• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فری اینڈ فیئر الیکشن سیاسی جماعتوں کے بس کی بات نہیں: رضاربانی

رضا ربانی—فائل فوٹو
رضا ربانی—فائل فوٹو

پیپلز پارٹی کے رہنما، سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اگر چاہیں بھی کہ الیکشن فری اینڈ فیئر ہوں لیکن یہ ان کے بس کی بات نہیں۔

سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اپنی سربراہی میں اسلام آباد میں پاکستان میں الیکشن، سیاسی استحکام اور معاشی بحالی کے موضوع پر منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی نہ ہو، سیاسی انجیئنرنگ ہو گی تو ممکن نہیں ہو سکے گا کہ فری اینڈ فیئر الیکشن ہوں۔

انہوں نے کہا ہے کہ مشاہد حسین تو آئندہ الیکشن کو فری اینڈ فیئر نہیں دیکھ رہے،  ملک میں شفاف الیکشن کے لیے سب جماعتوں کو برابری کا موقع دیں، الیکشن اس لیے نہیں ہوں گے کہ انہیں جمہوریت سے محبت ہے، الیکشن اس لیے ہوں گے کہ نگراں حکومت سے جو توقعات تھیں کہ ملک کی معیشت کو درست سمت لے کر جائے گی وہ پوری نہیں ہوئی۔

سینیٹر رضا ربانی کا کہنا ہے کہ معیشت کا معاملہ آئندہ حکومت ہی آ کر دیکھے گی، صرف الیکشن کا انعقاد سیاسی استحکام نہیں لاتا، اگر ہم سیاسی استحکام چاہتے ہیں تو الیکشن کے رزلٹ کو تسلیم کیا جائے، سول ملٹری تعلقات کی مساوات پر نظرِ ثانی کی جائے، اختیارات کے مثلث پر کام کیا جائے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ہر ادارہ آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے کردار کو ادا کرے، ہمارا المیہ ہے کہ 75 سال بعد بھی ہم نظامِ جمہوریت کی بات کر رہے ہیں، ہم ایک نئے نظام کی بات کر رہے ہیں۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ میں ان تمام فورسز کو متنبہ کرتا ہوں جو نیا مرکزی نظام حکومت لانا چاہتی ہیں کہ آپ آگ سے کھیل رہے ہیں، صوبے تیار نہیں کہ آپ ملک میں ون یونٹ لائیں، آیا پارلیمانی جمہوریت ہو یا صدارتی نظام ہو، اس ملک میں غریب عوام نے پارلیمانی جدوجہد کی۔

انہوں نے کہا ہے کہ المیہ ہے کہ 75 سال بعد بھی ہم نظامِ جمہوریت کی بات کر رہے ہیں، ہم آئین میں ترمیم نہیں منسوخی کی بات کر رہے ہیں، ہم ایک نئے نظام کی بات کر رہے ہیں۔

سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ایوب خان کہتے تھے کہ صدارتی نظام سب سے بہترین ہے، کیا قائدِ اعظم کا وہ نوٹ اصل بھی ہے جس میں انہوں نے صدارتی نظام کی بات کی، آئین میں بہتری ہو سکتی ہے، لیکن پارلیمانی نظامِ حکومت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

اُن کا کہنا ہے کہ 1947ء سے آج تک جو پالیسی چلائی اس سے ملک میں عدم استحکام آیا ہے، پاکستان کو ترقی کرنی ہے تو لازم ہے کہ ادارے آئین کی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں، اب 3 سال میں آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔

ایک آرمی چیف کے وقت میں 5 وزرائے اعظم آئے: مشاہد حسین

پریس کانفرنس سے سینئر سیاستداں مشاہد حسین سید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک آرمی چیف کے وقت میں 5 وزرائے اعظم آئے، اس دور میں سیاسی عدم استحکام ہوا، ملک میں 3 ماڈل ہیں، ایک 2018ء کا ماڈل ہے جس میں سیاسی انجینئرنگ ہوئی، دوسرا ماڈل تھائی لینڈ کا ہے جس میں پاپولر لیڈر کو نااہل کیا گیا اور تیسرے ماڈل میں اردگان نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر پابندی لگائی۔

مشاہد حسین سید نے کہا کہ نظریۂ ضرورت کو سپریم کورٹ نے دفن کیا لیکن سیاست میں موجود ہے، تینوں سیاسی جماعتوں نے آرمی چیف کی توسیع کا متفقہ فیصلہ کیا، تینوں جماعتوں نے متفقہ طور پر آئی ایم ایف کے معاہدے کو ناگزیر کہا اور ایف اے ٹی ایف کی قانون سازی کو متفقہ منظور کیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر 14 جماعتیں اکٹھی بیٹھ سکتی ہیں 16 ماہ کے لیے تو اب بھی سیاسی جماعتیں اکھٹی بیٹھ سکتی ہیں، آرمی اسکول حملے کے بعد پی ٹی آئی اس کانفرنس میں بیٹھی تھی۔

مشاہد حسین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت، کوئی ادارہ اکیلے ملک کو موجودہ بحران سے باہر نہیں لے کر جا سکتا، یہ کام مل کر کرنا ہو گا۔

قومی خبریں سے مزید