سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے فون پر جسٹس سردار طارق مسعود ناراض ہوگئے تھے جس سے متعلق اہم تفصیلات سامنے آگئیں۔
تفصیلات میں اہم انکشاف یہ سامنے آیا کہ جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف شکایت آئی تو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فون کر کے ان کی رائے مانگی۔
باوثوق ذرائع کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس سردار طارق مسعود کو اس فون کال پر پیشکش کی تھی کہ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایت اگر واپس انہیں بھجوا دی جائے تو سردار طارق مسعود کے خلاف آنے والی شکایت بھی ختم کر دی جائے گی۔
باوثوق ذرائع کے مطابق جسٹس سردار طارق مسعود نے کیس سپریم جوڈیشل کونسل بھیجنے کی بجائے فون کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا۔
ذرائع کے مطابق جسٹس سردار طارق مسعود نے اس پیشکش پر انتہائی سخت مؤقف اپنایا اور 5 ستمبر کے فون پر اگلے دن خط لکھ کر اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔
ذرائع کے مطابق جسٹس سردار طارق مسعود نے اس وقت کے چیف جسٹس کو لکھے خط کی نقول سپریم جوڈیشل کونسل ارکان کو بھی بھجوائی۔
جسٹس سردار طارق مسعود کے خط کے متن کے مطابق "چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال کل رات آپ نے مجھے فون کیا، آپ نے فون کر کے مجھے بتایا کہ میرے خلاف شکایت داخل ہوئی ہے۔"
انہوں نے خط میں مزید لکھا "مسز آمنہ ملک کی شکایت پر آپ نے مجھ سے پوچھا کہ اس کا کیا کرنا ہے، جناب چیف جسٹس آپ کا میرے خلاف شکایت پر مجھ سے بات کرنا مناسب نہیں تھا۔"
جسٹس سردار طارق مسعود نے یہ بھی لکھا "جناب چیف جسٹس آپ نے اس شکایت پر مجھ سے بات کر کے مجھے شرمناک صورتحال سے دو چار کردیا۔"
اُن کا لکھنا تھا کہ "جناب چیف جسٹس بہتر ہوتا کہ مسز آمنہ ملک کی شکایت آپ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھتے، میں نہیں چاہتا کہ مجھ پر آپ سے احسان لینے کا ایک اور اضافی الزام لگ جائے۔"
جسٹس طارق مسعود نے اپنے خط میں لکھا "مجھے سپریم جوڈیشل کونسل پر پورا اعتماد ہے کہ وہ اس معاملے پر آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔"
انہوں نے لکھا "جناب چیف جسٹس اگر یہ شکایت جھوٹی ثابت ہوئی اور اس شکایت کا مقصد مجھے بدنام اور میری پگڑی اچھالنا تھا تو جناب چیف جسٹس مجھے توقع ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل پروسیجر آف انکوائری 2005 کی کلاز 14 کے تحت جھوٹی شکایت کرنے والے کے خلاف کونسل کارروائی کا حکم صادر کرے گی۔"
جسٹس سردار طارق مسعود کے خط کی کاپیاں سپریم جوڈیشل کونسل کے اس وقت کے ارکان کو بھی بھجوائی گئیں۔
خط کی کاپیاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اعجاز الاحسن، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو بھجوائی گئیں۔