• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے باکانہ اظہار ِمحبّت.....مہربان اجنبی خواتین

؎ خواب، جوانی، رات کی رانی، ایک ہی کہانی کہتے ہیں.....اوراق کتابِ دل کے ہوں یا برگ ہوں سبز درختاں کے۔الماتا کی سڑکوں پر لڑکے، لڑکیاں جا بجا سرِعام، بے باکانہ انداز میں گلے لگ کر پیار و محبّت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ میرے لیے یہ سب کچھ انوکھا نہ تھا، کیوں کہ اس سے قبل چند ایسے ممالک میں جانے کا اتفاق ہوچکا تھا، جہاں اس طرح کے مناظر بڑی کثرت سے دکھائی دیتے ہیں۔ اُس روز بھی مَیں الماتا کی سڑکوں پر اس طرح کے مناظر نظر انداز کرتا چلا جارہا تھا۔ دراصل ہمیں اپنے کام کے سلسلے میں کچھ ورکرز اور نمائندوں کی ضرورت تھی، یوں تو اس مقصد کے لیے الماتا میں ملازمت فراہم کرنے والے بہت سے نجی ادارے موجود ہیں۔ 

مختلف شعبوں میں کام کی نوعیت کے اعتبار سے کمپنیز اُن نجی اداروں کو اپنی ضروریات سے آگاہ کرتی ہیں، اور وہ اپنے پاس موجود لوگوں کے کوائف فراہم کردیتے ہیں، اُس کے بعد کمپنیز اپنی ضروریات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے مطلوبہ افراد کو انٹرویو کے لیے بلا لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں بہت سے ایسے رسائل و جرائد بھی شایع ہوتے ہیں، جن میں صرف ملازمت کے اشتہارات ہوتے ہیں۔ مَیں نے ایک ایسے ہی رسالے میں اشتہار دینے کا ارادہ کیا۔ چوں کہ شہر سے واقفیت حاصل کرنا میرا شوق تھا، اس لیے ایڈریس معلوم کرکے اُس رسالے کے دفتر روانہ ہوگیا۔ 

اب تک جو تھوڑی بہت روسی زبان سیکھی تھی، اُس کی مدد سے مطلوبہ مقام تک تو پہنچ گیا، لیکن دفتر نہ ملا۔ جس سے بھی دفتر کا پوچھتا، یہی جواب ملتا کہ اسی بلڈنگ میں ہے، لیکن کہاں ہے؟ کوئی درست طور پر رہنمائی نہ کرسکا۔ مَیں نے عمارت کا ہر حصّہ آگے، پیچھے، اوپر، نیچے گھوم کر دیکھ لیا، مگر مطلوبہ دفتر نہیں ملا۔ بالآخر تھک ہار کر واپسی کا فیصلہ کرکے آگے بڑھا ہی تھا کہ ایک خاتون پر نظر پڑی، تو سوچا، آخری بار اُن سے بھی معلوم کرلیا جائے۔ 

اُن کے قریب جاکر پرچی پر درج پتا دکھا کر ٹوٹی پھوٹی روسی زبان میں پوچھا کہ ’’یہ دفتر کہاں ہے؟‘‘ انھوں نے میرے لہجے سے اندازہ لگالیا کہ غیرملکی ہوں، تو پوچھنے لگیں کہ ’’کیا آپ انگریزی بول سکتے ہیں؟‘‘ مَیں نے فوراً انگریزی میں جواب دیتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا، تو انھوں نے شستہ انگریزی لہجے میں کہا۔ ’’یہ دفتر اسی عمارت میں ہے، لیکن ذرا ٹھہریں، مَیں اپنی ایک دوست کا انتظار کررہی ہوں، وہ آجائے، تو پھر آپ کو اس دفتر تک پہنچادوں گی۔‘‘ تھوڑی دیر بعد ایک اور خاتون آگئیں، تو انھوں نے مجھے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا، پھر عمارت کے عقب میں جاکر ایک چھوٹا سا دروازہ کھول کر سیڑھیوں سے اوپر چڑھتے ہوئے دوسری منزل پر مطلوبہ رسالے کے دفتر لے گئیں اور اشتہار کے میٹر کی تیاری سے لے کر رقم کی ادائی تک انتہائی سکون سے مترجم کے فرائض انجام دیئے۔ اس دوران ان خواتین نے میرا اچھا خاصا انٹرویو بھی لے لیا۔ 

اپنے ملک قازقستان، وہاں کی طرزِ زندگی اور باشندوں سے متعلق میری پسندیدگی یا ناپسندیدگی کے حوالے سے بھی بہت سی باتیں پوچھیں۔ جن کے جواب میں، مَیں بھلا اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا تھا کہ ’’قازقستان کے لوگ بہت اچھے ہیں۔‘‘ مَیں واقعتاً اس خاتون کے رویّے سے بے حد متاثر تھا۔ اشتہار سے متعلق تمام معاملات طے کرکے نیچے اترے، تو مَیں نے انھیں چائے کی دعوت دی، جو انہوں نے بخوشی قبول کرلی۔ چائے کے دوران اُن خواتین نے مجھ سے پاکستان سے متعلق بہت کچھ پوچھا اور مجھے جلد روسی زبان سیکھنے کے گُر بھی بتائے۔ بہرحال، وہ دونوں اجنبی خواتین میرے ساتھ نہ صرف بہت اخلاق سے پیش آئیں، بلکہ بہت مدد اور رہنمائی بھی کی۔

منفی 9سے منفی 27تک

الماتا، دنیا کے سرد ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ وہ 19دسمبر کی خون جما دینے والی ایک انتہائی سرد صبح تھی۔ دفتر جاتے ہوئے یکایک میری نظر ایک عمارت میں نصب الیکٹرانک ڈسپلے پر پڑی، تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ اُس پر درجۂ حرارت منفی 9ڈگری سینٹی گریڈ کی نشان دہی کی جارہی تھی۔ مَیں چوں کہ دفتر کے قریب پہنچ چکا تھا، اس لیے گاڑی سے اُتر کر تیز تیز قدم بڑھاتا فوراً دفتر میں داخل ہوگیا اور وہاں پہنچ کے ہر ایک سے یہی کہا کہ ’’آج تو بہت سردی ہے۔‘‘ لیکن لوگ چونک کر میری طرف دیکھتے اور کہتے ’’نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں۔‘‘ 

مگر جب مَیں نے حیرت سے کہا کہ ’’آج منفی9 ٹمپریچر ہے۔‘‘ تو کئی ایک نے کہا۔ ’’ہمیں معلوم ہے، یہ تو سردیوں میں الماتا کا عمومی درجۂ حرارت ہے۔‘‘ مَیں سمجھا کہ یہ سب شاید مذاق کررہے ہیں، کیوں کہ میرے لیے منفی 9ڈگری سینٹی گریڈ میں زندگی گزارنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ بہرحال، اُس روز سرخ رنگ میں لکھے منفی9نے مجھے اچھا خاصا پریشان کردیا تھا۔ تاہم، بعد آنے والے دنوں میں شدید ترین سردی سے پالا پڑا، تو قائل ہوگیا کہ یہاں موسمِ سرما میں منفی 9سے منفی 15ڈگری سینٹی گریڈ تک درجۂ حرارت واقعی عمومی ہے۔

الماتا میں درجۂ حرارت کا سبک رفتاری سے تبدیل ہونا بھی ایک انوکھا تجربہ تھا۔ اگر صبح ٹمپریچر منفی 11ہے، تو شام تک درجہ حرارت 10 تک بھی پہنچ جاتا ہے، پھر کبھی صبح منفی 9ہوتا، تو دوپہر میں 8اور شام تک 16پر بھی پہنچتے دیکھا۔ ویسے موسم کا حال باقاعدگی سے دیکھنے کی عادت بھی الماتا ہی کی مرہونِ منت ہے۔ وہ شاید 25دسمبر کی دوپہر تھی کہ ہم زیلونی بازار جانے کے لیے اپنی رہائش سے نکلے، جو گھر سے 15منٹ کی مسافت پر تھا۔ چند قدم چلے تو احساس ہوا کہ سردی کچھ زیادہ ہے۔ 

بازار پہنچے، تو دیکھا لوگ اپنی دکانیں بند کررہے ہیں، پوچھا، تو معلوم ہوا کہ سردی زیادہ ہونے کی وجہ سے آج بازار جلدی بند ہورہا ہے۔ ہمیں بہت سی ضروری اشیاء کی خریداری کرنی تھی، اور اکِّا دُکّا دُکانیں کُھلی بھی تھیں، مگر ہم نے سردی کے تیور دیکھ کر واپس گھر کی راہ لینے ہی میں عافیت جانی۔ بازار سے باہر نکلے، تو دل چسپ مشاہدہ ہوا۔ 

سانس لینے کے دوران منہ پر رکھے مفلر پر برف کی ایک تہہ سی جمنے لگی۔ چوں کہ برف باری بہت شدّت سے ہورہی تھی، تو مَیں سمجھا کہ یہ اسی وجہ سے ہو رہا ہے، لیکن ایک دو مرتبہ ہاتھ سے برف کی تہہ ہٹا کر باہر کی طرف سانس خارج کرنے پر احساس ہوا کہ یہ تو ہماری سانس کی گرم ہوا ہے، جو منہ سے باہر نکلتے ہی یک دم برف کی تہہ کی صورت اختیار کررہی ہے۔ سردی کی اس خوف ناک لہر کے مشاہدے کے بعد ہم نے فوراًایک ٹیکسی روکی اور سیدھے گھر پہنچ گئے۔ 

گھر آکر درجہ حرارت چیک کیا، تو معلوم ہوا کہ منفی 27ہے۔ یہ جان کر گرم کمرے میں ہونے کے باوجود جسم میں ایک سرد لہر سی دوڑگئی۔ الماتے کی سردی کا تو ہم نے بذاتِ خود تجربہ کیا، لیکن وہاں کے دیگر علاقوں میں اس سے بھی کہیں زیادہ سردی پڑتی ہے، مثلاً قازقستان کے دارالحکومت، آستانا میں تو درجہ حرارت منفی35تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ سرما کے عروج میں باہر کھڑی سب گاڑیاں برف سے ڈھک جاتی ہیں اور کچھ علاقے ایسے بھی ہیں، جہاں سردیوں میں لوگ اپنی گاڑیاں رات کو بند نہیں کرتے،مسلسل اسٹارٹ رکھتے ہیں،کیوں کہ ایگنیشن آف کرنے کی صُورت میں سردیوں کے اختتام تک گاڑی پھر اسٹارٹ نہیں کی جاسکتی۔

گرم پانی کی سپلائی کا مرکزی نظام

انسان اپنے رہن سہن کو اپنی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی کیسی عُمدہ صلاحیت رکھتا ہے، اس کا اندازہ یہاں کے مربوط مرکزی نظام سے لگایا جاسکتا ہے، جس کے تحت تقریباً 10لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کو سردی سے بچانے کے لیے مستقل بنیادوں پر گرم پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اگرچہ پہلے سابق سوویت یونین کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے شہر میں یہ نظام موجود تھا، لیکن بہتر طور پر دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب اب صرف مرکزی شہروں تک محدود ہے اور اس کے لیے مرکزی شہر سے باہر بڑے بڑے بوائلرز نصب کیے گئے ہیں، جن سے سال بھر پورے شہر کو روزمرّہ استعمال کے لیے گرم پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ 

بڑے بڑے پائپوں کے ذریعے پہنچایا جانے والا یہ پانی ہی سب گھروں کو گرم رکھتا ہے۔ اس نظام کو روسی زبان میں ’’اتپلینیا‘‘ کہتے ہیں۔ اتپلینیا سے مراد گرم رکھنے والی چیز ہے۔ اس نظام کے تحت مرکزی سپلائی لائن سے گرم پانی گھروں کی اندر موجود پائپوں کے ذریعے کمروں کے دیواروں کے بیچ سے ہوتا ہوا اگلے مکان کی عمارت میں داخل ہوجاتا ہے۔ گھروں سے گزرنے والے یہ پائپس جب دیواروں کے بیچ پہنچتے ہیں، تو 6سے 7عدد چوڑے پائپوں کے ایک عمودی پینل کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور ان میں موجود گرم پانی گھروں کو گرم رکھنے کا باعث بنتا ہے۔ یہاں کی حکومت کا اوّلین مقصد عوام النّاس کو سہولتیں بہم پہنچانا ہے اور گرم پانی کی سپلائی کا یہ مرکزی نظام اس کا ایک واضح ثبوت ہے، جو سابق سوویت یونین دَور سے کام کررہا ہے۔

اس کے علاوہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہوائی اڈے کی موجودگی اور صحت و تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ قریباً سو فی صد شرحِ تعلیم دیکھ کر حد درجہ حیرانی ہوتی ہے کہ آخر پھر تک سوویت یونین کا یہ حال کیوں ہوا۔ یقیناً سوویت یونین کی توسیع پسندانہ سوچ نے ہی اسے تباہ کیا، لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوشل ازم اور کمیونزم کے فلسفے نے کیوں مات کھائی کہ آج ماسکو بھی سرمایہ دارانہ معیشت استوار کرنے میں لگاہوا ہے، تو اس کا سیدھا سادہ جواب یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح سوشل ازم اور کمیونزم بھی وسائل اور دولت کی تقسیم کی بجائے ارتکاز ہی کا باعث بنا۔ 

فرق صرف یہ ہے کہ اوّل الذکر انفرادی ارتکاز، جب کہ موخرالذکر محض چند میں ارتکاز کا موجب ہے۔ ایک اور بہت واضح فرق یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ذاتی مفاد کا حتی الامکان تحفّظ، جب کہ کمیونزم میں ذاتی مفاد کی نفی بدرجۂ اتم نفی موجود ہے۔ اور یہ ذاتی مفادات کا تحفّظ ہی سرمایہ دارانہ نظام کی تباہی کا باعث ہے اور موجودہ کساد بازاری اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حالاں کہ اگر ایک اعتدالی زاویہ زاویۂ نظر اپنا لیا جائے، تو انسانیت موجودہ تباہ کن معاشی بھول بھلّیوں سے نکل کر ایک فلاحی معاشی نظام کی جانب بڑھ سکتی ہے، وگرنہ وہ وقت دُور نہیں، جب سرمایہ داروں کے گریبان ہوں گے اور عوام النّاس کے ہاتھ۔

قازقستان سے تاجکستان کی طرف

قازقستان میں ہمارا انٹرنیشنل بزنس ڈویژن بہت تیزی سے ترقی کرتا اورپھیلتا جارہا تھا۔ کئی ممالک میں تو بزنس آپریشنز، براہِ راست نگرانی کے بغیر دوسرے ممالک سے چلائے جارہے تھے۔ ایک روز مَیں آفس پہنچا، تو مجھ سے کہا گیا کہ اپنا پاسپورٹ دے دیں، تاکہ آپ کے لیے تاجکستان کا ویزا لگوایا جاسکے۔ میں سمجھا کہ مجھے تاجکستان کے دورے پر بھیجا جا رہا ہے، لہٰذا اپنا پاسپورٹ آفس منیجر کے حوالے کرکے کام میں مصروف ہوگیا۔ لنچ بریک میں جب اپنے باس سے استفسار کیا کہ مجھے کتنے دن کے دورے پر تاجکستان بھیجا جارہا ہے، تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’دورے پر نہیں، بلکہ آپ کا ٹرانسفر تاجکستان کردیا گیا ہے، آج شام آپ کو ہیڈ آفس سے ٹرانسفر لیٹر مل جائے گا۔‘‘ 

یہ سن کر مجھے اچھا خاصا دھچکا لگا کہ مجھ سے پوچھے بغیر اس قدر عجلت میں یہ فیصلہ کیوں کیا گیا۔ بہرحال، میں نے آفس سے چھٹّی لی اور گھر چلا گیا۔ تھوڑی دیر سوچ بچار کے بعد اپنے سی ای او کو فون ملایا اور ٹرانسفر کی وجہ دریافت کی، تو انہوں نے کہا ’’ہم آپ کو مخصوص اور الگ مارکیٹ دے رہے ہیں، جہاں آپ اپنی پالیسیز بنانے میں آزاد ہوں گے اور اس کے اچھے، بُرے نتائج کے ذمّے دار بھی آپ خود ہوں گے۔ 

اگر کام یاب رہے، تو اس کا صلہ ملے گا اور ناکام ہوئے، تو بہت کچھ سیکھ لیں گے۔ آپ جائیے اور ہمارے لیے اور اپنے ملک کے لیے تاجکستان کی مارکیٹ تشکیل دیجیے۔‘‘ ایک طرف تو یہ بات بہت بھلی محسوس ہوئی، لیکن دوسری طرف تھوڑی الجھن بھی ہوئی، کیوں کہ تاجکستان نہ تو بہت بڑی مارکیٹ تھی اور نہ ہی پُرکشش معیشت کہ جس سے زیادہ اُمیدیں لگائی جاتیں۔ تاہم، تاجکستان کی خطّے میں ایک اسٹرٹیجک اہمیت ضرور تھی، جس نے بالآخر مجھے وہاں جانے پر قائل کردیا۔ سو، اگلے روز اپنے ہیڈ آفس کو حتمی ای میل کردی کہ مَیں تاجکستان جانے پر رضامند ہوں، جس کا انہوں نے خیر مقدم کیا۔

دوشنبہ کی ویران شاہ راہیں

مارچ2006ء کے ایک چمکتے دمکتے دن ہم دوشنبہ ائرپورٹ پر اُترے۔ تاجکستان آفس کے ڈاکٹر سلیم اورقربان علی ہمیں لینے آئے ہوئے تھے۔ ائرپورٹ سے نکل کر شاہ راہ پر پہنچے، تو ہر طرف اداسی اور سناٹے کا راج تھا۔ ویران شاہ راہ دیکھ کر اُن سے پوچھا کہ ’’یہ تاجکستان کا دارالخلافہ ہے، لیکن چہل پہل بالکل بھی نہیں۔‘‘ تو انہوں نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا ’’ہم نسبتاً پرسکون علاقے سے گزر رہے ہیں، شہر کے مرکز میں مناسب چہل پہل رہتی ہے، اوروہیں آپ کی رہائش ہے۔‘‘ 

دراصل ہماری رہائش کے لیے فلیٹ کا بندوبست پہلے ہی سے کردیا گیا تھا۔ سو، ائرپورٹ سے سیدھے فلیٹ پرگئے۔ سارا راستہ خاموشی سے گزرا۔ اگرچہ الماتا میں بھی زیادہ چہل پہل نہ تھی، مگر پھر بھی سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت اچھی خاصی رہتی تھی، جب کہ یہاں دوشنبہ میں تو ٹرانسپورٹ بالکل ہی ناپید نظر آرہی تھی۔ بہرحال، فلیٹ پہنچےسامان وغیرہ سیٹ کرکے کچھ دیر آرام کے غرض سے لیٹ گئے کہ اب ایک نئے شہر میں گویا ایک نئے سفرِزندگی کا آغاز کرنا تھا۔ (جاری ہے)