• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ تین، چار سال پاکستانی عوام کے لئے بہت مشکل گزرے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت اور ڈالر کی قدر میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے روز افزوں مہنگائی نے عام آدمی کا جینا محال بنا دیا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ حالیہ چند برسوں کے دوران ریاست اور معیشت کے ساتھ بہت زیادہ کھلواڑ ہواہے لیکن اب کچھ بہتری کی اُمید نظر آ رہی ہے۔ میں اُمید کا لفظ بہت زیادہ احتیاط سے استعمال کر رہا ہوں۔بہتری کی اُمید اسلئے نظر آ رہی ہے کہ اب ماضی کی طرح عوام کو وقتی ریلیف دینے کے بجائے بنیادی مسائل حل کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ اگر بنیادی مسائل کے حل کےلئے اٹھائے گئے اقدامات تسلسل کے ساتھ جاری رہے تو ملکی معیشت کی سمت درست ہو سکتی ہے اور عوام کی مشکلات میں کمی آ سکتی ہیں۔

ڈالر کی اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی کے ذریعے اس کی غیر قانونی ترسیل نے ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اوپن مارکیٹ اور حوالہ ہنڈی نے آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے انٹر بینک کو مشکل میں ڈال دیا۔ لوگ ڈھیروں ڈھیر ڈالر خرید کر ذخیرہ کرتے رہے تاکہ اس کی قدر میں اضافے سے منافع کما سکیں۔ اسمگلنگ بھی ڈالر کی قدر میں اضافے کی بڑی وجہ تھی۔ ڈالر کی قدر میں اضافے کا اثر پٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیائے ضروریہ حتیٰ کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ بھی دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ حوالہ ہنڈی کے ذریعے ڈالر بھیجنے پر چونکہ زیادہ منافع مل رہا تھا اس لئے وہ اوورسیز پاکستانی جو حب الوطنی کی باتیں کرتے نہیں تھکتے تھے، وہ بھی بینکنگ چینل کے بجائے اسی غیر قانونی راستے سے ڈالر بھیج رہے تھے۔ اُن کا یہ عمل نہ صرف پاکستان کے مفادات کے خلاف تھا بلکہ اُن ممالک کے قوانین کے مطابق ایک جرم تھا جہاں وہ مقیم ہیں، اُن کے اس عمل نے پاکستان کے عوام کو شدید مشکل میں ڈالا۔ دوسرا بڑا مسئلہ اشرافیہ کی اجارہ داری ہے۔اشرافیہ کی اجارہ داری سے مراد یہ ہے کہ وہ یہاں کے پالیسی ساز اداروں پر اثر انداز ہو کر صرف ایسی پالیسیاں بنواتی ہے جو صرف اُس کے مفادمیں ہوتی ہیں اور عام آدمی کا بھرکس نکال دیتی ہیں۔ اشرافیہ میں کاروباری افراد، بیوروکریٹ اور سیاستدان سب ہیی شامل ہیں۔ اشرافیہ کی اجارہ داری کی حالیہ مثال چینی کی برآمد ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ چینی مقامی ضروریات کےلئے بھی کافی نہیں تھی، پی ڈی ایم کی حکومت نے زرداری صاحب کے اسرار پر صرف اشرافیہ کے مفادات کے لئے اس کی برآمد کی اجازت دے دی۔ریٹائرمنٹ پر سینکڑوں ایکڑ اراضی الاٹ ہونا۔ دوران سروس بیوروکریٹ اور وزرا کئی کئی گاڑیوں کے قافلوں میں سفر کرتے ہیں۔ دنیا کا کونسا مہذاب ملک ایسا ہے جہاں افسر شاہی اور اتنا پروٹوکول، گاڑیاں، پلاٹ اور زمینیں ملتی ہیں؟ اگر افسر شاہی اور سیاستدانوں کو ملنے والا پروٹوکول ختم کر دیا جائے، انہیں الاٹ شدہ پلاٹ اور زمینیں مارکٹ ریٹ پر نیلام کی جائیں تو ایک خطیر رقم ملکی خزانے میں جمع ہو سکتی ہے۔

یہاں ٹیکسوں کا نظام ایسا ناکارہ ہے کہ غریب عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کرکے بڑے بڑے صنعتکاروں اور کاروباری افراد کو ریلیف اور سبسڈی دی جاتی ہے۔ نگراں وزیر خزانہ نے چند روز قبل ٹیکس نظام میں اصلاحات کے لئے ٹاسک فورس تشکیل دیتے ہوئے کہا ہے کہ کاروباری طبقے کو اب اپنا بزنس ماڈل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ملک کا معاشی نظام انہیں مزید سبسڈیز دینے کا متحمل نہیں۔ ریلیف اور سبسڈیز ملک کے غریب طبقے کے لئےہونی چاہئے، اشرافیہ کے لئے نہیں۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر، زرعی سیکٹر اور اشرافیہ پر اب ٹیکس عائد کرنا ضروری ہو چکا ہے۔ ان کے کاروبار کی کھپت پر اور آمدنی پر بھی۔ زیادہ سے زیادہ ٹیکس ریونیو جمع کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا صحیح استعمال بھی بہت ضروری ہے۔ اکثرحلقے ٹیکس کی اہمیت سمجھتے ہیں اور کسی حد تک اسی کی ادائیگی کے لئےرضا مند بھی ہیں لیکن جب تک حکومتی حلقوں میں ہی اس چیز کا ادراک نہیں کیا جائے گا، معاملات درستگی کی جانب گامزن نہیں ہو سکتے۔ حکومتی حلقوں سے یہ اُمید ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ نہ صرف اس کی حساسیت کو سمجھیں گے بلکہ اس حوالے سے تعاون بھی کریں۔

ہمیں اُن سرکاری انٹر پرائزز سے بھی جان چھڑانی ہے جن کا خسارہ اُن کے کل اثاثوں سے زیادہ ہو چکا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال پی آئی اے ہے جسے ہم ملکی اثاثہ کہتے تھکتے نہیں تھےلیکن یہی ملکی اثاثہ ملک معیشت کے لئے ایک بوجھ بن چکا ہے۔پی آئی اے کو گزشتہ 10سالوں میں 7ارب ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ ہم 3ارب ڈالر کے لئے آئی ایم ایف کی اتنی شرائط پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سادہ سی مثال ہے کہ اگر آپ کوئی پلاٹ لیں اور اس کی قیمت بڑھنے کے بجائے روز بروز کم ہوتی جائے حتیٰ کہ اُس کی قیمت اتنی گر جائے کہ اصل قیمت سے بھی کم ہو جائے تو کیا آپ اسے فوراً سے پیشتر بیچ دیں گے یا اپنے پاس رکھیں گے؟ سرکاری انٹر پرائزز کے نجکاری کے عمل میں تیزی بھی اُمید کی ایک کرن ہے۔خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام اور اس کے ذریعے بیرونی سرمایہ کاری کا حصول بھی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے لوگوں میں سرمایہ کاری کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ تعلیم، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، برآمدات اور ہنر مند افرادی قوت کے فروغ سے پاکستان کو بہت زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئی کمپنیوں اور نوجوانوں کو انٹر پرینیورشپ کی طرف لانا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ چیزیں بھی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے منشور میں شامل ہونی چاہئیں۔ حکومت کو ملکی معیشت کی درستگی کےلئے ضروری عوامل کی ایک ترجیحی فہرست بنانے کی ضرورت ہے جس پر من و عن عملدرآمد کیا جانا چاہئے۔ہم بڑے سیاسی کھیل کھیل چکے، آزادی اور غلامی کے نعرے لگا چکے، بڑی بڑی باتیں کر چکے لیکن کوئی بھی ملک محض نعروں، سیاسی بیانیوں اور بیان بازیوں سے ترقی نہیں کر سکتا۔ ہمیں ملک کو معاشی استحکام کی طرف گامزن کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھاناہوں گے۔ موجودہ مشکل معاشی حالات میں اگر بہتری کی کوئی امید پیدا ہوئی ہے تو اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین