نواز شریف کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے انجام سے ڈرایا جا رہا ہے۔
نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپسی پر مینار پاکستان کے سائے تلے ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ ایئرپورٹ سے جلوس کی صورت میں مینار پاکستان نہ جائیں، خدانخواستہ کوئی ایسا واقعہ نہ ہو جائے جو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ 2007ءمیں راولپنڈی میں پیش آیا تھا۔
2007ء میں جنرل پرویزمشرف لال مسجد آپریشن کے بعد انتہائی غیر مقبول ہو چکے تھے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کو سہارا دینے کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ڈائیلاگ شروع کیا۔
مشرف چاہتا تھا کہ بے نظیر صاحبہ اسکی حمایت کردیں جس کے عوض وہ پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنے ساتھ اقتدار میں شامل کرنے کیلئے تیار تھا لیکن وہ بے نظیر صاحبہ کی وطن واپسی کے حق میں نہیں تھا۔مشرف اور پیپلز پارٹی کے درمیان ڈائیلاگ کا نتیجہ این آر او کی صورت میں سامنے آیا، مشرف اپنی وردی اتارنے پر بھی تیار ہو گیا لیکن بے نظیر صاحبہ سے کہا گیا کہ آپ پاکستان واپس نہ آئیں کیونکہ آپ کی جان کو خطرہ ہے۔
بے نظیر صاحبہ تمام خطرات کو نظرانداز کرکے کراچی پہنچ گئیں اور پھر ان کے جلوس پر حملہ ہوگیا جس میں وہ تو بچ گئیں لیکن ان کے بہت سے کارکن شہید ہو گئے۔
ایک دفعہ پھر ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ آپ واپس چلی جائیں۔ انہوں نے ناصرف مشرف کے ساتھ ڈائیلاگ ختم کرنے کا اعلان کر دیا بلکہ انتخابی مہم بھی شروع کر دی اور پھر 27دسمبر 2007ء کی شام لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر ایک خودکش حملہ آور کا نشانہ بن گئیں۔
جو لوگ نواز شریف کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے انجام سے خبردار کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ خطرہ صرف نواز شریف کو نہیں بلکہ شہباز شریف سمیت مسلم لیگ ن کے کچھ دیگر رہنمائوں کو بھی ہے۔حال ہی میں باجوڑ میں جمعیت علماء اسلام کے ایک ورکرز کنونشن پر خودکش حملہ ہو چکا ہے لہٰذا نواز شریف کو دی جانے والی وارننگ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔انہیں محتاط رہنا ہو گا لیکن وطن واپس تو آنا ہے۔
مسلم لیگ( ن) انکے بغیر ایک موثر انتخابی مہم نہیں چلاسکتی۔وطن واپسی پر انکی گرفتاری کے خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ انکے وکلاء واپسی سے قبل حفاظتی ضمانت حاصل کرنے کے امکانات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں لیکن نواز شریف کو گرفتاری سے نہیں ڈرنا چاہئے۔
نواز شریف نے پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو جیل جانے کو بھی ایک سیاسی ضرورت سمجھیں کیونکہ جیل بہت سی کمزوریوں اور غلطیوں کو چھپا دیتی ہے۔یوسف رضا گیلانی جیل نہ جاتے تو کبھی وزیراعظم نہ بنتے۔آصف زرداری لمبی لمبی قیدیں نہ کاٹتے تو کبھی صدر پاکستان نہ بنتے۔
نواز شریف واپس آئیں گے تو الیکشن کا انعقاد یقینی ہو جائے گا اگر وہ واپسی میں تاخیر کریں گے تو الیکشن بھی تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ ان کی جماعت انہیں چوتھی مرتبہ پاکستان کا وزیر اعظم بنانے کی متمنی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ماہرین سیاست اپنی روایتی پاور پالیٹکس کے ذریعہ نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم تو بنوا دیں گے لیکن اس کے بعد کیا ہوگا۔
نواز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم بن چکے ہیں اور تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت پوری نہ کرسکے۔
پہلی مرتبہ انہیں صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کر دیا وہ دوبارہ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی مدد سے صدر کا اسمبلی توڑنے کا اختیار ختم کر دیا لیکن اس مرتبہ جنرل پرویز مشرف نے آئین توڑ کر انہیں حکومت سے نکال دیا۔ تیسری مرتبہ ان کے خلاف سپریم کورٹ کو استعمال کیا گیا۔
چوتھی مرتبہ حکومت سے نکالنے کیلئے کوئی نئی سازش کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے سے قبل سازشوں کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، فیض حمید اور کچھ ریٹائرڈ ججوں کے احتساب کا مطالبہ کر دیا ہے۔ جب سے انہوں نے یہ بات کی ہے ان کی اپنی ہی پارٹی کے کئی نامی گرامی رہنما سخت پریشانی کا شکار ہیں ۔
ہمارے ان پریشان دوستوں کا خیال ہے کہ ایک سابق آرمی چیف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے احتساب کا مطالبہ سعئی لاحاصل ہے اور مسلم لیگ (ن) کو لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔ یہ وہی صاحبان ہیں جو 2016ء میں نواز شریف کو مشورہ دیا کرتے تھے کہ آپ پرویز مشرف کے احتساب کا خیال دل سے نکال دیں اور انہیں طبی وجوہات پر ملک سے باہر جانے دیں۔
جب نواز شریف کہتے کہ ہم نے تو سپریم کورٹ کے حکم پر مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ درج کیا ہے تو انہیں کہا جاتا کہ سابق آرمی چیف پر غداری کے مقدمے سے فوج کا مورال ڈاؤن ہوگا آپ مشرف کو چھوڑ دیں پھر دیکھیں پاکستان کتنی ترقی کرے گا۔
پھر ایک دن سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے کہا کہ اگر مشرف کو علاج کیلئے بیرون ملک بھیجا جاتا ہے تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں۔ یوں مشرف بیرون ملک چلے گئے اور نواز شریف کے خلاف سازشیں کم ہونے کی بجائے مزید تیز ہوگئیں۔
اب جنرل راحیل شریف ان سے توسیع مانگنے لگے راحیل شریف سے جان چھڑا کر قمر جاوید باجوہ کو لایا گیا۔باجوہ صاحب سپریم کورٹ کے کون کون سے جج کو کب اور کہاں ملتے تھے؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے لیکن نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ذریعہ نااہل قرار دلوانے کی سازش میں وہ مکمل طور پر شریک تھے۔
مجھے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں نواز شریف کو خود بھی سب پتہ ہے کیونکہ 2018ء میں ان کے ساتھ جیل میں جو بھی ہوا باجوہ کی مرضی سے ہوا۔ 2018ء کے الیکشن میں جو کھلی دھاندلی ہوئی وہ ایک پروجیکٹ کا حصہ تھی اور اس پروجیکٹ کے سپروائزر باجوہ تھے ۔
آج عمران خان کو اڈیالہ جیل کے اسی سیل میں رکھا گیا ہے جہاں پہلے نواز شریف قید تھے۔ اگر آج عمران خان کو ملک دشمن قرار دیا جا رہا ہے تو اس ملک دشمن کو دھاندلی سے اقتدار میں کون لایا؟
باجوہ کی سیاست میں مداخلت کے سب سے بڑے عینی شاہد خود شہباز شریف ہیں جنہوں نے باجوہ کے بہکاوے میں آکر نواز شریف کو دھوکہ دینے سے انکار کیا۔
کیا سیاست میں مداخلت آئین کے آرٹیکل244 کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ اگر سیاست دانوں پر مقدمے بن سکتے ہیں تو ریٹائرڈ جرنیلوں پر کیوں نہیں بن سکتے؟
نواز شریف کی طرف سے ریٹائرڈ جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کا مطالبہ پاور پالیٹکس کی نزاکتوں کیخلاف ہے لیکن یہ ایک عوامی مطالبہ ہے۔ اگر جنرل پرویز مشرف کو سزا سنانے والے جج جسٹس وقار سیٹھ کو عمران خان کی حکومت پاگل قرار نہ دیتی اور فیصلے پر عمل درآمد کا اعلان کر دیتی تو باجوہ کو عمران خان کیخلاف سازش کی جرات نہ ہوتی۔
ان سازشوں کا راستہ نہ روکا گیا تو نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پاکستان کے قومی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ آج سب سیاسی جماعتیں نواز شریف کے مطالبے کی حمایت کریں اور فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے مشترکہ موقف اختیار کریں لیکن افسوس کہ نواز شریف سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ایک آئینی مطالبے کو چھوڑ کر غیر آئینی کام کرنے والوں سے سمجھوتہ کر لیں۔
نواز شریف کو ایسے مشورے دینے والے بعد میں چودھری نثار اور شاہد خاقان بن جاتے ہیں اور یہی نواز شریف کا سب سے بڑا المیہ ہے۔