آپ کے مسائل اور ان کا حل
سوال: میرا سوال مچھلیاں پکڑنے اور ان کے کاروبار سے متعلق ہے، فشری میں کچھ لوگ وہ ہیں جن کے پاس لانچیں ہیں، سرمایہ ہے۔ یہ لوگ جن کے پاس لانچیں اور سرمایہ ہے، دوسرے لوگوں کو مچھلیاں پکڑنے کے لیے سمندر میں بھیجتے ہیں، انہیں اپنی لانچ دیتے ہیں۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جو مچھلیوں کاشکار کرتے ہیں، وہ سمندر میں جاکر مچھلیاں پکڑسکتے ہیں، سمندر میں کئی کئی دن گزارسکتے ہیں، مگر ان کے پاس مچھلیاں پکڑنے کے لیے لانچیں نہیں ہوتیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو گزر بسر کے لیے دوسروں کی لانچیں لے کر جاتے اور مچھلیاں پکڑتے ہیں۔
یہ جب مچھلیاں پکڑ کر واپس آجاتے ہیں تو مچھلیاں فروخت کردی جاتی ہیں اور جو رقم حاصل ہوتی ہے، وہ لانچ کا مالک اور یہ لوگ آدھی آدھی تقسیم کرلیتے ہیں۔ ازروئے شریعت کاروبار کی یہ صورت جائز ہے؟
جواب: شریعت کا قاعدہ ہے کہ مباح اَشیاء میں شرکت نہیں ہوسکتی۔ سمندر میں مچھلیاں مباح ہوتی ہیں، مباح ہونے کی وجہ سے ہر ایک کو ان کے پکڑنےکا حق حاصل ہوتا ہے اور جو انہیں پکڑلیتا ہے وہی ان کا مالک ہوجاتا ہے۔
اس وجہ سے کاروبار کی یہ صورت ناجائز ہے۔ مچھلیاں صرف ان کاحق ہوں گی، جو اُنہیں پکڑلیں گے اور لانچ کے مالک کو بازار کے حساب سے لانچ کا کرایہ ملے گا۔