یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی جدید زندگی مختلف شعبوں میں کچھ یوں بٹی ہوئی ہے کہ ان میں سے ہر شعبہ خواہ وہ ڈاکٹری ہو یا انجینئرنگ، کاروبار ہو یا تدریس، نظم حکمرانی ہو یا ابلاغ عامہ، غرض ہر شعبہ ایک خصوصی حیثیت کا حامل بن چکا ہے۔ علم کے یہ مختلف شعبے تخصیص کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہوتے ہوئے بہت آگے تک جا چکے ہیں، یہ رجحان انفرادی زندگیوں ہی کو متاثر نہیں کرتا بلکہ پورے کے پورے معاشرے گروہ در گروہ اس رجحان کی زد میں آتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ ان دنوں نظم کاروبار (Business Administration) اور اطلاعات کی ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے یا کاروباری مضامین طلبہ کی اکثریت کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔
جامعہ کراچی کی حد تک گریجویشن کی سطح پر سب سے زیادہ داخلے بی کام میں ہوتے ہیں۔ ایک لحاظ سے تخصیص کا یہ رجحان ناگزیر بھی ہے کیونکہ جب علم ترقی کرتا ہے تو ایک سرسبز درخت کی طرح اس کی ہر شاخ سے نئی شاخیں نکلتی ہیں اور پھر ہر شاخ پر نئی کونپلیں پھوٹتی اور نئے پھول کھلتے ہیں۔ لیکن مختلف علوم کے اندر تخصیص کے اس رجحان نے ایک بہت بڑی قیمت بھی وصول کی ہے اور وہ قیمت یہ ہے کہ علم کی کسی ایک شاخ میں مہارت حاصل کرنے والا شخص دوسری شاخوں اور دوسرے علوم سے دور بھی ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ پچھلی دو صدیوں میں اس تیزی سے آگے بڑھا ہے کہ آج ہم ایک ایسی دنیا کے باسی بن چکے ہیں جس میں باکمال لوگ موجود تو بڑی تعداد میں ہیں، مگر ان کا کمال اپنے ہی شعبے تک محدود ہے۔ ہر ماہر محدود سی دنیا میں بند ہے، اپنی دنیا پر تو اُس کا سکّہ چلتا ہے مگر اس کے باہر وہ خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے۔
ایک مخصوص علم کی دنیا داخلی طور پر کتنی ہی گہرائی کیوں نہ رکھتی ہو، علوم کی وسیع تر دنیا میں اس کی حیثیت ایک ذرّے سے زیادہ کی نہیں ہوتی۔ مہارت کا یہ رجحان ماضی کے اُس رجحان سے بالکل مختلف ہے جو زمانۂ قدیم سے چلا آرہا تھا، اور خاص طور سے عہدِ وسطی میں جس کا بڑا دور دورہ تھا۔ وہ رجحان تھا علم کی وحدت یا علوم کے باہمی ارتباط کا۔ تب ایک ماہرِ اجرام فلکی ایک طبیب بھی ہوتا تھا۔
اُس کو ادب وانشاسے بھی شغف ہوتا تھا اور وہ علمِ ہندسہ اور اپنے زمانے کے سائنسی علوم پر بھی دسترس رکھتا تھا۔ یونان کی تاریخ میں ارسطو اور افلاطون ا س رجحان کے بہت بڑے نمائندہ تھے۔ اور عہدِ وسطی میں ابنِ رشد، رازی، ابن الہیثم، لیونارڈو ڈی ونسی اور بیسیوں دوسرے افراد مختلف علوم پر دسترس رکھتے تھے۔ ان سب لوگوں کو ہم جامع العلوم قرار دے سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے تقسیم در تقسیم کے بجائے علم کی وحدت کو منضبط کرنے کی کوشش کی۔
علم کی وحدت کا یہ ڈھانچہ صنعتی انقلاب کے بعد اور خاص طور سے بیسویں صدی میں کمزور ہونا شروع ہوا۔ پہلے تو سماجی علوم اور فطری علوم کے درمیان ایک بڑی سرحدقائم کردی گئی اور پھر سماجی اورفطری علوم کی دو مختلف دنیائوں کے اندر بھی تقسیم در تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ بیسویں صدی کے بارے میں کہا گیا کہ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی ہے لیکن خود سائنس کے اندر مختلف مضامین سے وابستہ لوگوں کا اصرار تھا کہ وہ اس صدی کو اپنے مخصوص مضمون سے منسوب کریں۔ چنانچہ کسی نے اس کو فزکس کی صدی کہا، کسی کے نزدیک یہ کیمسٹری کی صدی تھی۔ لیکن بحیثیت مجموعی بیسویں صدی کو فزکس کی صدی قرار دینے والوں کا پلّہ بھاری رہا۔
یہ اسی صدی میں ہوا کہ فزکس کی روزافزوں ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی ذیلی شاخیں توانا شکل میں نمودار ہوتی چلی گئیں۔ اور اس ایک مضمون سے ٹرانسپورٹ، ٹیلی کمیونیکشن، خلائی سائنس، آسڑونومی اور ٹیکنالوجی کی شاخیں نکل آئیں۔ موجودہ صدی کو بائیو ٹیکنالوجی یا حیاتیاتی ٹیکنالوجی کی صدی قرار دیا جا رہا ہے۔ اب بائیو ٹیکنالوجی سے نت نئی شاخیں نکلتی چلی جارہی ہیں، اور اِن سے مختلف قسم کے وظائف حاصل کیے جارہے ہیں۔ حیاتیاتی ٹیکنالوجی کا دائرہ پھیل کر طب، زراعت، صنعت اور ماحولیات تک وسیع ہو چکا ہے۔ صحت اور غذائیت سے اس کا تعلق براہِ راست نوعیت کا ہے۔
گلوبلائزیشن کے پیکر میں تیزی کے ساتھ ڈھلتی ہوئی آج کی دنیا میں قومیں اور ملک جس مقابلہ آرائی میں شامل ہو رہے ہیں اُس میں کامیابی کی کلید اسی کو سمجھا جارہا ہے کہ آج کی جدید حیاتیاتی ٹیکنا لوجی کو کون کس قدر ہوشمندی اور سبک رفتاری کے ساتھ اپنی اقتصادی نشوونما کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک بائیو ٹیکنالوجی میں کثیر رقومات کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق بائیو بزنس کا کل عالمی حجم 776.3ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
علم کی مختلف شاخوں کا اس طرح پھیل جانا کہ ہر شاخ کا ماہر دوسرے علوم سے لاتعلق ہوجائے، بجائے خود ایک ضرررساں رجحان ثابت ہوا۔ بیسویں صدی ہی میں بعض مفکرین نے علم کی وحدت کو ازسرِ نو اجاگر کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ 1929ء میں وائٹ ہیڈ کی مشہور کتاب ’مقاصدِ تعلیم‘ (Aims of Education)منظرِ عام پر آئی، جس میں اُس نے اسی امر پر زور دیا کہ سائنسی علوم ہوں یا سماجی علوم و فنون، دونوں کا مقصد بالآخر انسان کو ایک مہذب انسان بنانا ، فرد اور معاشرے کے اندر تہذیب اور کلچر کو ترویج دینا ہے۔کلچر سے اُس کی مراد ’سوچ اور فکرکی سرگرمی‘ تھا۔اُس کا خیال تھا کہ یہ اگر متحرک اور سرگرم نہ ہوں ، ذہن محض بے حس و حرکت اور جامد معلومات کا مسکن بن جائے تو یہ معلومات بے کار اور بے مصرف ثابت ہوتی ہیں۔
تعلیم اگر ذہنوں کو حاصل شدہ معلومات کے بامعنی استعمال،ان کی توثیق،ان کو تنقیدی نظر سے دیکھنے اور ان کو اجالنے پر مائل نہیں کرتی تو ایسی تعلیم بے کار ہی نہیں، نقصان دہ بھی ہے۔اُس کا مزید کہنا ہے کہ اگر تعلیم کا مقصد تنقیدی طرزِ فکر کو پیدا کرنا اور اس کی آبیاری کرنا ہے، تو اس مقصد کے حصول کے لیے ذہنوں کو صرف ایک ہی طرح کی معلومات تک محدود نہیں رکھا جاسکتا۔ انسانی ذہن کی تربیت اس طور ہونی چاہیے کہ وہ ردّو قبول کے عمل میں مختلف منابعِ علم سے استفادہ کرے۔ ذہنوں کی اس طرز پر تربیت کا عمل اسکولوں سے شروع ہونا چاہیے تاکہ یونیورسٹیوں تک پہنچتے پہنچتے طالب علم نیا علم تخلیق کرنے پر قادر ہو سکیں۔
وائیٹ ہیڈ،کلاسیک کی تعلیم کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ وہ اُس دور کو یاد کرتا ہے جب کسی بھی شعبے کا انتخاب کرنے والا طالب علم کلاسیک کا مطالعہ ضرور کرتا تھا۔اعلیٰ تعلیم کے تمام شعبوں پر کلاسیک کی حکمرانی قائم تھی۔اس میدان میں کلاسیک کا حریف صرف ریاضی کا مضمون تھا،اُس کی حیثیت بھی ایک چیلنج کرنے والے ہی کی تھی۔ کلاسیک جن میں کلاسیکی ادب، کلاسیکی فلسفہ اور لسانیات شامل تھے، ذہن کو وہ کشادگی اور تنقیدی صلاحیت فراہم کرتے تھے جو طالب علم کو صرف ایک شعبے کا ماہر نہیں بلکہ ایک عالم اور دانشور بنانے کی راہ پر گامزن کردیتے تھے۔یہ دانشور تہذیب کے مشعل بردار ثابت ہوتے اور تہذیب وکلچر کو اگلی منزلوں کی طرف لے جانے کا فرض سرانجام دیتے تھے۔
کسی ایک علم میں تخصّص حاصل کرنے اور باقی علوم سے بڑی حد تک کٹ جانے میں جو خطرات پوشیدہ ہیں اُن کا سب سے زیادہ اظہار سائنسی علوم کے ماہرین کے اخلاقی علوم سے لاتعلق ہونے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔اس ضمن میں اس خیال کو بڑی شدو مد کے ساتھ بیان کیا جاتا رہا ہے کہ سائنس ایک نیوٹرل اور غیر جانبدار علم ہے جس کی اپنی کوئی اقدار نہیں ہوتیں۔ یہ بات کہی بھی اس لیے جاتی ہے کہ سائنس کو دیگر علوم سے الگ کرکے محض مجرد معلومات تک محدود کردیا گیا ہے۔
لیکن اگر سائنس کے طالبعلم سماجی علوم سے بھی استفادہ کریں گے تو وہ معاشرے اور سماج کے حقائق کا شعور بھی حاصل کریں گے، یوں وہ سائنس کے استعمال کے سماجی پہلوئوں سے بھی واقف ہوسکیں گے، تب سائنس اُن کے لیے ’اقدار سے محروم‘چیز نہیں رہے گی۔ ان معنوں میں علم یا تعلیم دراصل مجرد معلومات کے خلاف ایک احتجاج اور ایک مزاحمت کی حیثیت رکھتی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ، دوسوسال میں ڈائنامائیٹ ، کیمیائی ہتھیاروں اور ایٹمی اسلحے کی ایجادنے اس سوال کو بہت اہم بنا دیا ہے کہ کیا سائنس انسان کی تباہی اور بستیوں کو تاراج کرنے کے لیے استعمال کی جانی چاہیے یا نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سائنس بجائے خود کسی قسم کی اقدار کی حامل نہیں ہوتی لیکن اس نقطۂ نظر کے برخلاف اب علمی حلقوں میں یہ بات بہت تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کررہی ہے کہ سائنس کو سماجی اقدار اور اخلاقی ضابطوں سے ہم آہنگ نہ کیا گیا تو کرہّ ارض پر بقائے انسانی کے امکانات معدوم ہوتے چلے جائیں گے۔
یہ اِسی احساس کا نتیجہ ہے کہ اب مغربی دنیا کی یونیورسٹیوں میں سائنسی علوم کے ساتھ سماجی علوم اور فنون کو بھی کسی نہ کسی حد تک شاملِ نصاب کیا جارہا ہے۔ ان معاشروں میں یہ احساس بھی بیدار ہو رہاہے کہ تعلیم کا مقصد صرف بہترین ڈاکٹر، انجینئر، ٹیکنو کریٹ اور دیگر ماہرین پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ ایک اچھا انسان بنانا بھی ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اب مغربی دنیا کی کم وبیش تمام بڑی یونیورسٹیوں میں سائنسی اور سماجی علوم اور لبرل آرٹس کو بھی ہم آہنگ کرنے کا رجحان قبولیت حاصل کر رہا ہے۔