کسی درخت کی جڑ پر 302 لکھ دیں تو وہ بھی سوکھ کر نہ صرف خود مر جاتا ہے بلکہ اسکے قریب دوسرا پودا نشو ونما بھی نہیں پاسکتا ہے، منتخب سیاسی حکومتوں کی جڑوں پر 302 سمیت کئی خوفناک دفعات لگا کر شب خون مارے گئے،ماضی میں صرف پرنٹ میڈیا اور بعد ازاں ٹی وی جبکہ اب سوشل میڈیا بھی کنٹرول کرلیا جاتا ہے، عوام نے دیکھا ہے کہ کس طرح بار بار ہمارے پھلتے پھولتے شجر پاکستان کی جڑوں پر نہ صرف 302 لکھ دیا گیا بلکہ اسکی جڑوں میں خوفناک سازشی کھاد ڈالی گئی، کھلی بے ایمانی کرکے اس پر کرپشن کی زہریلی دوا چھڑکی گئی، زبردستی کرکے اس کے پھلوں اور اس کی مٹی کو زرخیز بنانے والے پانیوں پر قبضہ کرلیا گیا، شاہی قلعہ ہویا اٹک جیل ، اڈیالہ ہویا سنٹرل جیل، قصہ مختصر ہر زندان میں ناخلف قرار دیکر قید کئے جانیوالے ہمیشہ سیاستدان ہی کیوں ہوتے ہیں؟ دس سال پہلے نئے سرے سے سیاستدان چور ہیں کا پرانا نعرہ نئی پیکنگ میں دوبارہ پیش کیا گیا،اس کو پاپولر بیانیہ بنانے کیلئے سوشل میڈیا نوجوانوں کی پنیری لگائی گئی، باقاعدہ پالا پوسہ گیا،انکے فرائض میں صبح دوپہر شام سیاستدانوں کیخلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ کرنا اورمخصوص حلقوں کے قصیدے پڑھنا تھا،گزشتہ دس سال میں اخلاقیات، سماجیات، قوائدو ضوابط اور یہاں تک کہ آئین اور قانون کی جتنی دھجیاں اڑائی گئیں اسکی مثال نہیں ملتی ، بیرون ملک پاکستانیوں کو سبز باغ دکھائے گئے، حسن بن صباح کی جعلی جنت جیسے ماحول کا پروپیگنڈہ کرکے شعبدے باز کرشماتی شخصیت بنا کر پیش کئے گئے، دن دہاڑے اتنے ڈاکے مارے گئے کہ دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا، سفارتی تعلقات کو بچوں کی طرح من مانی کرکے خوفناک زخم لگا ئے گئے، کشمیر ہاتھ سے یوں گرایا گیاکہ جیسے ہمارا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں،مڈل ایسٹ سے لیکر یورپ تک دوست ممالک سے تعلقات ایسے خراب کئے جیسے آئے ہی اسی کام کیلئے تھے، معاشرتی اخلاقیات کی شدید تباہی کو دیکھ کر لگتا ہے اسکی مرمت میں صدیاں درکار ہوں گی، مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے معاشرے میں مزید ایک نیا طبقہ پیدا کردیا گیا، کورونا سے بھی زیادہ خطرناک یہ طبقہ ہرحال میں اپنے لیڈر کے ہر بیانیے کو آنکھیں بند کرکے ماننے کو تیار رہتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ انکے دماغوں میں کنٹرولنگ چپ لگا کر 9 مئی برپا گیا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے جنھیں افغانستان میں جہادی بناکر اسلحہ تھمایا تھا وہ سپر پاور ہونےکے باوجود ان سے نمٹ نہیں پایا تھا، بالکل اسی طرح مخصوص ایجنڈے کے تحت دس سال پہلےسوشل میڈیا کی زمین پر لگائی گئی پنیری جوان ہوچکی ہے اس پر کونسا اسپرے کریں گے کہ انکے زہریلے اثرات ختم ہوجائیں؟21 اکتوبر کو میاں نواز شریف واپس آرہے ہیں،ہر طرف سے چوہدری شجاعت المشہور ’مٹی پائو‘ فارمولہ اپنانے کی بازگشت جاری ہے، سماجی سائنسدانوں کا کہنا ہےکہ ہماری مٹی میں نقصان دہ کیڑوں ، گلابی سنڈیوں ، وائرس اور بیکٹیریا کی تعدا د ریڈ لائین کراس کرچکی ہے جس کی وجہ سے یہ کیڑے پھول اورپھل دونوں کو مسلسل کھا ئے جارہے ہیں ،عوام بھرپور آواز اٹھا رہے ہیں کہ کب تک مٹی پائو فارمولہ استعمال کیا جاتا رہیگا ؟ کب تک ملکی معیشت کوڈنک مارنےاور عوام کو دیوالیہ کرنیوالےقومی مجرموں کو بیل آئوٹ پیکیج دیا جاتا رہیگا ؟ عوام مطالبہ کررہے ہیں کہ ہماری ساتھ ہوئی ڈکیتی کا ازالہ کون کریگا؟ کیا گارنٹی ہے کہ آئندہ کوئی نیا تجربہ نہیں کیا جائیگا؟ عوام تو یہ سوال کررہے ہیں کہ اگرکنٹرول نہیں کئےجاسکتے تو زہریلے سانپ اور بچھوپالے ہی کیوں جاتے ہیں؟ سب سے اہم سوال یہ کہ کب تک سیاستدانوں کو اپنا مقدمہ اللّٰہ پر چھوڑنے پر مجبورہونا پڑے گا؟