوں کی دہلیز پر کھڑے ملزمان فقط ساڑھے تین سال کی اور کہیں زیادہ بہتر چلو کچھ غیر آئینی بھی نااہلی اور اناڑی پن کو اپنے قومی جرائم کا شیلٹر کیسے بنا سکتے ہیں ؟اس کا مکمل اور کسی سائنٹیفک فارمولے کے مطابق حساب کتاب ہونے لگا تو یہ لیول پلیئنگ کی شرانگیز اصطلاح سے مظلومیت کا ڈھونگ رچانے والے سیاسی میدان میں کہیں کھڑے نہ ہونگے۔پولیٹکل سائنس کے اسکالرز اور محققین کو چاہئے کہ وہ یہ کھوج لگائیں کہ آئین و قانونی عمل کے مقابل یہ اصطلاح پاکستان کے پہلے ہی بیمار سیاسی ابلاغ میں کہاں سے لائی گئی ۔ اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے کی شرط کس جج، جرنل، بیوروکریٹ اور سیاست دان کی نشاندہی کرکے من مانے احتساب کی فرمائش کی جائے کہ یہ ہو تو پھر انتخاب میں حصہ لینے پاکستان آیا جاسکتا ہے۔ ن لیگ کے ہوشمند اکابرین کچھ تو سمجھانے بجھانے کی اپنی ذمے داری پوری کریں پہلے ہی ملک بدترین دو خاندانی ملوکیت میں مبتلا ہو کر ایٹمی ہو کر بھی مرد بیمار بن گیا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین