• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انفارمیشن ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ ملازمین کی تفصیلات تک رسائی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ—فائل فوٹو
سپریم کورٹ—فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے انفارمیشن ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ ملازمین کی تفصیلات تک رسائی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

انفارمیشن ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کے ملازمین کے ریکارڈ تک رسائی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔

چیف جسٹس نے درخواست گزار سے سوال کیا کہ آپ نے کونسی تفصیلات مانگی تھیں؟

درخواست گزار مختار علوی نے بتایا کہ گریڈ 1 سے 22 تک عدالتی عملے کی تفصیلات مانگی تھیں جو نہیں دی گئیں، خواتین، معذور اور مستقل و عارضی ملازمین کی تعداد بھی مانگی تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ ویسے پوچھ رہا ہوں آپ نے ان معلومات کا کرنا کیا ہے؟

درخواست گزار نے جواب دیا کہ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت میں یہ بتانے کا پابند نہیں ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صرف اپنی معلومات کے لیے پوچھ رہا ہوں، معلوم ہے آپ قانونی طور پر بتانے کے پابند نہیں۔

درخواست گزار مختار علوی نے کہا کہ ملکی اداروں میں شفافیت کے لیے کام کررہا ہوں اس لیے معلومات درکار ہیں، قانون اور آئین میں کسی آئینی ادارے کو معلومات تک رسائی سے استثنیٰ نہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ انفارمیشن کمیشن میں رجسٹرار آفس نے کیا جواب جمع کرایا تھا؟ کیا رجسٹرار آفس نے آپ کو معلومات دیں؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ رجسٹرار آفس نے کمیشن کو آرڈر واپس لینے کا کہا، رجسٹرار کا مؤقف تھا انفارمیشن کمیشن سپریم کورٹ سے متعلق آرڈر نہیں دے سکتا،  معاملہ رٹ میں ہائی کورٹ گیا اور سنگل بینچ کا فیصلہ آچکا ہے۔

جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے کہا کہ یہ ناقابل تصور ہے کہ سپریم کورٹ خود درخواست گزار بن کر کسی عدالت جائے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ رولز رجسٹرار کو سپریم کورٹ کی جانب سے درخواست گزار بننے کا اختیار نہیں دیتے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ کل کمیشن سپریم کورٹ ججز کی فیملی معلومات پبلک کرنے کا کہہ دے تو کیا ہو گا؟ کیا پھر وہ آرڈرنس نظر انداز کر دیں گے یا چیلنج ہو گا؟

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ  یہ بھی بتائیں پھر وہ آرڈر فیملی چیلنج کرے گی یا سپریم کورٹ؟

عدالت نے درخواست گزار مختار علوی اور اٹارنی جنرل کو تحریری جوابات 2 ہفتے میں جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم اپنی روایت کا فیصلہ کر رہے ہیں، سپریم کورٹ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، موجودہ کیس میں پیچیدہ آئینی اور قانونی معاملات زیر غور ہیں، عدالت کو دنیا بھر کی نظائر سے متعلق بھی معاونت دی جائے، انفارمیشن کمیشن سپریم کورٹ کو حکم نہیں دے سکتا، ممکن ہے سپریم کورٹ کے ملازمین سے متعلق معلومات رضا کارانہ طور پر دے دیں، یہ معلومات دے سکتے ہیں کہ 2 ٹرانسجینڈرز ملازم سپریم کورٹ میں کام کرتے ہیں، یہ معلومات نہیں دی جاسکتیں کہ ٹرانسجینڈرملازمین کون ہیں۔

اس سے قبل سماعت کا احوال

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور درخواست گزار شہری کی وکیل بھی روسٹرم پر آ گئیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ ریکارڈ دیکھ کر تیاری کر لیں، یہ حساس معاملہ ہے، یہ نہ ہو کہ ہم کچھ اور کہہ رہے ہوں اور اٹارنی جنرل کچھ اور کہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن رجسٹرار آفس کی نمائندگی کریں گے، اٹارنی جنرل منصور عثمان وفاق کی نمائندگی کریں گے، کیس کو نمبر کے مطابق آخر میں ہی سنا جائے گا۔

سپریم کورٹ کے  چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کسی کو یہاں کورٹ روم میں بٹھا دیں، کیس کی باری آئے گی تو آپ کو بلا لیں گے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے ملازمین کی فہرست تک رسائی کی درخواست شہری نے ہائی کورٹ میں دائر کی تھی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہری کی درخواست خارج کر دی تھی۔

شہری نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت درخواست ہائی کورٹ میں دائر کی تھی۔

قومی خبریں سے مزید