آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: (DNA) ڈی این اے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ ڈی این اے (DNA) کی ممکنہ جائز صورتیں کون کون سی ہیں؟
1: اگر ایک بچہ کے سلسلے میں کئی شخص دعوےدار ہوں کہ یہ میرا لڑکا ہے، تو سائنس دانوں کے خیال کے مطابق بچہ اور ان دعوےداروں کا (DNA) ڈی این اے ٹیسٹ کر کے یہ بات معلوم کی جاسکتی ہے کہ حقیقی معنوں میں اس کے والدین کون ہیں ؟ ایسے اختلاف کو حل کرنے کے لیے کیا (DNA) ڈی ای اے ٹيسٹ کرایا جا سکتا ہے اور شرعاً کس حد تک اس کا اعتبار کیا جائے گا؟
2: آج کل قاتل کی شناخت کے لیے بھی (DNA) ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جاتا ہے، اگر جائے قتل کے پاس قاتل کی کوئی چیز مل جائے ، جیسے بال یا خون وغیرہ، تو اس کے ٹیسٹ سے قاتل کی شناخت کی جاتی ہے، لیکن یہ تکنیک ابھی اس درجہ کمال تک نہیں پہنچی ہے کہ معلوم ہوسکے کہ جو فارنسک نمونہ (forensic sample) جائے واردات سے اٹھا یا گیا تھا ، وہ اسی ملزم کا ہے، کیا ایسی صورت میں (DNA) ٹیسٹ کی بنیاد پر کسی کو قاتل قرار دینا درست ہوگا ؟
(الف) ڈی این اے (DNA) کے ذریعے زانی کی بھی شناخت کی جاتی ہے ، اگر اس عورت کے جسم کے مادہ منویہ کا نمونہ حاصل کر لیا جائے، تو زانی کی شناخت DNA ٹیسٹ کے ذریعے بہ آسانی کی جا سکتی ہے، زنا کے ثبوت میں اس ٹیسٹ کی شرعی حیثیت کیا ہوگی ؟
(ب) بعض کیس اجتماعی آبروریزی کے بھی ہوتے ہیں ، ایسی صورت میں DNA ٹیسٹ بذات خود کمزور مانا جاتا ہے ، کیونکہ اس ٹیسٹ میں ملے جلے سگنل کسی تیسرے شخص کی غلط نشاندہی بھی کر سکتے ہیں ، ایسی صورت میں ٹیسٹ کا کیا حکم ہوگا ؟
3: اگر کسی جرم میں ایک سے زیادہ اشخاص ملوث ہوں، الزام کی بناء پر بعض ملزمین کا DNA ٹیسٹ کرایا گیا ، لیکن بعض ملزمین ٹیسٹ کرانے کو تیار نہیں ہیں تو کیا قاضی (جج) انہیں DNA ٹیسٹ پر مجبور کر سکتا ہے ؟
جواب: واضح رہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج کا دار ومدار انسانی عمل اور مشین کی کارکردگی پر منحصر ہے اور دونوں خطا کے امکان سے خالی نہیں، اس لیے ڈی، این، اے ٹیسٹ کو کسی امر کے حتمی ثبوت کے لیے معیار نہیں بنایا جاسکتا ، خصوصاً جب کہ شریعت نے کسی معاملے میں ثبوت کے ذرائع کی صراحت کردی ہو ، البتہ یہ ایک قرینے کا درجہ رکھتا ہے، اس لیے کسی ایسے معاملے میں جہاں کسی شرعی حکم کا اثبات اس پر موقوف نہ ہو اور مزید کوئی یقینی ذریعہ تصدیق یا تردید کا نہ ہو تو اس ظنی ذریعے کا سہارا لے سکتے ہیں، مثلاً چند افراد کے بارے میں موت کایقین ہو کہ مرنے والے یہی ہیں، لیکن انفرادی طور پر شناخت کا کوئی یقینی ذریعہ نہ ہو اور وارثوں میں جھگڑا ہو تو لاشوں کو ورثاء کے حوالے کرنے کے لیے D.N.A ٹیسٹ کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر ایک بچے کے مختلف دعوےدار ہوں تو ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ان میں سے کسی ایک شخص کے ساتھ بچے کا نسب متعین کرنا شرعاً جائز اور درست نہیں، شریعت میں نسب کے ثبوت کے متفقہ طریقے: فراش (عورت جس مرد کے نکاح میں ہو ، اس سے بچے کا نسب ثابت ہونا) ، شہادت (گواہی) اور اقرار ہیں، نیز احناف رحمہم اللہ کے نزدیک ”قیافہ“ کا اعتبار بھی نہیں ہے، لہٰذا ”ثبوت نسب“ کے سلسلے میں ان ہی شرعی طریقوں کا اعتبار ہوگا۔
2: شرعی طور پر محض ڈی این اے ٹیسٹ کی بناء پر کسی کو قاتل نہیں قرار دیا جاسکتا، جب تک کہ اقرار یا شرعی گواہوں کے ذریعے کسی کا قاتل ہونا ثابت نہ ہو۔
3: زنا کے ثبوت میں بھی ڈی این اے ٹیسٹ کا اعتبار نہیں، اگر چار چشم دید نیک مسلمانوں کی گواہی یا اقرار سے ثابت ہوجائے تو ثابت ہوگا، ورنہ نہیں۔
4: قاضی کے فیصلے کی بنیاد شرعی شہادت یا اقرار پر ہوتی ہے،اور وہ عدل وانصاف کرنے کا مکلّف ہے ، لہٰذا قاضی کے لیے محض شک یا الزام کی بنیاد پر معاملے کی تفتیش کے لئے کسی کو ڈی این اے ٹیسٹ کرانے پر مجبور کرنا درست نہیں ، کیوں کہ ڈی این اے ٹیسٹ ایک ظنی چیز ہے، اور اس پر شرعی حکم کا مدار نہیں ہے، بالخصوص حدود اور قصاص شرعاً شبہات سے ساقط ہوجاتے ہیں، اور اس طرح کے کیس میں ڈی این اے پر مجبور کرنا شریعت کی منشاء کے خلاف ہے۔ یہ عمل چوں کہ آلات، مشین کی کارکردگی اور انسانی عمل پر موقوف ہے، اس میں خطا کا امکان بھی ہے اور اس کی رپورٹ میں تلبیس اور تبدیلی وغیرہ کے ذریعےبے گناہ ملزم کو مجرم ثابت کرنے کے لیے بھی استعمال ہونا خارج از امکان نہیں ہے۔
باقی زیادہ سے زیادہ ڈی این اے کی حیثیت قرائن اور علامات کی ہے، اگر ان قرائن کی وجہ سے ملزم جرم کا اقرار کرلیتا ہے تو اقرار کی وجہ سے اس پر جرم کی سزا لاگو ہوگی۔(صحیح البخاری، کتاب الفرائض، 2/ 999، ط: قدیمی۔ سنن الترمذی، أبواب الحدود، باب ما جاء فی درء الحدود، 3/ 85، ط:دارالغرب الاسلامي۔ الفتاویٰ الھنديۃ، کتاب الطلاق، الباب الخامس عشر فی ثبوت النسب، 1/ 536، ط: رشیدیہ۔ شرح المجلۃ للمرحوم سلیم رستم باز، الکتاب الخامس عشر فی حق البینات و التحلیف، الفصل الثانی فی بیان القرینۃ القاطعۃ، 2/ 844، ط: مکتبۃ رشیدیۃ)